"حسن رضا بریلوی فن اور شخصیت "
(Muhammad Ahmed Tarazi, karachi)
"حسن رضا بریلوی فن اور شخصیت " ترتیب و تحقیق:۔ محمدثاقب رضا قادری،پروفیسر ڈاکٹر خورشید احمد قادری
|
|
|
"حسن رضا بریلوی فن اور شخصیت " ترتیب و تحقیق:۔ محمدثاقب رضا قادری،پروفیسر ڈاکٹر خورشید احمد قادری اُستاذ زمن مولانا حسن رضا خاں بریلی کے مشہور علمی خانوادے کے چشم و چراغ تھے۔ آپ کے آبا و اجداد مغلیہ عہد میں قندھار سے واردِ ہندوستان ہوئے تھے۔ محمد سعادت یار خاں، محمد شاہ کے وزیر تھے جن کے نام سے دہلی میں بازار سعادت گنج اور سعادت خاں کی نہر منسوب تھی۔ آپ کے جدِ اعلیٰ محمد کاظم علی خاں کو بدایوں کی تحصیلداری کا منصب عطا ہوا تھا جس کے تحت آٹھ گاؤں معافی کے عطا ہوئے تھے۔ آپ کے دادا بریلی کے مشہور صوفی بزرگ رضا علی خاں تھے جنھوں نے حافظ رحمت خاں والیِ روہیل کھنڈ کے پوتے خان بہادر خاں کے ساتھ انگریزوں سے جنگ کی۔ آپ کے والد مولانا نقی علی خاں جید عالم تھے، انہی نقی علی خاں کے یہاں آپ 4 ربیع الاوّل 1276ھ مطابق 19 اکتوبر 1859 میں پیدا ہوئے۔ مشہور عالمِ دین، متقی و پرہیزگار، عاشقِ رسول، بلند پایہ نعت گو شاعر مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی آپ کے بڑے بھائی تھے۔ حسن رضا نے مروجہ علوم و فنون اپنے خاندانی بزرگوں سے حاصل کیے اور معقولات و منقولات میں مہارت حاصل کرنے کے بعد خدمتِ دینِ متین انجام دینے لگے۔ تشنگانِ علوم کو اپنے چشمہ علم سے سیراب کرنے لگے۔خدا نے طبیعت موزوں عطا کی تھی لہٰذا شعرگوئی کی وادی میں بھی قدم رکھا۔ اُس وقت دنیا جہاں میں فصیح الملک داغ دہلوی کا ڈنکا بج رہا تھا۔ داغ کی شہرت پورے ملک کیا بیرونِ ملک بھی پہنچ چکی تھی۔ظاہر ہے کہ یہ شہرت مولانا حسن رضا خاں کے کانوں تک بھی پہنچی ہوگی اور کیوں نہ پہنچتی، آپ کی پھوپھی کی شادی رام پور میں جناب فضل حسن خاں سے ہوئی تھی۔ مولانا حسن رام پور اپنی پھوپھی کے یہاں جایا کرتے تھے۔ اُس وقت حضرت داغ کا قیام رام پور ہی میں تھا کیونکہ دہلی کی بساط اجڑنے کے بعد داغ رام پور آچکے تھے اور گھر گھر اُن کا چرچا ہونے لگا تھا، اُن کے رنگ کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ روزمرہ اور محاوروں کے دلکش اسلوب کی سحرکاری نے ہر کسی کو گرویدہ بنا رکھا تھا۔ غزل اپنے شباب پر تھی اس پر جب داغ کا رنگ چڑھا تو یہ اور بھی حسین ہوگئی۔ داغ کے اس رنگ کا یہ اثر ہوا کہ رام پور دربار سے جڑے دیگر شاعروں نے بھی اُنہی کے رنگ کی اتباع کرنے میں بھلائی سمجھی۔ داغ نے اپنے چراغ سے بہت سے چراغ روشن کردیے۔ ہندوستان کی تاریخ میں داغ اکیلے ایسے استاد ہیں جنھوں نے بقول نوراللہ محمد نوری پانچ ہزار سے زائد شاگردوں کی ایک کثیر تعداد چھوڑی جو غالباً ایک تاریخ ہے جن میں علامہ اقبال، سیماب اکبرآبادی، نوح ناروی، احسن مارہروی، سائل دہلوی ، بیخود دہلوی، بیخود بدایونی، ناطق گلاؤٹھی، اختر نگینوی، اشک دہلوی، محمود رام پوری، نسیم بھرت پوری، آغا شاعر دہلوی، جوش ملسیانی، رسا بلند شہری، مہر گوالیاری، طیش مارہروی، متین مچھلی شہری، نظام الملک میر محبوب علی خاں آصف اور حسن رضا خاں بریلوی وغیرہ خاصے مشہور ہیں۔ یوں تو ان شاگردوں میں ایک سے بڑھ کر ایک تھے لیکن حسن بریلوی کا کچھ الگ مقام تھا، وہ پوری طرح داغ کے رنگ میں رنگ گئے تھے۔ حسن بریلوی نے داغ سے اصلاح لینا شروع کردیا اور ایک مدت تک رام پور میں رہ کر استاد کے گلشن سے پھول چنتے رہے۔ یہاں تک کہ بجائے خود استادِ مستند قرار پائے۔ حسن بریلوی کا داغ کے شاگرد ہونے کا سب سے بڑا ثبوت تو خود اُن کا کلام ہے۔ اس کے علاوہ تذکروں میں لالہ سری رام کے تذکرے:خمخانۂ جاوید‘ یعنی تذکرہ ہزار داستان میں لالہ سری رام، حسن بریلوی کے خاندانی حالات بیان کیے ہیں۔ خود حسن رضا کہتے ہیں: پیارے شاگرد تھا لقب اپنا کس سے اس پیار کا مزہ کہیے ”حاجی مولانا حسن رضا خاں حسن بریلوی حضرت شاہ مولانا احمد رضا خاں صاحب کے چھوٹے بھائی، شعر و سخن کا طبعی و فطری ذوق تھا، غیر معمولی ذہانت و فطانت کے مالک تھے، مزاج میں شوخی و شگفتگی اور زندہ دلی تھی۔ حضرت داغ کے ارشد تلامذہ میں شمار تھا۔ نعتیہ کلام میں اُن کا دیوان ذوقِ نعت اور عاشقانہ میں ثمرِ فصاحت یادگار ہے۔“ (ص133) حسن بریلوی کے کلام میں وہ تمام خوبیاں ہیں جو کلامِ داغ کا طرہ امتیاز ہیں جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ داغ کے کلام میں شوخی اور تیکھا پن ہے، زبان میں چٹخارہ ہے، سہلِ ممتنع کی بھرمار ہے، محاوروں کی کثرت ہے، روزمرہ ہے۔ جرأت کی معاملہ بندی، محبوب سے آزادانہ چھیڑ چھاڑ ہے۔ حسن کی طلب تو عشق کی رفاقت و حمایت ہے۔ عشق محسوس کا جلوہ ہے۔ طنزِ لطیف، حاضری جوابی اور محبوب سے شکوہ و شکایت۔ مترنم بحروں وغیرہ کی تمام خوبیاں حسن کے یہاں بھی پائی جاتی ہیں۔ اُن کی شاعری میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جو ایک بلند اور معیاری شاعری کے لیے ضروری ہیں۔ اُن کی غزلوں میں بلند خیالی اور رفعتِ تخیل پائے جاتے ہیں، ندرت اور افکارِ نو کی فضا بندی بھی ملتی ہے۔ زبان و بیان کی لطافت و نزاکت، حسن و رعنائی، دلکشی اور بانکپن، شدتِ احساس، عام بول چال، روزمرہ کی زبان، مانوس اور شگفتہ الفاظ اور حسبِ ضرورت محاورات و کنایات و استعارات اور پیکروں کا استعمال ان کی شاعری کا طرہئ امتیاز ہے۔ داخلیت کا رنگ ان کی شاعری میں بہت گہرا ہے۔ احساسات و جذبات کی فراوانی نے خارجیت کو تقریباً ختم کردیا ہے۔ احسا س کی شدت نے فطرت کی رنگینیو ں کو اُن کے دامن میں بھر دیا ہے۔ بہار و شباب، فصلِ گل، بادِ بہاری، شادابی و رعنائی وہ کیا ہے جو اُن کی شاعری میں نہیں پایا جاتا۔ اُن کے اشعار و بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کی شاعری میں داغ کا رنگ گہرا اور بہت گہرا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ دبستانِ داغ سے متعلق تھے اور اپنی غزلوں اور نعتیہ شاعری سے تا دم حیات اس رنگ سے دنیا کو رنگتے رہے۔ بقول لالہ سری رام، نواب فصیح الملک مرزا داغ دہلوی کے تلامذہ میں آپ ایک امتیازی درجہ رکھتے تھے اور کچھ عجب نہیں کہ زندگیِ مستعار وفا کرتی اور یہ مشغلہ قائم رہتا تو اُن کے نام کو جلا دیتے۔ حسن بریلوی کا قریب 50 سال کی مختصر عمر میں 1908 میں انتقال ہوگیا اور بریلی کے سٹی قبرستان میں مدفون ہوئے۔ "حسن رضا بریلوی فن اور شخصیت " مولانا حسن رضا بریلوی کے احوال و آثار پر مشتمل پہلی تحقیقی کتاب ہے جسے ہمارے مشہور و معروف نوجوان قم کار دوست جناب محمدثاقب رضا قادری اور ممتاز ماہر تعلیم جناب پروفیسر ڈاکٹر خورشید احمد قادری صاحب نے ترتیب دیا ہے۔چھ سو صفحات کو محیط یہ کتاب مولانا حس رضا بریلوی کے فن اور شخصیت کی متعدد جہتوں"حسن رضا بریلوی :سیرت و احوال"،"مولانا حسن رضا خان:شخصی احوال" ،"حسن شناسی کی چند اہم جہتیں"،"مولانا حسن رضا بہ حیثیت تنقید نگار"،"حضرت حسن رضا میدان صحافت میں"،"مولانا حسن رضا اور اکابر بدایوں"،"حسن بریلوی کے تلامذہ" ،"حسن بریلوی کی تصانیف"،"حسن بریلوی کے شعری فنون"،"حسن بریلوی کی نثر نگاری"،"حسن بریلوی کی نعتیہ شاعری"،"حسن بریلوی کی غزلیہ شاعری"،"حسن بریلوی کی مثنویاں"اور "خراج محبت " جیسے عنوانات کا بھر پوراحاطہ کرتی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ مولانا حسن رضا بریلوی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے مگر اُن کے فن کی مختلف جہتوں میں تاریخ گوئی،عربی،اردو و فارسی شاعری ،اردو نثر نگاری،تنقید نگاری،ادبی و دینی صحافت وہ پہلو ہیں جن پر کما حقہ توجہ نہ دی گئی۔فاضل مرتبین نے درج بالا پہلوؤں کو روشن کرنے کی اپنی سی مگر کامیاب کاوش کی ہے۔اور پچھلی ربع صدی میں حضرت حسن رضا بریلوی کے حوالے سے لکھے جانے والے ادب کو تعلیقات اور مستند حوالوں سے مزین و یکجا کرکے "حسن رضا بریلوی فن اور شخصیت " کے معیار اور ثقاہت میں چار چاند لگادئیے ہیں۔ جناب حسن نواز شاہ صاحب لکھتے ہیں"مولانا حسن رضا خاں کے فکروفن پہ چند ایک کاوشیں اگرچہ قبل ازیں ہوچکی ہیں لیکن باضابطہ ایسا کوئی کام اب تک نہیں ہوا تھا جس میں اُن کی شخصیت اور فکروفن پہ جامع اور مفصل انداز میں کلام کیا گیا ہو،جناب محمد ثاقب رضا قادری کو خدا تعالیٰ نے کچھ جداگانہ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔۔۔۔میں پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ رائے دے رہا ہوں کہ اُن کی لگن ،محنت اور سلیقے کو دیکھتے ہوئے اُن سے بجا طور پر توقع ہے کہ ابھی وہ تاریخ کے کئی اور گم شدہ گوشوں کو سامنے لائیں گے۔" ہم جناب حسن نواز شاہ صاحب کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے "حسن رضا بریلوی فن اور شخصیت "کے مرتبین کے حق میں مزید کامیابی و کامرانی کے لیے دعا گو اور اِس تحقیقی کارنامہ پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ ساتھ ہی جناب کی جانب سے اِس شاندار تحقیقی کتاب کے تحفہ پردل کی گہرائیوں سے شکر گزار بھی ہیں۔
|