قُرآنی اٰیات اور حقیقتِ جِنّات

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالاَحقاف ، اٰیت 29 تا 32 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
اذ صرفنا
الیک نفرا من
الجن یستمعون
القراٰن فلما حضروه
قالوا انصتوا فلما قضی
ولو الٰی قومھم منذرین 29
قالوا یٰقومنا انا سمعنا کتٰبا من بعد
موسٰی مصدقا لما بین یدیه یھدی الی
الحق والٰی طریق مستقیم 30 یٰقومنا اجیبوا
داعی اللہ واٰمنوا بهٖ یغفرلکم من ذنوبکم و یجرکم
من عذاب الیم 31 و من لایجب داعی اللہ فلیس لهٗ
من دونهٖ اولیاء اولٰئک فی ضلٰل مبین 32
اے ہمارے رسُول ! آپ پُر ہجُوم بستیوں کے پُر ہجُوم حالات کے پُر ہجُوم خیالات میں گھرنے اور صحراؤں کے پُر سکُون حالات کے پُر سکُون خیالات کے ساتھ پھرنے والے سارے انسانوں کے لیۓ ہمارے رسُول ہیں اِس لیۓ آپ کو تو یاد ہی ہوگا کہ جب آبادی کے سنگ دل اَفراد نے ہمارا کلام سننے سے انکار کردیا تھا تو ہم نے ایک صحرائی وادی کے اُن صحرائی اَفراد کو آپ کے قریب پُہنچا دیا تھا جنہوں نے آپ کی تلاوت سن کر اپنے ہمراہیوں کو خاموش رہ کر سننے کی تاکید کی تھی اور جب آپ سے ہمارا کلام سن کر وہ اپنے قبیلے میں واپس پُہنچے تھے تو انہوں نے اپنے قبیلے سے کہا تھا کہ ہم نے مُوسٰی پر نازل ہونے والے کلام کے بعد آج پہلی بار ایسا ہی ایک کلام سنا ہے جو مُوسٰی پر نازل ہونے والے کلام کی تاکید کرنے والا کلام ہے اِس لیۓ ہم چاہتے ہیں کہ تُم سب اُس پُکارنے والے کی اُس کو پُکار کو اپنے کانوں سے سنو اور دل کی راستی کے ساتھ حق کے اُس راستے پر چل پڑو جو حق کا ایک سیدھا اور سچا راستہ ہے ، ہمارے قبیلے کے جو افراد حق کی یہ دعوت قبول کریں گے تو اُن کی یہ پُرخار زندگی باغ و بہار ہوجاۓ گی ، ہمارے قبیلے کے جو افراد اِس دعوت سے انکار کریں گے تو وہ ہمیشہ اپنی اُس ذلت حالی میں پڑے رہیں گے جس ذلت حالی نے ہمیشہ سے اُن گھیرا ہوا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
زیرِ نظر سُورت کی زیرِ نظر اٰیات کی پہلی اٰیت میں وارد ہونے والا جو ساتواں لفظ { الجن } ہے وہ قُرآنِ کریم میں وارد ہونے والے اسمِ نکرہ { جِنّ } کا اسمِ معرفہ ہے ، سُورَةُ الاَنعام کی اٰیت 76 میں اِس لفظِ جِنّ کا معنٰی کسی شئی کا کسی شئی کو حاسہِ نگاہ سے چُھپ جانا یا کسی شئی کا حاسہِ نگاہ سے چُھپا لیا جانا ہوتاہے اور یہ وہی معروف و مُتفق علیہ معنٰی ہے جس کے تحت ہر چُھپی ہوئی چیز ، ہر چُھپی ہوئی چیز کو ، ہر چھپائی جانے والی چیز کو اور ہر چُھپائی جانے والی چیز کو جِنّ ہی کہا جاتا ہے ، اہلِ لُغت مرے ہوۓ انسان کو بھی جِنن کہتے ہیں کیونکہ وہ مرنے کے بعد انسان کے حاسہِ نگاہ سے ہمیشہ کے لیۓ چُھپ جاتا ہے ، اہلِ لُغت اِس لفظ کی اسی لفظی اِسی رعایت کی بنا پر اُس انسانی کفن کو بھی جِنّ نے کہتے ہیں جس سے کسی مرے ہوۓ انسان کا جسم چُھپایا جاتا ہے اور اسی لفظی رعایت سے اُس قبر کو بھی جِنّ کہا جاتا ہے جو مرنے والے انسان کو اپنے پیٹ میں چُھپا لیتی ہے ، اہلِ لُغت اِس لفظ کی اسی لفظی مناسبت سے اُس بچے کو بھی جنین کہتے ہیں جو پیدائش سے پہلے رحمِ مادر میں ہونے کے باعث انسان کے حاسہِ نگاہ سے چُھپا ہوا ہوتا ہے اور اسی لفظی مناسبت سے اُس جنگی لباس اور اُس جنگی ہتھیار کے لیۓ بھی یہی نام موزوں سمجھا جاتا ہے جو ایک جنگ جُو کو دُوسرے جنگ جُو کے مُہلک وار