جس طرح اﷲ تعالیٰ ،رسول کریم ؐ اور صحابہ کرام ؓ سے محبت کیے بغیر اور وہ
بھی سب سے زیادہ محبت کیے بغیر کوئی بھی شخص مسلمان ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ
یہی ایمان ہے بالکل اسی طرح اﷲ تعالیٰ ،رسول کریم ؐ اور صحابہ کرام ؓ کے
بعد اپنے وطن اور وطن کے محافظوں ،جانثاروں اپنی
’’فوج‘‘سے محبت کیے بغیر کوئی بھی شخص مسلمان ہو ہی نہیں سکتا اپنا وطن اور
وطن کے رکھوالوں سے محبت کرنا ایمان کا لازمی حصہ ہے ۔
کیونکہ انسان تو کیا حیوان بھی جس سرزمین میں پیدا ہوتا ہے اس سے والہانہ
محبت اس کی فطرت میں ہوتی ہے ۔چرند پرند درند ہر ایک کے دل میں اپنے مسکن
اور وطن سے بے پناہ انس ہوتا ہے ۔اپنے گھر کے دردیوار زمین اور ماحول سے
صرف حضرت انسان ہی کو نہیں بلکہ حیوانات کو بھی الفت و محبت ہوجاتی ہے
۔اپنے وطن سے محبت کرنا قرآن کریم کی روشنی میں !حضرت موسی ؑ نے اپنی قوم
بنی اسرائیل کو اپنی مقبوضہ سرزمین میں داخل ہونے اور قابض ظالموں سے اپنا
وطن آزاد کروانے کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں ’’اے میری قوم (ملک شام یابیت
المقدس کی) اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤجو اﷲ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے
اور اپنی پشت پر (پیچھے )نہ پلٹنا ورنہ تم نقصان اٹھانے والے بن کر پلٹو
گے(سورۃ المائدہ21-5)حضرت ابراہیم ؑ کا شہر مکہ کو امن کا گہواہ بنانے کی
دعا کرنا درحقیقت اس حرمت والے شہر سے محبت کی علامت ہے ’’اور( یاد کیجئے
)جب ابراہیم ؑ نے عرض کیا اے میرے رب ! اس شہر (مکہ) کو جائے امن بنادے اور
مجھے میرے بچوں کو اس (بات)سے بچالے کہ ہم بتوں کی پرستش کریں (سورۃ
ابراہیم 35-14)اسی طرح حضرت موسی ؑ کے بعدقوم بنی اسرائیل جب اپنی کرتوں کے
باعث ذلت و غلامی کے طوق پہنے بے وطن ہوئے تو ٹھوکریں کھانے کے بعد اپنے
نبی یوشع،شمعون یا سموئیل سے کہنے لگے کہ ہمارے لیے کوئی حاکم یا کمانڈر
مقرر کردیں جس کے ماتحت ہوکے ہم اپنے دشمنوں سے جہاد کریں اور اپنا وطن
آزاد کروائیں ۔نبی ؑ نے فرمایا ایسا تو نہیں ہوگا کہ تم پر جہاد فرض کردیا
جائے اور تم نہ لڑ و اس پر وہ کہنے لگے ’’ہمیں کیا ہوا ہے کہ ہم اﷲ کی راہ
میں جنگ نہ کریں حالانکہ ہمیں اپنے وطن اور اولاد سے جدا کردیا گیا ہے،سو
جب ان (ظلم وجارحیت کے خلاف )قتال فرض کردیا گیا تو ان میں سے چندایک کے
سوا سب پھر گئے اور اﷲ ظالموں کو خوب جاننے والا ہے (سورۃ
البقرہ246-2)مذکورہ بالاآیت میں وطن کی جدائی کروانے والوں کے خلاف جہاد کا
حکم دیا گیا ہے ۔اسی طرح (سورۃ انفال26-8)میں اﷲ تعالیٰ نے دیگر نعمتوں کے
ساتھ مسلمانوں کو آزاد وطن کے ملنے پر شکر بجالاے کی ترغیب دلائی ہے ۔’’اور
وہ وقت یاد کرو جب تم (مکی زندگی میں عدداً) تھوڑے اقلیت میں تھے ملک میں
دبے ہوئے تھے یعنی معاشی طور پر کمزور اور استحصال زدہ تھے تم اس بات سے
بھی خوف زدہ رہتے تھے کہ طاقتور لوگ تمہیں اچک لیں گے یعنی سماجی طور پر
