اَقوامِ عالَم اور اُن کا عرُوج و زوال !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالاَحقاف ، اٰیت 26 تا 28 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
لقد مکنٰھم
فیما ان مکنٰکم
فیه وجعلنالھم سمعا
و ابصارا و افئدة فما اغنٰی
عنھم سمعھم ولا ابصارھم ولا
افئدتھم من شئی اذ کانوا یجحدون
باٰیٰت اللہ وحاقبھم ماکانوابهٖ یستھزءون
26 ولقد اھلکنا ما حولکم من القرٰی وصرفنا
الاٰیٰت لعلھم یرجعون 27 فلولا نصرھم الذین اتخذوا
من دون اللہ قربانا اٰلھة بل ضلوا عنھم وذٰلک افکھم وما
کانوا یفترون 28
اے ہمارے رسُول ! آپ اپنی قوم پر یہ بات بھی واضح کردیں کہ آپ نے اُس کو خُدا کے عذاب سے ہلاک ہونے والی جس قومِ عاد کا اَحوال سنایا ہے وہ قومِ عاد اِس زمین کی کوئی گئی گزری کم زور قوم نہیں تھی بلکہ اُس قوم کو ہم نے جو علم و کمال ، جو مال و منال ، جو سمعی و بصری قُوتِ کار اور جو ذہنی و قلبی قُوتِ اختیار دی تھی وہ ہم نے آپ کی اِس قوم کو نہیں دی ہے لیکن جب اُس سرکش قوم پر ہمارا عذاب آیا تو اُس قوم کا کوئی علمی و عملی اور کوئی فکری و نظری ہنر اُس کے کسی کام نہیں آیا ، خُدا کے اِس عذاب کا یہ اَحوال کُچھ اُسی ایک قوم کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ زمین کی جو قوم جب بھی اپنے خالق سے بغاوت کرتی ہے تو اُس قوم کو خالق کی طرف سے دی گئی ساری قُوتیں اُس قوم سے بغاوت کر دیتی ہیں اور ہم اِن اقوام کا یہ احوال بار بار اِس لیۓ سنا رہے ہیں تاکہ اہلِ نظر اِن عبرت آموز احوال سے عبرت پائیں اور جہالت سے ہدایت کی طرف لوٹ آئیں ، ہماری بیان کی ہوئی اِس تاریخی حقیقت کا ثبوت تُمہاری بستی کے گرد و نواح میں پھیلی وہ تباہ حال بستیاں ہیں جو اِن اقوام کی خُدا کے ساتھ کی گئی اسی بغاوت کی بنا پر تباہ ہوئی ہیں ، تُم چاہو تو اِن اَقوام کے اُن باخبر افراد سے پُوچھ لو کہ اِن اَقوام میں سے جس قوم پر جس وقت خُدا کا جو عذاب آیا ہے اُس عذاب میں اُس قوم کے اُن خیالی خُداؤں میں سے کون سا خیالی خُدا اُس قوم کو اُس عذاب سے بچانے کے لیۓ سامنے آیا ہے بخلاف اِس کے کہ جب یہ لوگ اپنے خام خیال کے مطابق اپنے اُن خیالی خُداؤں کو خوش کرنے کے لیۓ اپنے سچے خُدا کے کلام کے ساتھ جو تمسخر کرتے تھے تو اِن کا سچا خُدا اِن کے اُس تمسخر ہی کو اپنا قہر و غضب بنا کر اِن پر اُلٹا دیتا تھا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کا مفہومِ بالا چونکہ ماقبل اٰیات کے ماقبل مفہوم کے مُبتداۓ کلام کا ایک مُنتہاۓ کلام ہے اِس لیۓ اِس مضمون کا وہ پہلا حصہ قومِ عاد کی سرکشی و بربادی پر مُشتمل تھا اور اِس مضمون کا یہ دُوسرا حصہ جن دُوسری تین وضاحت طلب باتوں پر مُشتمل ہے اُن میں سے پہلی بات یہ ہے کہ محمد علیہ السلام اہلِ عرب کی جس سرکش قوم کی دشمنی کا سامنا کر رہے ہیں اہلِ عرب کی وہ قوم عہدِ رفتہ کی قومِ عاد سے زیادہ وسائل رکھنے والی قوم نہیں ہے کہ جس کی دشمنی کا مقابلہ ممکن نہ ہو کیونکہ قومِ عاد کو اللہ تعالٰی نے جو علمی و عملی ، فکری و نظری اور مالی و حربی وسائل دیۓ تھے وہ سارے وسائل اللہ تعالٰی نے محمد علیہ السلام کی اِس قوم کو نہیں دیۓ ہیں لیکن جس طرح قومِ عاد کے مقابلے میں اللہ تعالٰی کی جو