#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالاَحقاف ، اٰیت 20 تا 25
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ویوم
یعرض الذین
کفروا علی النار
اذھبتم طیبٰتکم فی
حیاتکم الدنیا واستمتعتم
بھا فالیوم تجزون عذاب الھون
بما کنتم تستکبرون فی الارض بغیر
الحق وبما کنتم تفسقون 20 واذکر اخا
عاد اذ انذر قومهٗ بالاَحقاف وقد خلت النذر من
بین یدیه ومن خلفهٖ الّا تعبدواالّااللہ انی اخاف علیکم
عذاب یوم عظیم 21 قالوااجئتنا لتافکنا عن اٰلھتنا فاتنا بما
تعدنا ان کنت من الصٰدقین 22 قال انماالعلم عنداللہ وابلغلکم ما
ارسلت بهٖ ولٰکنی ارٰکم قوما تجھلون 23 فلماراوه عارضامستقبل اودیتہم
قالوا ھٰذا عارض ممطرنا بل ھو مااستعجلتم بهٖ ریح فیھا عذاب الیم 24 تدمر
کل شئی بامر ربھا فاصبحوالایرٰی الّا مسٰکنھم کذٰلک نجزی القوم المجرمین 25
اے ہمارے رسُول ! جو لوگ ہمارے یومِ حساب کا انکار کرتے ہیں اُن کا حساب تو
یومِ حساب سے پہلے ہی مُکمل ہو جاتا ہے اور اُن کو لَمحہِ حساب سے پہلے ہی
جہنم کے کنارے پر جمع کر کے اِس اَمر سے آگاہ کردیا جاتا ہے کہ تُم نے
آسائشِ عمل اور آزمائشِ عمل کی دُنیا میں جو بھی اَچھا کام کیا ہے اُس کام
کا تُم نے اُس دُنیا میں ہم سے پُورا معاوضہ لے لیا ہے ، تُم اُس دُنیا میں
اپنے جس مال پر اتراتے تھے تُمہارا وہ سارے کا سارا مال اُس دُنیا میں رہ
گیا ہے اور تُم اُس دُنیا میں اپنے جس اعمال نامے پر پُھولے نہیں سماتے تھے
تُمہارا وہ پُورے کا پُورا اعمال نامہ ہمارے پاس آگیا ہے اور تُمہارے اُس
اعمال نامے نے تُم کو ایک ذلت بھرے عذاب میں مُبتلا کر دیا ہے ، آپ اپنی
زمین اور اپنے زمانے کے اِن مُنکرینِ حساب و عذاب کو قوم عاد کے اُس نبی
ھُود کا اَحوال بھی سنادیں جو پہلی قوموں کے قومی بھائی چارے میں شامل
نبیوں کی طرح اِس قوم کے قومی بھائی چارے میں شامل کیا ہوا ہمارا وہ نبی
تھا جو اِس قوم میں ہمارا یہ پیغامِ ہدایت لے کر آیا تھا کہ تُم اپنے خالق
کو چھوڑ کر اُس کی مخلوق کی بندگی نہ کرو کیونکہ ایک دن تُم نے دُنیا کی
گھاٹی سے گزر کر قیامت کے گھاٹ میں داخل ہونا ہے اور اپنے اعمال کا حساب
دینا ہے ، اگر تُم نے اِس دُنیا میں شرک کی یہ روش نہ چھوڑی تو تُم پر اِسی
دُنیا میں اللہ کا وہ عذاب نازل ہو گا جو اِس سے پہلے پہلی مُشرک قوموں پر
نازل ہوتا رہا ہے اور اِس کے بعد کی مُشرک قوموں پر بھی نازل ہوتا رہے گا
لیکن اُس قوم نے ہمارے اُس نبی کا یہ پیغام یہ کہہ کر رَد کر دیا تھا کہ
تُم ہمیں جس توحید کی جو دعوت دیتے ہو ہم اُس توحید کی اُس دعوت کا انکار
کرتے ہیں اور تُم خُدا کے جس عذاب سے ہمیں ڈارتے ہو اگر تُم اپنے اُس دعوے
میں سچے ہو تو ہم تُم سے خُدا کے وہ عذاب کے لے آنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور
اُس قوم کے اِس استکبار و انکار کے بعد ہمارے اُس نبی نے اپنی اُس قوم سے
