ہمارے بڑے کہا کرتے تھے کہ اگر پڑوس میں سب کچھ ٹھیک چل
رہا ہو تو گھر میں بھی سکون رہتا ہے اور اگر محلے میں بدامنی اور غیر یقینی
کی کیفیت ہو اور خراب ماحول ہو تو گھر میں بیتھے بٹھائے پریشانیاں بڑھ جاتی
ہیں۔اگر ملک کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو جہاں ایک طرف یہ
ریاستی انتشار معیشت کے نامیاتی بحران کا منطقی نتیجہ ہے وہیں یہ خود بے
لگام ہو کر معیشت میں بہتری کے ہر امکان کے رستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بھی
ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ریاست کا سفارتی ہیجان اور
بین الاقوامی تعلقات کا غیر یقینی پن بھی معاشی استحکام کو ناممکن بنا رہا
ہے۔ ان حالات میں نئی حکومت جس پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات ہیں کے
لیے کوئی ہنی مون کی سہولت میسر نہیں ہے اور شہباز شریف کے لیے وزیراعظم کی
اچکن کی اس کے سیاسی کفن میں تبدیل ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا
سکتا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی
ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے۔
22 کروڑ آبادی کے ساتھ یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، ۔
پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین مغرب ميں افغانستان اور جنوب
مغرب میں ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری
تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود عمان کے سمندری
حدود سے بھی ملتی ہیں۔
قدیم ترین دنیا میں موجودہ پاکستان کے علاقے موہنجوداڑو، وادی سندھ کی
تہذیب مہر گڑھ، ٹیکسلا، پراچین سنسکرت دور اور دیگر زیرتحقیق آرک لوجیکل
سائٹس جیسے قندھارا تہذیب و تمدن پر مشتمل تھے۔ اس علاقے پر پراچین راجپوت،
ایرانی، یونانی، عرب، بدھ مت، سکھ، مغل، ہن سفید اور ترک حملہ آوروں کی
حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسے چندر گپت موریا، ہخامنشی
سلطنت عربوں کی خلافت امویہ، مغلیہ سلطنت، درانی سلطنت، سکھ سلطنت اور
برطانوی راج کا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعد محمد علی جناح کی قیادت میں
تحریک پاکستان کامیاب ہوئی اور 14 اگست 1947ء کو ہندوستان کے مشرق اور مغرب
میں دو حصوں پر مشتمل ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست قائم ہوئی۔
پاکستان نے 1956ء میں اپنا پہلا آئین اپنایا۔ 1971ء میں ایک خانہ جنگی کے
دوران میں اس کا مشرقی حصہ الگ ہو کر ایک نیا ملک بنگلہ دیش کی صورت میں
معرض وجود میں آیا۔
75 سال کی تاریخ میں 33 سال ملکی فوج نے براہ راست اور کئی سال سیاستدانوں
کے چہروں کے پیچھے انکی آڑ می وطنِ عزیز پر حکمرانی کی۔ کل ملا کر چار فوجی
ہیں جو ملک کے لمبے عرصے تک سربراہ بھی رہے جن میں سب سے پہلے جنرل ایوب
خان تھے جن کا اقتدار 1958 سے 1969 تک جاری رہا۔ ان سے اقتدار جنرل یحییٰ
خان نے لیا اور دو سال میں بنگال کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے کے بعد
بالآخر اقتدار سے علیحدہ ہونے پر راضی ہوئے۔ 1977 سے 1988 تک جنرل ضیاالحق
نے ملک پر حکومت کی جب کہ جنرل ضیا کے بعد جنرل پرویز مشرف نے اکتوبر 1999
سے اگست 2008 تک ملک پر قبضہ جاری رکھا۔ پاکستان کی تاریخ فوجی آمریت،
سیاسی عدم استحکام اور پڑوسی ملک سے جھگڑوں پر مشتمل ہے۔ یہ ملک مؤتمر عالم
اسلامی، اقوام متحدہ، دولت مشترکہ ممالک، سارک، ترقی پزیر ، اقتصادی تعاون
تنظیم جیسی تنظیموں کا اہم رکن ہے۔ جو ایٹمی صلاحیت بھی رکھتا ہے برسوں
سےدو ہی خاندان یہاں برسرِ اقتدار چلے آ رہے ہیں: جن میں خاندان شریفیہ اور
بھٹو خاندان سر فہرست ہیں۔
