911 بہانہ ہے، افغانستان ٹھکانہ ہے، اور پاکستان نشانہ ہے
- جنرل حمید گل (مرحوم)
جنرل حمید گل کے اس جملے کو آج کل کے سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تو کافی
کچھ عیاں ہو جاتا ہے جو پاکستان کو بہت ہی خطرناک سمت میں لے جا رہا ہے۔ اس
سے نکلنا بہت ضروری ہے ورنہ کچھ بھی ہو سکتا ہے جس کا ازالہ ناممکن ہو گا۔
یہ سب سمجھنے کے لئے پہلے کچھ حقائق جاننے ضروری ہیں۔۔
1. امریکہ کو پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام ہمیشہ سے ہی کھٹکتا رہا ہے۔
پاکستان نشانہ ہے کا مطلب ہے پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام۔
2. روس اور یوکرائن جنگ میں روس نیوکلیئر ملک ہے اور یوکرائن نے 1994 میں
NPT پر دستخط کئے تھے۔ روس کے خلاف نہ تو یوکرائن کے پاس کوئی ایٹم بم ہے
جسے استعمال یا صرف ڈرایا جا سکے اس لئے روس نے بلا خوف و خطر یوکرائن پر
حملہ کر دیا۔ یوکرائن کے ساتھ کیا ہوا اور کیا ہو رہا ہے اس سے سب واقف
ہیں۔
3. اگر امریکہ پاکستان کو نیوکلئر سے دست بردار کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے
تو ہمسایہ ملک انڈیا ذرا سی دیر نہیں لگائے گا اعلان جنگ کرنے میں۔ بالکل
ایسے ہی جیسے روس نے یوکرائن کے ساتھ کیا۔
4. امریکہ کی پوری توجہ اس وقت چین کے خلاف ہے اور امریکہ اس خطے میں چین
کے مقابلے میں کوئی ملک کھڑا کرنا چاھتا ہے۔ اسی وجہ سے انڈیا کو سیلیکڈ
کیا گیا لیکن انڈیا نے چین کے خلاف کچھ بھی کرنے سے انکار کر دیا اور وجہ
یہ دی کہ جب تک نیوکلئر پاکستان کا خطرہ اس کے ہمسائے میں موجود ہے انڈیا
چین کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا۔ انڈیا کے ذریعے چین سے نبٹنے کے لئے پاکستان
کے نیوکلئر پروگرام کو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔
اب آتے ہیں اصل ایشو کی طرف
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے اپنے دور حکومت کے شروع میں بہت
غلطیاں کی جس سے سنبھلنے میں ڈیڑھ دو سال لگ گئے اور پاکستانی معیشت مستحکم
ہونے لگی۔ اور عمران خان کی ملکی معیشت کے بارے میں پریشانیاں کم ہو گئی۔
اب خارجہ پالیسی کو مستحکم اور خودمختار کرنا تھا۔ عمران خان نے آہستہ
آہستہ نڈر اور بے باک فیصلے کرنے شروع کر دیئے جن میں روس اور چین سے
تعلقات استوار اور بہتر کرنا، CPEC اتھارٹی کا قیام تاکہ اس کو جلد سے جلد
مکمل کیا جائے، کشمیر کا مستقل حل، ڈیموں کی تعمیر، پوری دنیا میں
اسلاموفوبیا کے خلاف جہاد، اور بے شمار ایسے کام جو پاکستان کو بہتری کی
طرف لے جانا شروع ہو گئے پھے اور خارجہ پالیسی کو امریکی تسلط سے بھی آزاد
کروا دیتے۔
عمران کی پالیسیز سے امریکہ کے چین کے خلاف منصوبے التوا کا شکار ہو رہے
تھے۔ ان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے عمران کو ہٹا کر اپنی پسند کی حکومت
لانا بہت ضروری تھا۔ اس لئے روس یوکرائن والے معاملے کو بہانہ بنایا گیا کر
دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ یقین مانئے روس والے معاملے کا ریجیم چینج سے
کوئی تعلق نہیں بلکہ ریجیم چینج کا پلین تو بہت پہلے سے چل رہا تھا اور عدم
اعتماد کے لئے ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت جاری تھی۔ خیر اس کے بعد جو
کچھ ہوا وہ پوری قوم نے دیکھا۔
امپورٹڈ حکومت نے آتے ساتھ ہی امریکی سکرپٹ پر کام شروع کر دیا اور اس میں
تو بیشتر پورے بھی ہو گئے ہیں۔
1. سب CPEC پر کام کی رفتار کو آہستہ کرنا یا ہو سکے تو پورا ختم کر دینا
2. کشمیر پر اپنی پالیسی کو نرم کرنا اور انڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر کر کے
انہیں ملک میں کھلی رسائی دینا۔
3. اسرائیل کو تسلیم کرنا
4. عوام کی پاکستانی فوج کے خلاف کر کے قوج کو کمزور کرنا
5. پاکستان کو IMF کے چنگل سے نکلنے والی سب کوششوں کو ختم کرنا اور اسے
اور بری طرح سے IMF کے چنگل میں پھنسانا
6. نئے آنے والے چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری امریکہ کی خواہشات کے مطابق
کرنا تا کہ اسے کنٹرول کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لئے اگر مضبوط امیدوار جنرلز
کی کردار کشی بھی کرنی پڑے تو کوئی حرج نہیں۔
7. افغانستان کو پاکستان میں بیٹھ کر کنٹرول کرنا۔
8. پاکستان کو ایک مرتبہ پھر دھشتگردی کی آگ میں جھونک کر "ڈو مور" کے
ذریعے پورے ملک میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کرنا۔
9. پاکستان کے نیوکلئیر پروگرام کو رول بیک کروانا
10. وہ تمام اقدامات کرنا جن سے حکومتی پارٹی کا اپنا فائدہ ہو جیسے EVM کو
ختم کرنا، NAB کو ختم کرنا, اپنے پچھلے سارے گناہ معاف کروانا وغیرہ
اس سارے منصوبے میں ایک چیز جو کسی کے ویم و گمان میں نہیں تھی وہ ہے "عوام
کا ردعمل"۔ عوامی ردعمل تو عمران خان کے بھی وہم و گمان میں نہیں تھا۔ لیکن
عمران خان یہ کیسے بھول گئے کہ انھوں نے ہی اس ملک کی عوام کو خودمختاری کا
درس دیا اور اور ہمیشہ ایک قوم بنانے کی بات کی۔ عوام اب ایک قوم بن چکی
ہے۔ عوام نے امپورٹڈ حکومت کو ریجیکٹ کر دیا اور ملک کی حقیقی خودمختاری کے
لئے عمران خان کے ساتھ کھڑی ہو گئے۔
اگر عمران خان کو اس وقت اس صورتحال سے باہر کر دیا جائے تو کیا ہو گا؟
اس وقت پاکستان کی عوام بہت غصے میں ہیں اور سوشل میڈیا پر اس کا اظہار
برملا کر بھی رہی ہے۔ عمران خان اپنے جلسوں میں عوام کو پر امن رہنے کی
تلقین صرف اس لئے کرتے رہتے ہیں کہ خون خرابے سے پرہیز کیا جائے۔ اگر عمران
خان ایسا نہ کریں تو عوام اب تک سڑکوں پر آکر ایک سری لنکا کی طرز پر ایک
خونی تصادم جیسی صورت حال پیدا کر چکے ہوتے اور عوام نے ججز۔ سیاستدان یا
کسی بھی ادارے کا کوئی لحاظ نہیں رکھنا تھا۔
عمران خان اپنی ہر تقریر میں فوج کی تعریفیں اور اس ادارے کو مضبوط رکھنے
کی ضرورت پر زور دیتے ہیں جس کا مقصد عوام کو فوج کے خلاف ہرزہ سرائی سے
