اخلاص

ہمارا دنیا میں آنے کا مقصد محض دنیا داری نہیں بلکہ اللہ کے احکامات کی بجا آوری نہایت خوش اسلوبی اور اخلاص سے ادا کرنا ہے۔ہر عمل خلوص سے صرف اور صرف اللہ کی ذات کے لیے ادا کرنا ہی ہمارا مقصد ہے۔
اخلاص کے معنی و مفہوم
لفظ اخلاص کے لغوی معنی خلوص ،پاکیزہ , کھرا اور ملاوٹ سے پاک ہونے کے ہیں۔
اخلاص سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں جو بھی عمل کرے اور جس بھی طرح کی عبادت یا نیک عمل کرے وہ محض رضائے الٰہی کے لیے ہو ۔اس میں اس کی کوئی ذاتی لالچ یا خواہش نہ ہو اور دنیا کی تمام جہتوں کو ہر طرف سے ہٹا کر محض رضائے الٰہی میں خود کو گم کر لیا جائے۔
امام راغب اصفہانی اخلاص کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
الاخلاص التَبَرِّی عَن کُلِّ مادُون اﷲ تعالی.
’’اخلاص یہ ہے کہ ہر ما سوا اللہ سے دل کو پاک کر لیا جائے۔‘‘
امام راغب اصفهانی، المفردات القرآن : 155

*اخلاص سے کلمہ پڑھنے والے ہر شخص کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا بیان*
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنھ سے روایت ہے کہ
عرض کیا گیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! قیامت کے روز آپ کی شفاعت کاسب سے زیادہ مستحق کون ہو گا؟ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو ہریرہ! میرا گمان یہ ہی تھا کہ اس بارے میں تم سے پہلے مجھ سے کوئی نہ پوچھے گا کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ تم حدیث پر بہت حریص ہو ۔قیامت کے روز میری شفاعت حاصل کرنے میں سب سے زیادہ خوش نصیب شخص وہ ہو گا جس نے خلوص دل وجان سے" لا الہ الا اللہ" پڑھا ہو گا۔
اس حدیث سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمارا کلمہ پڑھنے میں بھی خلوص کا کتنا کردار ہے ،کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت حاصل کرنے میں خلوص دل سے کلمہ طیب پڑھنا کتنا معنی رکھتا ہے ۔
*نماز میں اخلاص کی اہمیت*
نماز میں اخلاص یہ ہے کہ نماز محض رضائے الٰہی کے لیے ادا کی جائے۔دکھاوے یا نمود کے لیے نہیں۔
پس تم اللہ کی عبادت اس کے لیے اطاعت و بندگی کو خالص رکھتے ہوئے کیا کرو،اگرچہ کافروں کو ناگوار ہی ہو۔( غافر40: 14)
اخلاص کی ضد ریاء اور دکھلاوا ہے‘ اس کے بارے میں ارشاد نبوی ہے’’ جس نے دکھلاوے کے لیے نماز پڑھی اس نے شرک کیا اور جس نے دکھلاوے کے لیے روزہ رکھا اس نے شرک کیا اور جس نے صدقہ وخیرات دکھاوے کے لیے کیا اس نے شر ک کیا۔‘‘
حالانکہ انہیں فقط یہ ہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف اسی کے لیے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے اللہ کی عبادت کریں۔( ہر باطل سے جدا ہو کر) حق کی طرف یکسوئی پیدا کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیا کریں اور یہ ہی سیدھا اور مضبوط دین ہے۔( البینہ،98: 5)
سنن ابن ماجہ میں حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرئہ مبارک سے نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں وہ چیزبتادوں جو میرے نزدیک تمہارے لیے دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہے؟ ہم نے عرض کیا بتائیے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شرک خفی ہے اور وہ یہ کہ آدمی نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوپھر اپنی نماز کو اس لیے لمبا کردے کہ کوئی آدمی اس کو نماز پڑھتا دیکھ رہا ہے۔‘‘
*فریضہ حج ادا کرنے میں اخلاص*
