چین کی دہائی

عالمی سطح پر ترقی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو گزشتہ دہائی کو "چین کی دہائی" قرار دینا بے جا نہ ہو گا۔دنیا تسلیم کرتی ہے کہ چین نے گزشتہ دہائی میں اقتصادی اور سماجی ترقی میں کئی سنگ میل عبور کیے ہیں اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں، دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کے طور پر چین کی حیثیت مزید مضبوط اور بہتر ہوئی ہے۔اس عرصے کے دوران چین کی کامیابیوں کا مختصر جائزہ لیا جائے تو چین نے ایک جامع اعتدال پسند خوشحال معاشرے کی تعمیر کا پہلا صد سالہ ہدف حاصل کر لیا ہے اور ہر لحاظ سے ایک جدید سوشلسٹ ملک کی تعمیر کے دوسرے صد سالہ ہدف کی جانب ایک نئے سفر کا آغاز کیا ہے۔یوں گزشتہ دس سالوں میں چین نے اختراعی، مربوط، سبز، کھلی اور مشترکہ ترقی کو احسن طور پر آگے بڑھایا ہے۔

گزشتہ سال 2021 میں چین کا عالمی معیشت میں شیئر 18 فیصد سے زائد ہو چکا ہے، جو 2012 میں 11.4 فیصد تھا۔ملک کی مجموعی قومی پیداوار یا جی ڈی پی 2021 میں 114 ٹریلین یوآن (تقریباً 16.79 ٹریلین امریکی ڈالر) سے اوپر رہی ہے، اور فی کس جی ڈی پی 12,500 امریکی ڈالر تک پہنچ چکی ہے، جو کہ اعلیٰ آمدنی والی معیشتوں کے قریب ہے۔حالیہ برسوں میں عالمی اقتصادی ترقی میں چین کی معیشت کا حصہ تقریباً 30 فیصد رہا ہے، جو اسے عالمی معیشت کے لیے سب سے بڑا نمو کا انجن بناتا ہے۔

اسی دہائی میں چین کے ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ پر اخراجات 2021 میں ملک کی جی ڈی پی کے 2.44 فیصد تک پہنچ چکے ہیں، جو 2012 میں تقریباً 1.9 فیصد تھے۔گزشتہ سال کی ہی بات کی جائے تو چین کے آر اینڈ ڈی پر اخراجات 2012 کی سطح سے 2.7 گنا زائد تھے جبکہ بنیادی تحقیقی اخراجات 2012 کی سطح سے 3.4 گنا زائد ہو چکے ہیں۔چین گلوبل انوویشن انڈیکس 2021 میں 12 ویں نمبر پر آ چکا، جبکہ 2012 میں 34 ویں نمبر پر تھا، یہ عالمی سطح پر مسلسل اور تیز رفتار ترقی حاصل کرنے والا واحد ملک بن چکا ہے۔

اسی عرصے کے دوران چین نے ماحولیات کی بہتری کا بھی ایک تاریخی موڑ دیکھا ہے۔چین کے جنگلاتی وسائل دنیا کے مجموعی وسائل کا تقریباً ایک چوتھائی ہو چکے ہیں جبکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں فی یونٹ جی ڈی پی تقریباً 34 فیصد کمی آئی ہے۔چین ہوا اور فوٹو وولٹک پاور ، دیگر گرین انرجی اور نئی توانائی سے چلنے والی گاڑیوں کی تیاری اور فروخت میں بھی دنیا میں سرفہرست ہے۔پیرس موسمیاتی معاہدے کے مضبوط داعی کے طور پر، چین نے 2030 سے قبل کاربن پیک اور 2060 سے قبل کاربن نیوٹرل کے اہداف حاصل کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔

چین نے معاشی اعتبار سے کھلے پن کو مزید فروغ دینے کی خاطر نئے پائلٹ زون قائم کیے ہیں اور گزشتہ دہائی کے دوران ملک بھر میں 21 پائلٹ فری ٹریڈ زونز اور حے نان فری ٹریڈ پورٹ قائم کی گئی ہے۔چین نے مصنوعات کی تجارت کے اعتبار سے دنیا کے سرفہرست ملک کی حیثیت سے اپنی پوزیشن مزید مضبوط کر لی ہے۔ یہ امر قابل زکر ہے کہ چین سے برآمد ہونے والی مصنوعات عالمی سطح پر مجموعی مصنوعات کا 15 فیصد بنتی ہیں۔اسی دوران چین نے منفی فہرست کا نظام بھی متعارف کرایا ہے اور گزشتہ دہائی میں نو نئے آزاد تجارتی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، جس سے ایسے معاہدوں کی کل تعداد 19 ہو چکی ہے۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو چین نے گزشتہ دہائی میں تقریباً 100 ملین غریب باشندوں کو غربت سے نجات دلاتے ہوئے ملک سے مطلق غربت کا خاتمہ کر دیا ہے، اور عالمی تخفیف غربت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔آج چین نے دنیا کا سب سے بڑا تعلیمی، سماجی تحفظ، طب اور صحت کی دیکھ بھال کا نظام بھی قائم کیا ہے،انہی پالیسیوں کے ثمرات ہیں کہ چینی لوگوں کی اوسط عمر 2.5 برس اضافے سے 2021 میں 77.9 ہو چکی ہے۔چین میں متوسط آمدنی والے طبقے کا تناسب گزشتہ دہائی میں کل آبادی کے ایک تہائی تک بڑھ چکا ہے۔الغرضیکہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ اٹھایا جائے چین آپ کو سرفہرست نظر آئے گا۔اس کی کلیدی وجہ ملک کی اعلیٰ قیادت کے عوام دوست رویے اور عوام کے لیے فکرمندی ہے۔آج چین دنیا کے سبھی ترقی پزیر ممالک کے لیے ایک مثال ہے جو بتاتا ہے کہ ہر وہ ملک جو اپنے عوام کی خدمت کے مخلصانہ جذبے سے آگے بڑھے گا ، یقیناً کامیابی اُس کے قدم چومے گی۔


 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1128 Articles with 424420 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More