نصرت و اعانت ھُود علیہ السلام کو حاصل تھی وہ نصرت و اعانت اہلِ عرب کے مقابلے میں محمد علیہ السلام کو بھی حاصل ہے اور جس طرح ھُود علیہ السلام کی مُفسد قوم اللہ تعالٰی کی نصرت و اعانت سے محروم تھی اسی طرح مُحمد کی مُشرک قوم بھی اللہ تعالٰی کی نصرت و اعانت سے محروم ہے اِس لیۓ جس طرح ھُود علیہ السلام کے مقابلے میں قومِ عاد کے مالی و حربی وسائل کا زیادہ ہونا کوئی زیادہ اہم بات نہیں تھی اسی طرح محمد علیہ السلام کے مقابلے میں اہلِ عرب کے مالی و حربی وسائل کا زیادہ ہونا بھی کوئی اہم بات نہیں ہے ، اہم بات ہے تو صرف یہ ہے کہ جو قوم اللہ تعالٰی کے نظام اور اَحکام سے باغی ہو جاتی ہے تو اُس قوم کے اُن غیر معمولی مالی و حربی وسائل کے عملی استعمال کا وقت آنے پر اُس کے وہ غیر معمولی مالی و حربی وسائل بھی اُس قوم سے باغی ہو کر غیر اہم ہو جاتے ہیں بخلاف اِس کے نبی اور اَصحابِ نبی کو جو معمولی سے وسائل حاصل ہوتے وہ معمولی سے وسائل بھی استعمال کا وقت آنے پر غیر معمولی وسائل بن جاتے ہیں لہٰذ جس طرح قومِ عاد کے سامنے ھُود علیہ السلام پر ایمان لانے یا عذاب پانے کا ایک ہی راستہ کُھلا تھا اسی طرح مشرکینِ عرب کے سامنے بھی محمد علیہ السلام پر ایمان لانے یا عذاب پانے کا یہی ایک راستہ کُھلا ہے کہ یا تو وہ کُھلے دل کے ساتھ محمد علیہ السلام پر ایمان لے آئیں یا پھر پہلے محمد علیہ السلام کے ساتھ جنگ و جدل کر کے آپ کے کم ترین وسائلِ جنگ سے اپنے بہترین وسائل جنگ کا خاتمہ کرائیں اور بعد ازاں خود بھی ختم ہو جائیں کیونکہ ایسا تو ہر گز نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالٰی اپنی دعوتِ حق کے دشمنوں کے مقابلے میں اپنی دعوتِ حق کے داعی کو تنہا چھوڑ دے ، اِس دُوسرے مضمون کے دُوسرے وضاحت طلب حصے میں دُوسری بات یہ ہے کہ قومِ عاد کے مقابلے میں ھُود علیہ السلام کی کامیابی اور ھُود علیہ السلام کے مقابلے میں قومِ عاد کی ناکامی کی جو ایک تاریخی مثال دی گئی ہے وہ انسانی تاریخ کی اسی ایک قوم کی ایک مُنفرد مثال نہیں ہے بلکہ یہ انسانی تاریخ کے ہر ایک حربی دور کی ایک مثال ہے کیونکہ انسانی تاریخ میں جب کبھی بھی حق و باطل کے درمیان کوئی معرکہِ کار زار ہوا ہے تو اُس معرکے میں آخری فتح ہمیشہ اہل حق ہی کے حصے میں آئی ہے ، اِس دُوسرے مضمون میں اِس کی تیسری وضاحت طلب بات یہ ہے کہ ہر زمانے کے جو مُشرک اپنے خیالی خُداؤں کو خوش کرنے کے خیال سے اللہ تعالٰی کے اَحکامِ نازلہ کا جو تمسخر اُڑاتے تھے تو اُن کا وہ تمسخر ہی اُن کی جان کا عذاب بنا کر اُن پر نازل کردیا جاتا تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر حق کا انکار اللہ کے نزدیک ایک جرم ہے تو حق کا تمسخر و اِس زیادہ سنگین جرم ہے اور حق کے انکار سے مُراد صرف نبی کی دعوت و تعلیم ہی کا انکار نہیں ہے بلکہ ہر ایک زمانے کے ہر ایک انسان کی حق بات کا انکار و تمسخر اللہ کے نزدیک ایک سنگین جرم ہے کیونکہ حق جہاں رُونما ہوتا ہے ، جس زمین پر رُونما ہوتا ہے اور جس زمانے میں رُونما ہوتا ہے وہ وحیِ اِلٰہی کا ایک پر تو ہوتا ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 462031 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More