ہرگز نہ( تو) اللہ کو ان ( قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی ان کاخون مگر اسے تمھاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے ( الحج، 22: 37)
ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓ سے ایک روایت یہ بھی منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ ’’جُبُّ الْحَزْنِ‘‘(غم کے کنویں) سے پناہ مانگو۔ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا جُبُّ الْحَزْنَکیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہنم میں ایک وادی ہے(اس کا حال اتنا برا ہے کہ) خود جہنم ہر دن میں چار سو مرتبہ اس سے پناہ مانگتی ہے۔ عرض کیا گیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں کون لوگ جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ بڑے عبادت گزار اور زیادہ قرآن پڑھنے والے جو دوسروں کو دکھانے کے لیے اچھے اعمال کرتے ہیں۔‘‘
اللہ کے نزدیک دکھاوا سخت ناپسندیدہ عمل ہے،ہمیں اللہ کی عبادت محض اللہ کے لیے کرنی چاہئے نہ کہ بندوں کے دکھاوے کے لیے ۔
*اخلاص کی قرآنی تفہیم
قرآن پاک کی ایک سورہ مبارکہ "سورہ اخلاص" جسے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ثلث قرآن یعنی تہائی قرآن کے مساوی فرمایا ہے،اس لیے کہ ہماری ایمانیات ثلاثہ ہیں ۔
1۔ایمان باللہ یعنی توحید پر ایمان
2۔ایمان بالبعث یعنی آخرت پر ایمان
3۔ایمان بالرسالت یعنی رسولوں پر ایمان
جس میں ایمان باللہ یعنی ایک اللہ پر ایمان ہمیں اللہ پر خالص ایمان کی دلالت کرتا ہے ۔
اس سورہ کی آیت مبارکہ
لم یلد وَ لَمْ یُوْلَدْۙ(۳)
جس کے معنی ہیں کہ نہ اس نے کسی کو جنم دیا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔
یعنی وہ اپنی ذات پاک میں تنہا اکیلا اور احد ہے ۔اس کی ذات پاک میں کوئی شریک نہیں ،اس کی ذات مبارک خالص جامع اور یکتا ہے۔
اور اس آیت
( وَ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ۠(۴)
میں اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا کوئی ہم سر نہیں یعنی کوئی اس کے برابر نہیں کیونکہ اولاد تو ہم پلہ ہوتی ہے ۔راجپوت کا بیٹا راجپوت ،برہمن کا بیٹا برہمن اور سید کا بیٹا سید زادہ ہوتا ہے ۔لہٰذا اللہ اپنی ذات میں احد ہے نہ اس نے کسی کو پیدا کیا نہ اس کو کسی نے پیدا کیا ۔تو اس آیت مبارکہ میں ہمیں اخلاص کی بہترین مثال ملتی ہے۔
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہئے کہ نیک عمل کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے(
الکھف: 110
اللہ وحدہ لاشریک ہے اس کا کوئی شریک نہیں وہ واحد اور احد ہے اس کی ذات میں کسی کو شامل کیے بغیر عبادت کرنا اخلاص ہے ۔
اسی طرح ایک حدیث مبارکہ میں حضرت انس بن مالک رضي اللہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
جو شخص اللہ وحدہ لاشریک کے لیے کامل اخلاص پر اور بلا شرک اس کی عبادت پر، نماز قائم کرنے پر اور زکوٰۃ دینے پر ہمیشہ عمل پیرا رہتے ہوئے دنیاسے رخصت ہوگا اس کی موت اس حال میں ہو گی کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو گا۔
اللہ پاک نے جو جو اعمال ہم پر فرض کیے ہیں ان کی نہایت عمدگی سے ادائیگی اللہ کی ہر اس انسان سے رضامندی ہے جو ان کو احسن طریقے سے ادا کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو جائے۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں
باطل دوئی پسند ہے ،حق لاشریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول!