تمہیں آزادی اور تحفظ حاصل نہ تھا پس ہجرت مدینہ کے بعد اس اﷲ نے تمہیں
(آزاد اور محفوظ ) ٹھکانہ (وطن ) عطا فرمایا اور(اسلامی حکومت واقتدار کی
صورت میں)تمہیں اپنی مدد سے قوت بخش دی اور (مواخات،اموال غنیمت اور آزاد
معشیت کے ذریعے)تمہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطافرمادی تاکہ تم اﷲ کی بھرپور
بندگی کے ذریعے اس کا شکر بجا لاسکو۔آج جو لوگ افواج پاک کو ہمہ وقت تنقید
کا نشانہ بناتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ فوج کی کیا ضرورت ہے تو وہ یہ جان لیں
کہ اگر آج ہم مسلمان ہیں اور ہم ایک آزاد وطن میں رہتے ہیں تو یہ سب اﷲ کی
رحمت کے بعد افواج ،مجاہدین کی قربانیوں کی بدولت ہے ۔برصغیر ،براعظم ایشا
میں ایک بڑا جزیرہ نماخطہ ہے جو بحر ہند کے شمال میں ہے ،برصغیر میں موجودہ
بھارت ،پاکستان ،بنگلہ دیش ،بھوٹان ،مالدیپ ،نیپال اور سری لنکاشامل ہیں
۔برصغیر میں اس وقت عرب لوگ تجارت کی غرض سے آتے تھے اسلام کے بعد جہاد
،تبلغ اسلام اور تجارتی مقاصد سے صحابہ کرام ؓ وقتاً فوقتاًبرصغیر تشریف
لائے پچیس صحابہ کرام ؓ کا برصغیر آنے کا ذکر ملتا ہے مگر اس حقیقت سے دنیا
کا کوئی بھی تار یخ دان انکار نہیں کرسکتا کہ برصغیر پاک وہند میں باقاعدہ
اسلام بذریعہ جہاد ایک ’’فوجی جرنیل‘‘حضرت محمد بن قاسم ؒلے کر آئے تھے
۔دنیا کی تاریخ کاسب سے کم عمر مسلم جرنیل جس نے پہلی بار 712ء بمطابق86ھ
میں براعظم پاک وہند پر سترہ سال کی عمر میں حملہ کیا تھا اور ہندوستان کی
سرزمین پر پہلی بار اسلام کا پرچم لہرایا ۔اسلام ہمیشہ جہاد کے ذریعہ ہی
پھیلا کیونکہ اسلام میں فتوحات کا مقصد مال غنیمت یا کشور کشائی نہ بلکہ
غلامی سے آزادی دلوانا تھا ۔اپنا وطن اپنے حق کے لیے لڑنے کو جہاد کہتے
ہیں۔امام راغب اصفہانی جہاد کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں ترجمہ’’دشمن کے
مقابلہ ومدافعت میں فوراًاپنی قوت وطاقت صرف کرنا جہاد کہلاتا ہے۔مگر افسوس
کہ آج عالم کفر نے ’’جہاد ‘‘کو دہشت گردی کا نام دیکر مسلمانوں کو دہشت گرد
قرار دیدیا ہوا ہے کیونکہ اس وقت دنیا بھر میں ’’مسلمان ‘‘ہی ظلم وستم کا
شکار ہے۔غزوہ بدر اسلام کا پہلا معرکہ ’’جنگ‘‘تھی جس کا مقصد مسلمانوں کو
کفار سے آزادی دلانا اور اﷲ تعالیٰ کی زمین پر اﷲ تعالیٰ کی حاکمیت کو قائم
کرنا تھا۔حق وباطل کے اس معرکہ کے کمانڈر پیغمبر امن آنحضرت ؐ خود تھے ،پھر
اﷲ تعالیٰ نے تین سو تیرہ کو فتح سے ہمکنار کیا ۔آج ہمارے جوان اپنے وطن
اپنی قوم کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کررہے ہیں۔ آئے دن دشمنوں سے
نبرد آزما ہوتے ہوئے یہ مجاہدین جام شہادت نوش کرتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ قرآن
کریم میں انکی فضیلت یوں بیان کرتا ہے ۔’’کسی عذر کے بغیر گھر بیٹھے رہنے
والے مسلمان ان کے برابر نہیں جو اﷲ کی راہ میں جان ومال سے جہاد کرتے ہیں
،اﷲ نے جان ومال سے جہاد کرنے والوں کا بیٹھنے والوں پر درجہ بڑھادیا ہے