روکنا ہے۔ کیونکہ عوام میں فوج کے خلاف نفرت کا مطلب ہے کہ پاکستانی عوام
کو حصوں میں بانٹ کر سول وار میں دھکیلنا اور پوری دنیا میں پاکستان کو ایک
غیر محفوظ ملک ڈیکلئیر کر کے پاکستان کے نیوکلئر پروگرام کو رول بیک
کروانا۔
اس سارے معاملے میں حکومت کا کردار
نئی حکومت کو آتے ہی یہ اندازہ ہو چکا ہے کہ اس اکانومی کی صورتحال میں ملک
چلانا ان کے بس کی بات نہیں اور عوام میں انکی مقبولیت بہت تیزی سے نیچے آ
رہی ہے۔ انہیں اس بات کا بھی بخونی انداذہ ہے کہ اگر عمران خان کا لانگ
مارچ شروع بھی ہو گیا تو انھیں حکومت سے ہاتھ دھونا پڑ جائیں گے۔ حکومت اس
لانگ مارچ کو روکنے کے لئے کچھ بھی کر گزرے گی اسی لئے ایک بدنام زمانہ
سفاک قاتل (رانا ثناء اللہ) کو اسے کنٹرول کرنے پر لگا دیا ہے۔
نئی حکومت چاہتی ہے کہ اپنی تمام تر ناقص کارکردگی کا ذمیدار عمران خان کو
ٹھرا کر خود کو بری الزمہ کر لیں اسی لیئے تقریبا ہر فورم میں سارا ملبہ
عمران خان پر ڈالنے کی کوششیں ہوتی ہیں جو باشعور عوام خود ہی ملیہ میٹ کر
دیتی ہے۔
حکومت کی یہ بھی کوشش ہو گی کہ اپنے آپ کو سیاسی شھید بنا دیا جائے جس کا
سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ فوج کے خلاف اتنی ہرزہ سرائی کی جائے کہ وہ خود
ہی حکومت ہٹا کر مارشک لاء لگا دیں اور حکومتی پارٹی کے تمام خون معاف ہو
جائیں اور ناقص کارکردگی کا داغ بھی دھل جائے۔ اسی کو عملی جامہ پہنانے کے
لئے آجکل مریم صفدر، زرداری وغیرہ کی تقاریر میں فوج کے خلاف ایک آدھا
متنازعہ بیان ضرور ہوتا ہے۔ اس طرح کے بیانات کے بعد الٹا عمران خان کو فوج
کے خلاف ہرڈہ سرائی کا مورد الزام ٹہرا دیا جاتا ہے۔
عوام کا کردار اور انکی ذمہ داریاں
اس پورے منظر نامے میں عوام کو اہنی اصلی طاقت کا بخوبی اندازہ ہو چکا ہے۔
ابھی تک امپورٹڈ حکومت نے عمران خان کے بارے میں جتنی غلط بیانیاں کی اور
مختلف اسکینڈلز میں الجھانے کی کوشش کی۔۔ عوام نے فورآ اس کا کاؤنٹر کیا
اور سوشل میڈیا پر اتنی زیادہ تعداد میں معلومات ڈالی کہ حکومت کا جھوٹ
اپنی موت آپ مر گیا۔ اسی عوام نے کافی معاملات میں حکومت کو اپنے غیر مقبول
فیصلوں سے بھی U-Turn لینے پر مجبور کیا جیسے ہفتہ کی چھٹی، تیل کی قیمتوں
میں فوری اضافہ، اور وڈیو کلپ کی ریلیز وغیرہ۔
پاکستان کو بچانے کا اب صرف یہ ہی حل ہے کہ
1. عوام جلدی انتخابات کروانے میں عمران خان کا ساتھ دیں
2. عوام سوشل میڈیا پر بھرپور مہم جاری جاری رکھیں
3. فوج کے خلاف کوئی بات نہ کی جائے
4. جتنے لوٹے منظر عام پر آ چکے ہیں انہیں قطعآ ووٹ نہ ڈالے جائیں۔ اور
کہیں بھی نظر آئیں ان کی خاطر مدارت میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔
5. حکومتی پراپگینڈہ کا آلہ کار بننے سے اجتناب کریں۔ ابھی حکومت نے ہر
طریقے سے عمران خان کی کردار کشی کرنی ہے۔
سکوارڈن لیڈر فرحان وحید خان (R)
|