مطلب یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کو باطل سے بچ کر حق پر ڈٹ جانا ہے اور عقیدہ توحید ہی ہماری قوت اور طاقت ہے اور یہ قوت اور طاقت ہی ہمیں باطل پر فتح دلوائے گی۔اللہ وحدہ لاشریک کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کی جائے کیونکہ مشرک اور باطل کی ہمارے دین میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
مخلصین له الدین کی وضاحت
اللہ کا فرمان عالی شان ہے کہ
یقینا اس کتاب کو ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے پس آپ اللہ ہی کی عبادت کریں اسی کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے۔( الزمر ( 39: 2- 3)
ایک اور جگہ فرمایا
انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں صرف اسی کے لیے دین کو خالص رکھیں ۔(البینہ: 5)
اللہ پاک قرآن میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کر لی وہ سنور گئے اور انہوں نے اللہ سے مضبوط تعلقات جوڑ لیا اور انھوں نے اپنا دین اللہ کے لیے خالص کر لیا تو یہ مومنوں کی سنگت میں ہوں گے ( النساء 4: 146)
اللہ کی عبادت اور اس سے مضبوط تعلق صرف اور صرف اخلاص سے ہی ہو سکتا ہے۔اور مومنوں کی فہرست میں شامل ہونے کے لیے اپنا دین اللہ کے لیے خالص کرنا ہوگا۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جب یمن کی طرف بھیجا گیا تو انہوں نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے نصیحت فرمائیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دین میں اخلاص پیدا کر،تجھے تھوڑا عمل بھی کافی ہو گا۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اخلاص سے کام کرنے والوں کے لیے خوشخبری ہے ۔یہ لوگ چراغ ہدایت ہیں ان کے ذریعے ہر فتنہ چھٹ جاتا ہے۔
جن لوگوں کے دل خالصتاً اللہ کے اخلاص اور اس کی محبت کے لیے دھڑکتے ہوں تو ان سے کسی بھی اللہ کے بندے کو کیا نقصان پہنچنا ہے ۔عوام الناس کابرائیوں اور منافقت سے بچنے کا اہم وسیلہ اخلاص سے بھرا دل ہے ۔
قرآن پاک میں ارشاد مبارک ہے
جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے ۔( اور وہ غالب اور بخشنے والا ہے)
سورہ ملک آیت نمبر (2)
ہمارا دنیا میں آنے کا مقصد محض دنیا داری نہیں بلکہ اللہ کے احکامات کی بجا آوری نہایت خوش اسلوبی اور اخلاص سے ادا کرنا ہے۔ہر عمل خلوص سے صرف اور صرف اللہ کی ذات کے لیے ادا کرنا ہی ہمارا مقصد ہے۔
حضرت منصور بن معتمر رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سچ بولو اگرچہ اس میں تمہیں ہلاکت نظر آئے( کیونکہ) نجات اسی میں ہے ۔
ہمارے ہر عمل میں اخلاص کا ہونا بہت ضروری ہے۔اخلاص کی بدولت ہمارے ہر نیک عمل کی قدر و منزلت اللہ کے نزدیک نہایت اہم ہے۔اور ہمارا اخلاص سے کیا گیا کوئی بھی کام اللہ كو انتہائی پسند ہے اور اس کا بدلہ کئی درجہ زیادہ ہے ۔اخلاص میں سب سے زیادہ اہمیت سچ کی ہے ۔ہر حال میں سچ بولنا اور سچ کاساتھ دینا ہماری آخرت سنوارنے کے لیے اہم ہے۔ جھوٹ اور اخلاص دو متضاد چیزیں ہیں ۔جھوٹ بولنے والے کی نہ تو دنیا میں کوئی قدر ہے اور نہ آخرت میں سرخروئی۔
حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
شریعت کو اپنا یار بنا کر بدعت سے بیزار ہوجا ۔
طالب کے لیے صدق ضروری ہے۔( عین الفقر صفحہ 227)