،اگرچہ ہر ایک سے اﷲ نے بھلائی کاوعدہ کیا ہے ،اور اﷲ نے لڑنے والوں کو
بیٹھنے والوں سے اجر عظیم میں زیادہ کیا ہے‘‘(سورۃ النساء 95)اب اﷲ تعالیٰ
قرآن کریم میں ان جہاد کرنے والے مجاہدین (فوج) کی شان یوں بیان کرتا ہے
۔’’قسم ہے (ان گھوڑوں )کی جو پیٹ اور سینے سے آواز نکالتے ہوئے دوڑنے والے
ہیں پھر جو سم مارکر چنگاریاں نکالنے والے ہیں پھر صبح کے وقت حملہ کرنے
والے ہیں پھر اس کے ساتھ غبار اڑاتے ہیں ۔مجاہدین کے گھوڑے جب اﷲ تعالیٰ کی
راہ میں جہاد کے لیے ہانپتے اور ہنہناتے ہوئے دوڑتے ہیں ان کی اﷲ تبارک
وتعالیٰ قسم کھاتا ہے (سورۃ العادیات)بے شک اپنے وطن کی سرحدوں کی حفاظت کے
لیے جاگنا ،نقل وحرکت کرنا اور تربیت حاصل کرنا ایسے افعال عبادات میں شمار
ہوتے ہیں ۔قرآن کریم کی معتدد آیات اور احادیث کے پیش نظر اپنے وطن اور
اپنے وطن کے نگہبانوں سے محبت کرنا حکم الٰہی بھی ہے اور فرمان مصطفیؐبھی
اور اس کے ساتھ ساتھ اگر دنیاوی لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو ہم ’’آزاد ‘‘ہی
اس فوج پاک کی وجہ سے ہیں بصورت دیگر تو ہماراازلی دشمن بھارت ہمیں کب کا
تر نوالہ سمجھ کر نگل چکا ہوتا ۔مجھے ان مفاد پرست سیاست دانوں اور تجزنہ
نگاروں کی عقل پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے جو آئے دن افواج پاک پر دشنام
طرازیاں کرتے دکھائی اور سنائی دیتے ہیں ۔دنیا میں کوئی مثال ایسی نہیں
ملتی کہ کسی حکمران نے فوج کے بغیر اپنی حاکمیت قائم رکھی ہو یاکوئی حاکم
اپنی رعایا کا تحفظ کرسکا ہو۔تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کا ہروہ حاکم نہ اپنی
سلطنت کاتحفظ کرسکا اور نہ ہی اپنی قوم یا رعایا کا کا جس نے فوج رکھنے کے
باوجود اپنی سپاہ کی ترقی اور برتری وافزونی پر توجہ نہ دی علاوہ ازیں ایسی
معتدد سلطنیتں وریاستیں بھی تباہی وبربادی کا شکار ہوگئیں جن کے حکمرانوں
نے فوج کو جانثاروں وجانبازوں کادرجہ دینے کی بجائے اسے غلامی کی زنجیروں
میں جکڑنے کی نہ صرف کوشش کہ بلکہ قوم کو بھی فوج کے خلاف باغیانہ رویہ
اختیار کرنے پر اکسایا ۔چند ہوس کے پجاری سیاست دان ہمیشہ سے بلاوجہ پاک
فوج کے خلاف جس قسم کا زہر یلا اور پرفتن پروپیگنڈاکررہے ہیں اور جس طرح کی
فتنہ خیز زبان استعمال کی گئی کوئی محب وطن ایسی زبان کا استعمال تو دور کی
بات اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ۔ایسے رویے اور ایسی زبان کے استعمال پر
جہاں شدید دکھ پہنچا وہاں قوم کے کروڑوں محب وطن افراد کا پاک فوج کے حق
میں نہایت مثبت جاندار انداز وطریق اور شاندار الفاظ میں خراج تحسین ،دل کی
تسکین وتشقی کاباعث بھی بنا ۔مجاہدوں،غازیوں،شہیدوں سے اﷲ تعالیٰ خود بھی
محبت فرماتا ہے اور ان سے محبت کرنا عین سنت ہے اور سنت نبویؐ سے محبت اور
اسکی پیروی کرنے والے سے اﷲ تعالیٰ خود محبت فرماتا ہے۔(سورۃالصف4)جو لوگ
اﷲ کی راہ میں ایسے طور پر صف باندھ کر لڑتے ہیں گویا سیسہ پلائی دیوارہیں
