نہ جب تک کٹ مروں میں
خواجہء بطحٰی کی حرمت پر
خدا شاہد کہ کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
(جیسا کہ ہم اکثرو بیشتر مختلف احباب کے مضامین پر کمنٹس کرتے ہوئے بھی اور
اس کے علاوہ اپنے مضامین میں بھی اس بات کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ ہماری
بڑھتی ہوئی مصروفیات ، ہمیں بہت سے تخلیقی و تحریری کام کرنے سے روکتی ہیں
، تو یہ سو فیصد درست حقیتیت ہے- اسی باعث ہم محض اپنے احباب کی حوصلہ
افزائی اور کلمہ ء حق کی تائید کے طور پر بس اپنے کمنٹس پر ہی اکتفا کر
لیتے ہیں ورنہ تو بہت سے نکات ایسے ہوتے ہیں جو تفصیل طلب ہونے کے ساتھ
ساتھ نہایت توجہ چاہتے ہوتے ہیں- یہی وجہ ہے کہ ابھی گزشتہ روز ہمارے ایک
مختصر سے مضمون تصوف اور اسکی حقیقت پر جب احباب نے اپنی پسندیدگی کا اظہار
کیا اور ساتھ ہی اس سلسلے کو مزید آگے بڑھانے کا ارشاد بھی کیا تو ہم نے ان
سے وقتی طور پر معذرت ہی چاہی- بہر حال ! آج بھی ہم فقط مختصر طور پر دین
اسلام کے ایک نہایت اہم اور حساس ترین مسئلہ کی جانب اپنے اہل علم احباب کی
توجہ مبذول کروانے کی غرض سے یہاں حاضر ہوئے ہیں اور انشاءاللہ اس حساس
ترین مسئلہ کے لئے ہم ہمہ وقت سر بکف حاضر ہیں اگر کسی کو اس پر کوئی
اعتراض یا اختلاف ہو گا تو پھر ہم ہر قسم کی مصروفیات کو تج کر اس کا حرف
بحرف جواب دیں گے)
قارئین کرام ! حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت، عقیدت اور
عزت و حرمت ہر مسلمان کے لئے واجب ہی نہیں فرض عین بھی ہے جس کی اہمیت نصوص
قطعی سے ثابت ہے- اسی طرح آنجناب علیہ السلام کے والدین کریمین ، آپ کے آل
و اصحاب رضوان اللہ علیھم کو بھی (آنحضور رسالت مآب علیہ السلام کی نسبت
قربت کے سبب) وہی شخصی امتیاز حاصل ہے-
یعنی آنحضور رسالت مآب علیہ السلام کے والدین کریمین ، آپ کے اباء و اجداد
میں سے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد نور نژاد میں سے یا آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رفقائے صدق طینت و اخلاص مآب ( تمام صحابہ کبار
رضوان اللہ علیھم اجمعین) میں سے ، ہر ایک شخص کی فردا فردا تعظیم و توقیر
علٰی حسب مراتب آنحضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ستودہ
صفات کی طرح ہی کی جائے گی- کیونکہ اس تعظیم و توقیر کا واحد اور سب سے بڑا
سبب محض نسبت قرابت رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور در حقیقیت
(فی نفسہ) یہ تعظیم رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم ہی کی تعظیم و توقیر ھو
گی-
ترے بحر حقیقت میں نمود اپنی حبابی ہے
ترے ہونے سے قائم ہوں ، مرا ہونا ، نہ ہونا کیا ؟
اور چونکہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ستودہ صفات اپنی
صورت و سیرت میں اور اپنے جملہ فضائل و شمائل میں اکمل و کامل ترین ہے اور
آنجناب علیہ السلام کی مثل نا ممکنات میں سے ہے - کسی شاعر نے کیا خوب کہا
تھا کہ
رخ مصطفٰی ہے وہ آئنہ کہ اب ایسا دوسرا آئنہ
نہ ہماری بزم خیال میں ، نہ دکان آئینہ ساز میں
قارئین ! حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثل بالکل اس طرح نا
ممکن ہے جس طرح اللہ نے مثل نا ممکن ہے - قرآن شریف میں ارشاد ربانی ہے کہ
تم نظام کائنات میں غور کرو تو یہ سب تمھیں ایک ہی دائرے میں تیرتا ہوا نظر