اپنی زندگی شریعت کے مطابق گزارنا اور اللہ کی ذات میں کسی کو شریک نہ ٹھہرنا یہ ایک سچے اور مخلص مسلمان کا مقصد ہونا چاہیے۔نہ صرف یہ بلکہ مخلص انسان جو اپنے پروردگار سے مخلص ہے اس کا دل اور اس کی ذات تکبر سے بھی پاک ہونی ضروری ہے۔جیسا کہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ
سب انسان مردہ ہیں ،زندہ وہ ہیں جو علم والے ہیں ۔سب علم والے سوئے ہوئے ہیں،بیدار وہ ہیں جو عمل والے ہیں ،تمام عمل والے گھاٹے میں ہیں ،فائدے میں وہ ہیں جو اخلاص والے ہیں ۔سب اخلاص والے خطرے میں ہیں ،کامیاب وہ ہیں جو تکبر سے پاک ہیں ۔
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
اخلاص کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی عمل عوض بدلہ حاصل کرنے کے لیے نہ کرے۔
آپ نے الفتح الربانی میں ارشاد فرمایا
لوگو! تمہارے اندر نفاق بڑھ گیا ہے اور اخلاص کم ہو گیا ہے ۔اقوال بڑھ گئے ہیں اور اعمال کم ہو گئے ہیں اور جس میں نفاق بڑھ جائے،اخلاص کم ہو جائے تو وہ بندے قرب حق کے راستے سے بھٹک جاتے ہیں ۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور جگہ فرمایا
جب تو عمل کرے اور دیکھے کہ تیرا دل اللہ کا قرب نہیں پاتا۔اور نہ عبادت و انس میں شیرینی پاتا ہے تو یہ جان لے کہ تو عمل ہی نہیں کرتا بلکہ کسی ایسے خلل کی وجہ سے جو کہ تیرے عمل میں محبوب ہے اور وہ خلل کیا ہے ۔ریا،نفاق اور خود پسندی ہے۔اے عمل کرنیوالے ! تو اخلاص کو لازم پکڑ ورنہ تو اپنے آپ کو مشقت میں نہ ڈال ۔( الفتح الربانی مجلس54)
اپنے اندر نفاق کو ختم کر کے عمل صالح کرنے کی کوشش کرنا اور پر خلوص دل کے ساتھ اللہ کے بندوں سے بدلہ نہ حاصل کرنے کی نیت ہی اللہ کی راہ پر لے جاسکتی ہے ۔ورنہ شیطان اللّٰہ کے راستے سے بہت آسانی سے منافق شخص کو بھٹکا سکتا ہے ۔
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
اخلاص عمل مانگ نیا گان کہن سے
شاہان چه عجب گر بنو از ند گدارا !
حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا
" اس کی ہمت پر قربان جو نیک کام اخلاص کے ساتھ کرتا ہے۔"
یہ دنیا ہر طرح کے انسان سے بھری ہوئی ہے خواہ وہ نیک ہوں ،بد ،منافق یا مخلص ۔لیکن آخرت میں جیت اسی بندہ مومن کی ہے جو تمام بنی نوع انسان کے کام صرف اللہ کی محبت اور اس کی ذات کے لیے خلوص دل سے کرے ۔
امام غزالی رحمۃ اللہ کا فرمان ہے۔
نیت اس رغبت اور کشش کا نام ہے جو دل میں صادق ہو اور عملی طور پر اس کا اظہار ہو۔
انسان کے دل میں خلوص ہو جو اس کے اعمال سے ظاہر ہو ،مخلص بندے کی نیت اس کے خلوص دل میں پنہا ں ہے۔
حضرت حسن بصری سے مروی ہے
وہ بیان کرتے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے" اخلاص میرے رازوں میں سے ایک راز ہے جسے میں اپنے بندوں میں سے جس سے محبت کرتا ہوں اس کے دل میں ودیعت کرتا ہوں ۔
حضرت غوث پاک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
جس نے میرے ہاتھ پر بیعت بھی نہیں کی اور جس نے میرا خرقہ بھی نہیں پہنا مگر مجھ سے محبت اور اخلاص کے ساتھ اور میری تعلیمات پر عمل کے ساتھ میری طرف ارادہ کیا ،قیامت کے دن وہ میرے مریدوں میں شامل ہوگا۔

امام زوالنون المصری فرماتے ہیں
( آج دنیا کا یہ حال ہو گیا ہے کہ) علم موجود ہے لیکن علم پر عمل مفقود ہے ۔اسی طرح عمل موجود ہے لیکن عمل میں اخلاص ناپید ہے اور محبت موجود ہے لیکن محبت میں سچائی و خاصیت باقی نہیں رہی۔
