مشینوں میں ڈوبے ہوۓ انسان کی مثال اس مچھلی کی سی ہے جسے
یہ نہیں معلوم کے زمین کیا ہے۔ یعنی جیسے مچھلی بنا پانی کے یا پانی کے
باہر اضطرابی طور پر مرنے لگتی یوں ہی آج کا انسان بھی بغیر مشینوں کے سانس
تک نہیں لے سکتا۔ پہلے پہلے یہ چیزیں ہماری ماتحت تھی پر اب ہم اِن کے
ماتحت ہو چکے۔ مثال ہی لے لیجیے آپ صبح اٹھتے تو موبائل صاحب کا دیدار سب
سے پہلے ہوتا پھر ٹوسٹر سے جیسے سیگریٹ پینے کے بعد پھیپڑوں کی حالت ہوتی
اس شکل کا بریڈ کا ٹکڑا نمودار ہوتا۔ پھر آتی آفس کی باری وہاں تو مشینوں
سے جان چھڑانا مشکل ہوتا حد نگاہ تک مشینیں ہی مشینیں وہاں سے آکر سکونِ
قلب کے لیے کچھ ٹیلی وثرن کا رخ کیا جاتا ۔اور اس انتظار کا اختتام ہوتا کہ
جانے اس قسط میں کیا ہوگا ۔
ڈراموں نے زندگی پر اثر ڈالے یا نہیں اس کا تو پتا نہیں پر دماغ پر بہت
ڈالے خصوصاََ عورتوں کے خیر ڈراموں کے بعد دوبارہ سب گھر والے اپنے موبائل
کا دیدار کرتے۔ اس کی مثال قبرستان کی سی ہے جہاں سب مردے ایک دوسرے کے
قریب ہیں پر کوئ بات نہیں کر سکتے۔وہاں کوئ بات نہیں کر سکتا یہاں کوئ بات
نہیں کرتا۔ مشینوں نے بہت کام مثبت بھی کیے مگر انسان نے اس مثبت چیز کو
اتنا اپنا لیا ہے کہ اب یہ منفی اثرات مرتب کر رہی اور ابھی تو قیامت میں
بڑا وقت ہے۔خدا جانے مشینیں ہمارے اندر تک آجائیں۔۔کون جانے
|