آئے گا اور اگر اس کائنات میں دو خدا ہوتے تو فساد بپا ہونے سے یہ نظام
کائنات کب کا ختم ہو چکا ہوتا-
یعنی جیسے خدا وند ذوالجلال اپنی ہستی میں ( تمام پہلوؤں کے ساتھ) یکتا و
واحد اور لا شریک ہے بالکل اسی طرح جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی شخصیت بھی( تمام تر محاسن و محامد اور فضائل و شمائل میں) بے مثل و
یکتا اور لا شریک و واحد ہے- فرق صرف اتنا ہے (مدعیان توحید کی نا فہمی کے
باعث پیدا ہونے والے خطرے کے پیش نظر بتا رہے ہیں ) اللہ تعالٰی اپنی ہستی
اور اپنی ذات میں قائم بالذات ہے جبکہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم سمیت کوئی بھی شے اپنی ذات اور ہستی میں قائم بالذات نہیں ہے کیونکہ
اللہ خالق ہے اور باقی سب مخلوق ہیں اور یہی سب سے بڑا فرق ہے جسے اگر سمجھ
لیا جائے تو ان گنت فتنوں اور غلط فہمیوں سے نجات مل سکتی ہے-
تجھ کو اللہ نے شہکار بنا رکھا ہے
اب کسی اور کو تجھ سا نہیں ہونے دیتا
یہی وجہ ہے آجتک حضور رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثل اور انکا
ہمشکل انسان دنیا میں دوسرا پیدا نہیں ہو سکا کیونکہ سرکار دوعالم نور مجسم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی صورت و سیرت میں خدائے ذوالجلال کی قدرت
کاملہ کا حسین ترین نمونہ تھے- اللہ کی عظمت و کبریائی اور اس کی جلالت شان
کا مظہر اتم تھے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مظہر (یعنی اللہ تعالٰی) تو وحدہ
لا شریک ہو اور اسکا مظہر (یعنی حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
واحد و لا شریک یعنی بے مثل و یکتا فی الذات نہ ہوں-
حمد محمودے کہ در جملہ صور
شد بہ انوار محمد جلوہ گر
اور حضور رسالت مآب کی یکتائی سے شان جلالت الوہیت اورقصر توحید ربانی کی
اساس کسی صورت کمزور نہیں ہوتی بلکہ اس سے اللہ تعالٰی کی عظمت و کبریائی
اور زیادہ مستحکم ہوتی ہے کہ اللہ وہ اللہ ہے جس نے سید عالم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم جیسا احس و اجمل اور کامل و اکمل انسان پیدا فرمایا- یہ معاملہ
کسی اہل نظر اور صاحب دل سے پوچھئے ، کوئی کوتاہ فکر ، کج مغز انسان اس کی
حقیقت سے کیا آشنا ہو گا- حضرت سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ نے
یہ محض اپنی عقیدت کی اساس پر نہیں کہا تھا کہ اے محبوب ! آپ سا حسین و
جمیل آج تک کسی آنکھ نے دیکھا ہی نہیں اور آپ ایسا خوبرو کسی ماں نے جنا ہی
نہیں اور اس خدائے بزرگ و برتر نے آپ کو ہر عیب و نقص سے ایسا منزہ و مبرا
پیدا فرمایا گویا کہ آپ کا اپنا منشا ہی ایسے پیدا ہونے کو تھا یعنی جیسا
آپ چاہتے تھے ویسا آپ کو پیدا کیا گیا-
سبحان اللہ ما اجملک ، ما احسنک ، ما اکملک
کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا ، گستاخ اکھیں کتھے جا اڑیاں
کیونکہ بقول حضرت مولوی بریلوی علیہ الرحمتہ : تیرے تو وصف عیب تناہی سے
ہیں پرے:
کس کو مجال سخن ہے کہ وہ شمائل نبویہ علٰی صاحبھا الصلٰوت و التسلیم میں لب
کشائی کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت عالیہ کے باعث آپ سے
منسوب ہر شخص ، ہر کام اور ہر شے حتٰی کہ شجر و حجر یعنی راہ کے پتھر بھی
معتبر و معزز فی الشان اور محتشم بالذات ہیں - لبٰذا حضور سرور عالم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم تو کجا اگر آپ کے گھر کے جانوروں کی بھی اہانت کی جائے