آپ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ
اخلاص اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اس میں صدق اور پھر اس پر صبر نہ ہو ۔اور صبر اس وقت تک تکمیل پزیر نہیں ہوتا جب تک اس میں اخلاص اور اس پر دوام نہ ہو۔
امام سہل بن عبداللہ کا قول ہے
وہ بندہ صدق کی خوشبو تک نہیں سونگھ سکتا جو اپنی ذات یا کسی دوسرے کی خوشامد کرتا ہو۔
خوشامدی شخص کو اللہ سخت ناپسند فرماتا ہے جو انسان کسی کی خوشامد کرتا ہے وہ ریا کاری کے زمرے میں آتا ہے۔جس شخص میں وہ خصوصیات ہی نہ ہوں جو بیان کی جائیں ۔یہ کام ایک منافق بندہ ہی کر سکتا ہے ۔خالص بندہ جو جھوٹ سے کام نہ لے وہ بھلا کسی ایسے شخص کی کیوں خواہ مخواہ خوشامد کرے گا ۔لالچی ، منافق،اور ایک جھوٹا انسان ہی یہ کام کر سکتا ہے۔مخلص نہیں ۔کسی بھی مقصد کو خواہ وہ نیک ہو یا بد ،پانے کے لیے ایک منافق ہی خوشامد کر سکتا ہے۔
امام ابو القاسم قشیری فرماتے ہیں ۔صدق کا ادنیٰ ترین درجہ یہ ہے کہ انسان کا ظاہر اور باطن ایک جیسا ہو جائے۔
امام ابو عثمان کا قول ہے
خالق کی طرف ہمیشہ نظر اور توجہ رکھتے ہوئے مخلوق کے دھیان کو بھول جانا صدق خالص ہے۔
ہمارا جینا ،ہمارا مرنا ،دنیا میں رہنا اور جانے کا مقصد صرف اور صرف ذات باری تعالیٰ کی محبت اور اس کی خاطر سب کے ساتھ اخلاص ہی ہمارا عین مقصد ہوناچاہئے۔
امام الواسطی فرماتے ہیں
صادق کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ بھائیوں کے ساتھ میل جول رکھتا ہے۔لیکن اس کا دل ہر شے سے الگ ہوکر رب رحمٰن کے ساتھ منسلک ہوتاہے۔
لیکن اگرلوگ کسی شخص کے اعمال کو دیکھ کر اس سے محبت کرتے ہیں اس کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں اور اس طرح اگراس شخص کی شہرت حاصل ہوجاتی ہے یہ لوگ اس شخص سے محبت کرنے لگتے ہیں تو یہ بات اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت سےکم نہیں ہے‘ بشرطیکہ خود اس کے اندر ریا ء کاری اور دکھاوا موجود نہ ہو۔
*تزکیہ باطن*
انسان کی روح اور باطن کی پاکیزگی کا ہونا لازم ہے جس کے سبب انسان میں خلوص جیسا عظیم الشان جذبہ جنم لیتا ہے اور انسان کو مرتبہ اخلاص تک لے جاتا ہے۔ باطن کی پاکیزگی انسان کو ظاہری اعمال میں بھی ریا کاری جیسے اخلاق رزیلہ سے دور کرتی ہے اور اسی کے سبب انسان اللہ کا قرب حاصل کر پاتا ہے اور یہ ہی اخلاص انسان کو بندوں سے نیک نیتی کے بہترین سلوک کی طرف لیتا ہے۔
*بندہ مومن کے کردار میں اخلاص کی اہمیت*
ہر نیک عمل کے لیے نیت کا صاف اور اخلاص کا ہونا ضروری ہے۔اور ہمیں اللہ کی عبادت نہ تو ثواب کی غرض سے کرنی چاہئے اور نہ ہی عذاب کے خوف سے۔
آقا پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے " اگر کوئی شخص کسی نیک کام کی نیت کر لے لیکن کسی عذر کے باعث وہ یہ نیک عمل نہ کر سکے تو بھی اس کے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھی جائے گی اور اگر وہ عمل کرلے تو پھر اس عمل کے کرنے پر دس گنا اجر لکھا جاتا ہے۔( صحیح مسلم)