کہا تھا کہ اُس عذاب کے آنے کا وقت تو صرف اللہ کے علم میں ہے ، میرے علم
میں تو اللہ کا وہ پیغام ہے جو میں نے تُم کوطبلا کم و کاست سنا دیا ہے ،
پھر ایک روز جب اُس قوم نے خلاۓ آسمانی میں تیزی سے تیرتے ہوۓ سیاہ بادل
دیکھے تو وہ یہ سوچ کر خوش ہو گئی کہ شدید خُشک سالی کے بعد اُس پر وہ حیات
افروز بارش اُترنے والی ہے جو اُس کی موسمی حرارت کو دُور اور اُس کی فصلوں
کو دانے سے بھر پُور بنا دے گی لیکن وہ سیاہ بادل تو اُن پر آنے والے عذاب
کا ایک سیاہ ہوائی جھکڑ تھا جس کے لیۓ وہ مرے جا رہے تھے اور جب وہ عذاب
اُن کے اُس مسکن پر اُتر آیا تو اُس نے ہر چیز کو اُس طرح سے زیر و زَبر کر
دیا کہ اُس زمین پر عبرت کے کھنڈرات کے سوا کُچھ بھی نہیں بچا کیونکہ ہم جس
سرکش قوم کو سزا دیتے ہیں تو اُس کے نشاناتِ عشرت کو نشاناتِ عبرت بنا دیتے
ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآن نے انسان کو ایمان کے جن بُنیادی مطالبات کا ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ
پابند بنایا ہے قُرآن کے اُن بُنیادی مطالبات میں سب سے پہلا بُنیادی
مطالبہ اللہ تعالٰی کی ذات پر ایمان لانا ہے اور اللہ تعالٰی کی ذات پر
ایمان لانے کے اِس بُنیادی مطالبے کا بُنیادی مقصد انسان کو اللہ تعالٰی کے
ساتھ اِس عہد و پیمان کا پابند بنانا ہے کہ انسان نے جب تک اِس زمین پر
زندہ رہنا ہے اِس ایمان و یقین کے ساتھ زندہ رہنا ہے کہ اُس کی ہستی اور
اِس عالَمِ ہستی کا خالق و مالک صرف اللہ ہے جس کے اَحکامِ نازلہ کی اُس نے
اتباع کرنی ہے اور اُس کی ذات کے سوا کسی ہستی کے اُس حُکم کی اتباع نہیں
کرنی جو اللہ تعالٰی کے کسی منقول حُکم کا مخالف حُکم ہے ، ایمان کے اُن
بُنیادی مطالبات میں قُرآن کا انسان سے دُوسرا بُنیادی مطالبہ یہ ہے کہ
انسان نے جب تک اِس زمین پر زندہ رہنا ہے اِس ایمان و یقین کے ساتھ زندہ
رہنا ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے اِس عالَمِ ہستی کے اِس نظام کو چلانے کے
لیۓ ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ اپنا ایک خود کار دائمی نظامِ کار وضع کیا ہوا
ہے جو اَزل کی پہلی ساعت سے اَبد کی آخری ساعت تک اُس کی اُس نادیدہ مخلوق
کے ذریعے چل رہا ہے اُس نے اپنی جو نادیدہ مخلوق اپنے اِس عالَم کے جس ذَرے
یا اِس عالَم کے جس آفتاب میں مامُور بالاَمر بنائی ہوئی ہے اِس لیۓ اُس کے
اِس عالَم میں کوئی دیوی یا کوئی دیوتا ، کوئی پنڈت یا کوئی پروہت اور کوئی
پیر بابا نہیں ہے جس کا اللہ تعالٰی کے اِس نظام کے چلانے میں یا اِس نظام
و اہلِ نظام کو کوئی نفع و نقصان پُہنچانے میں کوئی عمل دخل ہو ، ایمان کے
اُن بُنیادی مطالبات میں قُرآن کا انسان سے تیسرا بُنیادی مطالبہ یہ ہے کہ
انسان نے جب تک اِس زمین پر زندہ رہنا ہے اِس ایمان و یقین کے ساتھ زندہ
رہنا ہے کہ اللہ تعالٰی نے اہلِ زمین کی ہدایت کے لیۓ جس زمین پر جس زمانے