سنہ 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی جسکے سربراہ عمراں خان ہیں اکثریت میں
تھے اور وہ اس وقت ایک ہیرو بن کر ابھرے اور انتخابات کے نتیجے میں بر سر
اقتدار آگئے۔ انکے خلاف مختلف سازشیں ہوتی رہیں اور ان کی حکومت نے پونے
چار سال کا تلخ اور کڑا وقت گزارہ اور حزب اختلاف کیساتھ ٹکر لئے رکھی آخر
کار حال ہی میں انکی حکومت کیخلاف ایک بیرونی سازش کی گئی اور عدم اعتماد
کے زریعے انکی حکومت کو چلتا کیا ۔ مگر عمراں خان چین سے نہ بیتھے اور عوام
کی عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کیا جس پر لاکھوں پاکستانی عوام جلسوں اور
ریلیوں کی شکل میں باہر نکل کر آئے اسطرح ایک بار پھر عمران خان کی مقبولیت
کا گراف عوام میں اوپر چلا گیا۔ نئی آنے والی لولی لنگڑی حکومت جو بھانت
بھانت کی بولیاں بولنے والی جماعتوں پر مشتمل ہے معیشت کے گورکھ دھندے میں
پھنس کر پاگل بھینسے کیطرح چکرا کر رہ گئی۔ عمرانخان نے معاشی بحران اور
امپورٹڈ حکومت کا نعرہ لگایا جو عوام میں کافی مقبول ہوا جس نے لوگوں کو
عمران خان کے جلسوں میں شرکت کرنے پرمجبور کردیا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے
تنگ، کھانے پینے کی اشیا، ادویات اور ایندھن کی قلت ، بجلی کے بحران کیوجہ
سے عام لوگ غصے میں آ کر سڑکوں پر نکلنے کو تیار ہیں کیونکہ بہت سے لوگ اس
صورتحال کے لیے موجودہ حکومت کو ذمہ دار ٹھراتے ہیں۔ ہماری معیشت زبوں حالی
کا شکار ہے۔ خوراک، ادویات اور ایندھن ختم ہونے کو ہیں غریب عوام کی
مہنگائی کیوجہ سے چیخین نکل رہی ہیں اور عوام پریشان ہو چکے ہیں پٹرول
سٹیشنز پر ٹینک بھرنے کے انتظار میں ہیں اور پیٹرول کی ذخیرہ اندوزی میں
مصروف ہیں ہمارے پاس مٹی کا تیل نہیں، پیٹرول نہیں، ڈیزل نہیں، کھانا پکانے
کے لیے گیس نہیں اور ہمارے پاس لکڑیوں سے جلنے والے چولہے تک نہیں۔
ملک میں بدحالی اور بدامنی کو جنم دینے والا معاشی بحران ’ٹھیک ہونے سے
پہلے مزید بدتر ہو چکا ہے۔‘ شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالتے ہی
کہآ تھا کہ ہم عوام کو ریلیف دینگے مگر وہ ایسا کرنے میں بری طرح ناکام
ہوگے آور سارا ملبہ عمران خان کی حکومت پر ڈال دیا۔
موجودہ حکومت کے پاس معیشت کو بحران سے نکالنے کا کوئی نیا منصوبہ نہیں ہے
بلکہ وہ آج بھی اپنی انہیں پالیسیوں کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں جن کے باعث آج
معیشت اس مقام پر پہنچی ہے۔ اس کا اندازہ بطور وزیراعظم قومی اسمبلی میں
میاں شہباز شریف کی پہلی تقریر سے لگایا جا سکتا ہے
جسمیں شہباز شریف نے کم از کم اجرت بڑھا کر 25000 روپے کرنے کا اعلان کیا
ہے۔ اسی طرح پنشنوں میں 10 فیصد کا اضافہ کیا ہے اور ساتھ بے نظیر انکم
سپورٹ اور لیپ ٹاپ اسکیم جیسے دیگر پراجیکٹس کو بھی از سرنو شروع کرنے کے
اعلانات کیے گئے ہیں۔ اس طرح کے اقدامات کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ حکومت کو
خود بھی اندازہ ہے کہ وہ عوام کی سپورٹ کے بلبوتے پر اقتدار میں نہیں آئے
ہیں بلکہ برطرف کی گئی تحریک انصاف کی حکومت کی طرز پر عسکریت کے ایما پر
ہی انہیں اقتدار ملا ہے، جس کے باعث اقتدار کی منتقلی کے اس مرحلے میں ان
کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے آیا ہے جبکہ عمران خان کو فائدہ ہوا ہے۔
شہباز شریف اور اس کے خوش فہم معاشی ماہرین اور حواری درحقیقت معیشت کی
موجودہ گرتی ہوئی صورت حال کو کافی حد تک اپنے اندازے لگا کر دیکھ رہے ہیں
وہ شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ ماضی کی طرح اب بھی اعداد وشمار کے ہیر پھیر کے
ذریعے اور مختلف میگا پراجیکٹس کے بلبوتے پر اور عالمی سامراجی اداروں اور
طاقتوں سے مزید رعایتیں مستعار لے کر کوئی معاشی سست روی کا وقتی حل نکال
لیں گے اور پھر چین کی بنسی بجا کر عوام کو اپنے پیچھے لگا لینگے جو اب نا
ممکن ہے۔
وہ گزشتہ برسوں میں عالمی طاقتوں کے مابین بڑھتی ہوئی تجارتی جنگ، عالمی
معاشی اور سیاسی بحران، بالخصوص ترقی یافتہ دنیا کے سر پر لٹکتی ہوئی جمود
کی تلوار اور خود اس ریاست کے بحران کی شدت کو فی الوقت اقتدار کے خمار میں
سمجھنے سے قاصر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرضوں اور ڈائریکٹ فارن انویسٹمنٹ کے
علاوہ پہلے بھی ان حکمرانوں کے پاس کوئی معاشی پلان نہیں تھا اور نہ ہی آج
ہے۔ لیکن عالمی معیشت کی موجودہ کیفیت میں بڑے پیمانے کی بیرونی سرمایہ
کاری خارج از امکان ہے۔
مگرعوام سب جانتے ہیں کہ کون کیا کر رہا ہے۔ وہ غیر یقینی کی صؤرت حال سے
دوچار ہیں شہباز شریف نے غریب خاندان سے دن میں تین وقت کی روٹی کا وعدہ
کیا تھا جو پورا نہ ہو سکا۔۔ دنیا سے مزید مالی مدد کی توقع ختم ہو چکی ہے
موجودہ وزیر اعظم کے مطابق معیشت برباد ہو چکی ہے جسکی تمام تر ذمہ داری
عمران خان کی حکومت کے سر پر تھوپ دی گئی ہے۔ تاہم عوام کے لیے ان کا پیغام
ہے کہ ’صبر کریں، میں چیزوں کو واپس پہلے والی صورتحال پر لے آؤں گا۔جو ایک
سفید جھوٹ ہے۔ عوام کو ایندھن کی قلت اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا
سامنا ہے، حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ کچھ غریب شہری ایک وقت کا کھانا
چھوڑنے پر مجبور ہیں۔
اگر ہم سری لنکا کیطرف نظر دوڑائیں تو ہمارے حالات ان سے مختلف نہیں ہیں
سری لنکا میں املاک اور گاڑیوں پر آتش گیر مادے سے حملوں کا سلسلہ شروع ہو
گیا ہے۔تفصیلات کے مطابق سری لنکا میں معاشی بحران کی وجہ سے شروع ہونے
والے احتجاج کے نتیجے میں وزیراعظم مہندا راجا پکشے نے پیر کو استعفیٰ دے
دیا تھا لیکن اس کے باوجود تشدد کا سلسلہ تھم نہیں سکا۔
ملک گیر کرفیو کے باوجود شہر شہر حملے اور مظاہرے جاری ہیں، مظاہرین املاک
اور گاڑیوں پر آتش گیر مادے سے حملے کر رہے ہیں۔سیکیورٹی فورسز کو شرپسندوں
کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن مظاہرے پھر بھی جاری ہیں،
اور پرتشدد مظاہروں میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔سری لنکن فوج
کے مطابق مستعفی وزیرِ اعظم مہندا راجا پاکسے نے ایک بحری اڈے میں پناہ لے
لی ہے۔گزشتہ رات کو صدر گوٹابایا راجا پاکسے نے قوم سے خطاب کیا تھا، جس
میں انھوں نے شدید مطالبے کے باوجود مستعفی ہونے کے معاملے کو یکسر نظر
انداز کیا، جس پر شہری انھیں سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔انھوں نے
گزشتہ ماہ مظاہروں کے آغاز کے بعد اپنے اس پہلے قومی خطاب میں صدارت کے کچھ
اختیارات پارلیمنٹ کو دینے کی پیش کش کی ہے، لیکن کوئی ٹائم ٹیبل طے نہیں
کیا، جس پر سری لنکا کے وہ لوگ جو ان سے بے مثال معاشی بحران پر مستعفی
ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں،سری لنکن شہریوں کا کہنا ہے کہ انھیں اصلاحات کی
ضرورت نہیں ہے بلکہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ صدر کا استعفیٰ ہے۔ یہی حال کچھ
ہمارے یہاں ہے اور حالات ایک طرح کے دکھائی دے رہے ہیں۔اب جبکہ عمران خان
نے موجودہ حکومت اور دیگر اداروں سے مداخلت کرتے ہوئے انتخابات کا مطالبہ
کیا ہے تو حالات بتا رہے ہیں کہ حکومت لیت و لال سے کام لے رہی ہے جو نہ
صرف انکی نادانی ہوگی بلکہ تشدد کو ہوا دینے والی بات ہوگی اور اگر عوام
ایک مرتبہ سڑکوں پر نکل آئے تو عوام کو سنبھالنا مشکل ہو جائیگا۔ اس سے
پہلئے کہ حالات خراب ہوں ہمیں ھوش کے ناخن لینے چاہیئں۔
|