صحیح مسلم میں حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ ایسے شخص کے بارے میں کیا ارشاد ہے جو کوئی اچھا عمل کرتا ہے اس کی وجہ سے لوگ اس کی تعریف کرتے ہوں ایک روایت میں ہے کہ جو کوئی اچھا عمل کرتا ہو اور اس کی وجہ سے لوگ اس سے محبت کرتے ہوں تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ تو مومن بندے کے لیے نقد بشارت ہے۔
*مخلص بندے کے لیے اللہ کا انعام اور منافق کے لیے وعید*
جب انسان کا دل صرف اور صرف ذات الٰہی کے لیے دھڑکتا ہو اور اس کے پیدا کیے ہوئے بندوں کے لیے مفید ہو بلا کسی غرض و غایت کے،تو اس کے لیے نقد بشارت ہے ۔اللہ پاک ایسے مومن بندوں سے بہت خوش ہوتا ہے اور ایسے ہی مسلمانوں کے لیے راہ نجات ہے۔اور جو لوگ اخلاص سے کام نہیں لیتے ایسے بندوں کے لیے وعید ہے کیوں کہ وہ منافقت اور جھوٹ سے کام لیتے ہیں ۔ایسے بندوں پر اللہ کی طرف سے لعنت اور سخت ناراضگی ہے۔
*اسلامی معاشرے پر اخلاص کے اثرات*
قرآن و حدیث میں اخلاص سے کی گئی تمام تر عبادات اور نیک اعمال پر بہت ہی عمدہ اور معاشرے پر اس کے اثرات اور نہایت مفید ثمرات کی خوش خبری دی گئی ہے،اور چند فوائد کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
اخلاقی ثمرات ایک معاشرے پر ایسے پڑ سکتے ہیں کہ دنیا میں مخلصین کو گمراہی سے بچا کر آخرت میں بلند درجات نصیب ہوتے ہیں اور مخلص عبادت گزار کے نورِ ہدایت میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا ظاہر و باطن نورِ ہدایت سے روشن ہو جاتا ہےاور اسے پاکیزہ صحبت میسر آتی ہے ۔دنیوی مصائب جس قدر بھی شدید ہوں اُسکو صبر کی توفیق مل جاتی ہے۔ اُس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں میں شامل ہو جاتا ہے۔زمین و آسمان کی تمام تر مخلوقات اللہ تعالیٰ کے حکم سے اُس شخص سے محبت کرتی ہیں۔
*عصر حاضر اور دولت اخلاص*
عصر حاضر میں آج ہر شخص نفسا نفسی کے عالم میں گھرا ہوا ہے ۔اور زندگی کی اس بھاگ دوڑ میں دوسروں کے احساسات کا گلا دبوچ کے آگے نکل جاتا ہے یہ احساس کیے بنا کے وہ کس کشمکش سے دوچار ہے یہ اس کو کس سہارے کی ضرورت ہے چاہے وہ سہارا مالی ہو, جسمانی یا کسی بھی اور قسم کا ۔اور اس بھیڑ بھاڑ میں اسے یہ احساس ہی نہیں کہ وہ کیا کر رہا ہے یا اسے کیا کرناچاہئے ۔ایسے میں ہمیں کل مومن مسلمانوں کو اخلاص کی اشد ضرورت ہے۔اخلاص ہو گا تو ہمیں دوسروں کےبھی دینی و دنیاوی مسائل و مصائب نظر آئیں گے۔کیوں کہ اخلاص سے خالی دل کسی کے بارے میں کیا سوچے گا سوائے اپنی ذات کے۔جب اس کے دل میں اخلاص جیسی چیز موجود ہو گی تب ہی وہ مسلم معاشرے کے بارے میں کچھ سوچنے پر مجبور ہو گا ۔اور مسلمان معاشرے کے لیے کچھ کرنے کا ارادہ اور اچھا فیصلہ کرے گا۔اخلاص سے بھرپور دل ہی اس معاشرے کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے ۔کیوں کہ ایسے شخص کو اپنے آپ سے زیادہ اللہ کی اس بنائی ہوئی دنیا اور اس کے محبوب بندوں کے لیے کچھ اچھا کرنے کی لگن ہو گی ۔کیونکہ اس میں اس کی نظر میں اپنی ذات کے فائدے کے بجائے عوام الناس کا فائدہ زیادہ اہم ہو گا ۔
اللہ پاک ہم سب مسلمانوں کو اخلاص کی حقیقت اور اس کا راز عطا فرمائے مخلص بندوں کی جماعت میں شامل فرمائے اور ہمیں نیک نیتی کی دولت سے سرفراز فرمائے آمین
بقلم صائمہ شعیب
۔
 
Saima Shoaib
About the Author: Saima Shoaib Read More Articles by Saima Shoaib: 2 Articles with 2020 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.