سے چھپاتا اور بچاتا ہے ، انسان اپنے قدیم توہماتی دور میں جن چیزوں کو اپنے خیالات و تصورات سے محسوس کرتا تھا لیکن نگاہ سے دیکھ نہیں سکتا تھا تو اُن تمام چیزوں کو وہ دیوی یا دیوتا کہتا تھا اور اِن نادیدہ ہستیوں میں سے جن ہستیوں کو وہ نیک ہستیاں تصور کرتا تھا اُن کو فرشتہ قرار دیتا تھا اور جن ہستیوں کو وہ بد سمجھتا تھا اُن کو شیطان کہتا تھا اور زندہ انسانوں میں یہ زندہ روایت آج کے علمی دور میں بھی اسی طرح رائج ہے جس طرح اُس توہماتی دور میں رائج تھی ، { جن و انس } اور { انس و جن } کے جو الفاظ قُرآنِ کریم کے 11 مقامات پر وارد ہوۓ ہیں نزولِ قُرآن کے زمانے کے اہلِ عرب اُن سے جو معروف معنی مُراد لیتے تھے اُن معروف معنوں کے مطابق وہ ایک مقام پر رہنے اور ایک دُوسرے کو دیکھنے والے قبائل کو انس کہتے تھے اور ایک دُوسرے کی نگاہ سے بچ کر رہنے کے لیۓ جگہ جگہ پر گھوم پھر کر رہنے والوں کو جن کہا کرتے تھے ، قُرآنِ کریم کے جن 22 مقامات پر اِس نوعِ جِن کا ذکر ہوا ہے اُن 22 مقامات میں سے جن 16 مقامات پر اِس نوعِ جن کا باعتبارِ شخصیت ذکر ہوا ہے وہ 16 مقامات اِس سُورت کی اِس اٰیت سے پہلے گزر چکے ہیں اور جن 5 مقامات پر اِس نوعِ جن کی ماہیت کا ذکر ہوا ہے وہ 5 مقامات اِس سُورت کے بعد آنے والی سُورتوں میں آئیں گے لیکن جہاں تک اِس سُورت کی اِن اٰیات کا تعلق ہے تو اِن اٰیات میں اِس نوعِ جن کی اہمیت کا ذکر کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ جب مکہ و نواحِ مکہ اور طائف و نواحِ طائف کے شرفاۓ عرب نے محمد علیہ السلام کی مُبارک زبان سے قُرآن کا سننا گوارہ نہیں کیا تھا تو اللہ تعالٰی نے اُن تنگ دل اور سنگ دل لوگوں کے بجاۓ اُن لوگوں کو محمد علیہ السلام کی صوتِ کلام سنانے کے لیۓ آپ کے قریب پُہنچا دیا تھا جو اُن شرفاۓ شہر سے زیادہ عقل و دانش والے ایسے لوگ تھے جنہوں نے اُس کلام سنا بھی تھا ، سمجھا بھی تھا اور سننے سمجھنے کے بعد اُس کلام سے ملنے والے علم کے مُعلّم بھی بن گۓ تھے ، اِن اٰیات کے اِس پس منظر سے شاید یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ جو انسان گُنجان شہری اور دہی آبادیوں میں رہنے والے انسانوں کے بے ہنگم ہجُوم سے بچ کر جنگلوں اور بیابنوں میں بکھر کر رہتے ہیں وہ علمی و فکری اعتبار سے نام نہاد شرفاۓ شہر سے زیادہ نکھرے ہوۓ ہوتے ہیں اور وہ اپنی ذہنی و فکری استعداد کے لحاظ سے شہروں اور قصبوں میں مل جل کر رہنے والوں سے کم نہیں تر نہیں ہوتے بلکہ اپنی اِن فطری خصوصیات کی بنا پر شہروں کے مُتمدن شہریوں سے کہیں زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ برتر ہوتے ہیں کیونکہ وہ اُن کُھلی کُھلی ہواؤں اور اُن کُھلی کُھلی فضاؤں میں رہ کر فطرت کی فیاضیوں سے زیادہ فائدہ اُٹھاتے رہتے ہیں جو فطرت کی فیاض آغوش میں ہمیشہ موجُود ہوتی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اِن صحرائی بدؤں کی عقل و دانش آج بھی اہل عرب میں ضرب المثل ہے اور تاریخ کا یہی وہ نُکتہِ تحقیق ہے جس کو اُجاگ کرنے کے لیۓ حکیمِ مشرق علامہ اقبال نے کہا ہے کہ ؏

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی

یا بندہِ صحرائی یا مردِ کہستانی
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558056 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More