میں جو بھی کتابِ وحی نازل کی ہے اُسی وحی میں اُس کی وہ سچی ہدایت ہے جس
کو اُس نے اپنا رہنما بنانا ہے اِس لیۓ جس زمین کے جس انسان پر جس زمین اور
جس زمانے میں بھی اللہ تعالٰی کی وہ تحریری وحی پُہنچ جاۓ تو وہ انسان اُس
تحریری وحی پر ایمان لاۓ لیکن اِس آسمانی ہدایت کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے
کہ زمین کا کوئی اور زمانی علم ہر گز سچا نہیں ہے بلکہ اِس کا صرف یہ مطلب
ہے کہ زمین کا کوئی اور زمانی علم اِس وحی کی طرح سچا نہیں ہے جس پر انسان
اللہ کی اِس تحریری وحی کی طرح ایمان لاۓ ، ایمان کے اِن بُنیادی مطالبات
میں قُرآن کا انسان سے چوتھا بُنیادی مطالبہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کی اِس
آخری کتاب کی اِس آخری تحریری وحی کے ذریعے انسان کو اللہ تعالٰی کے جن
نبیوں اور جن رسولوں کی آمد کی خبر دی گئی ہے انسان اُن تمام نبیوں اور
تمام رسولوں کے نبی و رسول ہونے کا یقین کرے اور اپنی خواہش سے اُن کو ایک
دُوسرے سے گھٹاۓ اور بڑھاۓ بغیر اُن سب کی دل سے عزت کرے اور ایمان کے اِن
بُنیادی مطالبات میں قُرآن کا انسان سے آخری بُنیادی مطالبہ جو قُرآن کی
مُتعدد دیگر سُورتوں اور اٰیتوں کی طرح اِس سُورت کی اِن اٰیتوں میں بھی
بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان نے جب تک اِس زمین پر زندہ رہنا ہے اِس
ایمان و یقین کے ساتھ زندہ رہنا ہے کہ اُس پر اِس زندگی کے بعد جو موت آۓ
گی اُس موت کے بعد ایک اور زندگی دی جاۓ گی جس زندگی میں انسان سے ایمان کے
اِن بُنیادی مطالبات کے ماننے اور نہ ماننے کے بارے میں پُوچھا جاۓ گا لیکن
اِس کا بھی ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان سے انِ پانچ مطالبات کے سوا کسی
اور چیز کے بارے میں کُچھ بھی نہیں پُوچھا جاۓ گا بلکہ اِس کا مطلب بھی صرف
یہ ہے کہ عالَمِ آخرت میں انسان سے پُوچھے جانے والے یہ پانچ بُنیادی
سوالات انسان سے پُوچھے جانے والے وہ تعارفی سوالات ہوں گے جن سے انسان کے
علمی و فکری اور قلبی و ذہنی رُجحان کا وہ تعین ہو جاۓ گا جس تعین کے بعد
اُس سے وہ سوالات ہوں گے کہ کس انسان نے اپنی زندگی میں دیگر اہلِ جہان کے
ساتھ کیا سلوک کیا ہے اور دیگر اہلِ جہان نے اپنی زندگی میں کس انسان کے
ساتھ کیا سلوک کیا ہے ، نتیجہِ کلام یہ ہے کہ جس انسان نے موت کے بعد زندگی
کے یقین کے ساتھ مرنا ہے اُس انسان نے مرنے سے پہلے اِن اُمور کا بہر حال
جائزہ لینا ہے کہ وہ اپنی نجات و عدمِ نجات کے کس مقام پر کھڑا ہے اور جس
مقام پر وہ کھڑا ہے اُس مقام پر اُس نے اِس آسائشِ عمل و آزمائشِ عمل کی
دُنیا میں اپنے حسابِ حیات کے کیا کیا فیصلے کر لیۓ ہیں اور کیا کیا فیصلے
کرنے باقی ہیں اور ہر ایک انسان نے اپنے اِن ہی فیصلوں کے ساتھ اِس دُنیا
کی اِس گھاٹی سے گزر کر آخرت کے اُس گھاٹ تک پُہنچنا ہے جو گھاٹ اُس کی
منزلِ مقصود ہے !!
|