وہ بے شک اﷲ کے محبوب ہیں‘‘پھر اﷲ رب العزت (سورۃ النساء 74)ارشاد فرماتا
ہے ’’اور جو شخص اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جنگ کرے پھر شہید ہو جائے یاغلبہ
پائے ہم عنقریب اس کو بڑا ثواب دیں گے‘‘(سورۃ التوبہ 20,21,22)پاک پرودگار
ارشاد فرماتا ہے ’’جو لوگ ایمان لائے اور گھر چھوڑے اور اﷲ کی راہ میں اپنے
مالوں اور جانوں سے لڑے اﷲ کے ہاں ان کے لیے بڑا درجہ ہے،اور وہی لوگ مراد
پانے والے ہیں۔انہیں ان کا رب اپنی طرف مہربانی اور رضامندی اور باغوں کی
خوشخبری دیتا ہے جن میں انہیں ہمیشہ آرام ہوگا ۔ان میں ہمیشہ رہیں گے ،بے
شک اﷲ کے ہاں بڑا ثواب ہے‘‘۔ایک بات تو ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اﷲ کے بعد
اگر ملک وملت کا کوئی محافظ ونگہبان ہے تو وہ ہماری مایہ ناز پاک فوج ہے جس
کی موجودگی میں ہم اور ہماری اولادیں وجائیدادیں محفوظ ہیں۔
موسم کے مطابق گرم سرد آرام دہ کمروں میں بیٹھ کر انواع واقسام کے کھانوں
سے لطف اندوز ہونے والوں ’’افواج پاک ‘‘کے کردار پر انگلیاں اٹھانا تو بہت
آسان ہیں مگر جسم کو جھلسا دینے والی گرمی تپتے صحراؤں میں موٹے لباس
(وردی)اور سخت جوتے پہنے اور جسم کے اندر خون کو منجمندکردینے والی اور
اعضائے انسانی کو ناکارہ بنادینے والی گلیشئرکی منفی 50,60ڈگری سردی جہاں
30فیصد آکسیجن رہ جاتی ہے اور برفانی اور طوفانی ہواؤں کے جھکڑ 200کلو میٹر
فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتے ہوں وہاں پر یہ شیران اسلام ملک وقوم کی حفاظت
کرتے ہیں۔ایڈولف ہٹلر کہتا ہے کہ کسی قوم کو کاری ضرب لگانے کا پہلا طریقہ
اس ملک کی فوج کو اس قوم کی نظروں میں اتنا مشکوک بنا دوکہ وہ اپنے محافظوں
کو اپنا دشمن سمجھنے لگے ۔آج ایک گھناؤنی سازش کے تحت سالوں سے پاکستان کے
اندر دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیاں بالخصوص بھارتی راء امریکی سی آئی اے
،اسرائیل کی موساد اور برطانوی ایم آئی افواج پاکستان کے کردار کو مشکوک
بنانے کے لیے سرگرم عمل ہیں اور چند سیاست دان بھی اپنے ذاتی مفادات کے لیے
ان ملک دشمن ایجنسیوں کی مدد کررہے ہیں ۔مجھے چنگیز خان اور ہلاکو خان کی
تاریخ نے ہلاکررکھ دیا اور اس تاریخ نے بالخصوص ایک ایسا درس دیا کہ اگر
کوئی معاشرہ قوم یا کوئی سلطنت زندہ وقائم رہ سکتی ہے تواس کے پیچھے ایک
مضبوط عسکری قوت کا وجود ہے ۔منگول ایک نہایت اجڈ وحشی اور جاہل قوم تھی
لیکن اس سب کے باوجود انہوں نے اپنی فوجی قوت کو انتہائی بہترین تربیت دے
رکھی تھی اور اس قوت میں اس قدراضافہ کردیا تھا کہ دنیا کی کوئی قوم
یاحکمران ان کے ساتھ ٹکرانے کی جرأت نہ کرتا تھا ۔آج پاکستان کے بقاء اور
سلامتی کے پیچھے ان وردی والوں کی بے انتہا قربانیاں ہیں یہ پاک دھرتی جن
کے مقدس لہو کی مقروض ہے ۔افواج پاک کو کسی بھی صورت کسی بھی میدان شکست
نہیں دی جاسکتی کیونکہ یہ بدروحنین کے جانشین اور ’’اﷲ کی فوج‘‘ہے ۔۔۔۔
|