گی تو اس پر بھی قرار واقعی حدود شریعہ کا اطلاق ہو گا-
مگر قارئین کرام ! نہایت افسوس کے ساتھ اور نہایت دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا
ہے کہ امت مسلمہ کی غفلت اور اس کے ساتھ ساتھ اسکی مردہ ضمیری ، مفاد پرستی
کے باعث آج اہلیان یورپ کی دیدہ دلیری اس حد تک بڑھ گئی کہ انھوں نے حضور
رسالت مآب علیہ السلام کی تمثیلی فلم تیار کر لی ہے جسے ہمارے ملک میں کیبل
کے چینل بالخصوص جیو چینل رمضان المبارک کی نشریات میں بارہا نشر کر کے جرم
اہانت رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارتکاب کھلے عام کر رہا ہے اور
اس پر غضب یہ کہ ہماری قوم کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی-
واضح رہے جیسا کہ بتا چکے ہیں کہ حضور رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
آل و آصحاب کی اہانت بھی سرکار دو عالم ہی کی اہانت متصور ہو گی، مذکورہ
فلم میں صرف حضور سرور عالم اور آپ کے خلفاء راشدین کی تمثیل نہیں پیش کی
گئی ، باقی تمام کرداروں کو یہود و نصارٰی پر کلی طور ( پراپرلی) پر فلمایا
گیا ہے اور اس کی علت اثبات خطبہ ء حجتہ الوداع سے اخذ کی گئی ہے جس کا
مفہوم یہ تھا کہ عالی جناب علیہ السلام نے فرمایا کہ میرا پیغام گھر گھر
پہنچاؤ اور جو یہاں موجود نہیں ، وہ ایک دوسرے کو آگے پہنچا دیں- اور بتایا
جاتا ہے اس فلم کی فلمبندی کی اجازت جامعتہ الازھر (مصر) نے دی ہے-
قارئین کرام ! پیغام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہنچانے کا مفہوم و
معنٰی یہ نہیں جو بطور جواز و حجت اخذ کیا گیا ہے بلکہ پیغام رسانی کے
مطالب و مقاصد حقیقی و اصلی یہ ہیں کہ عالیجناب رسالت مآب علیہ السلام کی
تعلیمات شریعہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، حدود اللہ میں رہتے ہوئے اولیائے
کاملین و صوفیائے عظام کی جملہ مساعی کو سامنے رکھتے ہوئے تبلیغ دین کا
فریضہ ادا کیا جائے، سنتوں کے احیا کی سمت پیش رفت کی جائے، سیرت نبویہ کی
غیر معروف پہلوؤں کو عامتہ الناس میں روشناس کرایا جائے- اخلاقی اقدار کو
فروغ دیا جائے وغیرہ وغیرہ-
جس کے لئے باقاعدہ طور پر مدارس اسلامیہ میں علم شرعیہ سیکھا جانا نا گزیر
ہے- جامعتہ الازھر نے اگر ان لوگوں کو فلمبندی کی اجازت دی ہے تو اس یہ فعل
پوری امت مسلمہ کے لئے باعث شرم ہے اور اس فعل سے جامعتہ الازھر اب اس قابل
نہیں رہی کہ اس پر اعتماد کیا جاسکے-
قارئین کرام ! یہ فلم اور اس فلم کے بنانے والے سراسر توہین اسلام اور بانی
اسلام علیہ السلام کے مرتکب ہیں - اور ان خناس طینت و ابلیس سرشت لوگوں کا
انکی فطری رذالت پر مشتمل یہ فعل ہماری آنے والی نئی نسلوں کے دلوں سے جذبہ
حب رسول کے انخلاع کی اور آپ کی بابت ادب و احترام کے پہلو کے سد باب کی
سمت پیش رفت بھی ہے لبٰذا آج ہماری ویب کے اس پلیٹ فارم سے ہم پوری امت
مسلمہ اور بالخصوص پاکستانی قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس فلم کا ہر ممکنہ
رد کریں اور اس کے بنانے والوں کے خلاف عملی احتجاج کی آواز بلند کر کے
انھیں کیفر کردار تک پہنچا کر اس با برکت اور پر فیوض مہینے کی عظمتوں کا
حق ادا کیجئے- کیونکہ یہی وہ وقت ہے کہ
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری |