انیس سو اٹھتر میں پاکستان کی
معاشی حالت اتنی پتلی ہوگئی تھی کہ اس میں فوجی مشقوں کے لیے تیل خریدنے کی
سکت بھی نہیں رہی تھی۔
پھر عالمی سیاست نے ایسا پلٹا کھایا کہ سرد جنگ افغانستان کی سرزمین پر گرم
جنگ میں تبدیل ہوگئی اور یوں امریکی کیمپ میں شامل ہوتے ہی پاکستان پر
ڈالروں کی بارش شروع ہوگئی جو انیس سو اٹھاسی تک برستی رہی۔ اسلامی دنیا نے
'جہاد' کو جنس بنا کر سرمایہ دارانہ ممالک میں بیچ ڈالا اور 'جہاد' کا علم
پاکستان کے ہاتھوں میں تھما دیا گیا۔
پھر اسلامی جہاد سے سوویت یونین کے حصے بخیے کر دیے گئے اور امریکی اور
مغربی ممالک نے سکھ کا سانس لے کر اس خطے سے ایک بیوپار کی طرح منہ موڑ لیا۔
انہیں کیا پتہ تھا کہ 'جہاد' جذبے سے ایک صنعت میں ڈھل چکا ہے جس کے بغیر
اب پاکستان جیسے ملکوں کی معاشی سانسیں ہموار نہیں رہتیں۔
انیس سو چورانوے سے افغانستان کی سرزمین پر 'جہاد' کی فیکٹری میں طالبان کا
نیا برانڈ تیار ہوا اور اسامہ بن لادن اور القاعدہ یہاں پہنچے۔ اس نئے
برانڈ کو 'گلوبل جہاد' کا تڑکا لگا اور سرمایہ دارانہ ممالک کی مارکیٹ میں
اس کی قیمت اور بھی بڑھ گئی۔
جب سنہ دو ہزار ایک میں پاکستانی معیشت دیوالیے پن کی دہلیز پر پھر آخری
سانسیں گن رہی تھی تو گیارہ ستمبر کے حملوں نے پاکستان کو پھر سے معاشی
زندگی بخش دی۔ پاکستان نےافغان پالیسی پر 'یو ٹرن' کیا۔ طالبان کی ایسی
قیمت لگی کہ اربوں ڈالر کے قرضے ری شیڈول ہونے کے علاوہ اگر کیری لوگر بل
کی امدادی رقم کو شامل کر دیا جائے تو پاکستان کو اب تک دہشت گردی کے خلاف
جنگ کے نام پر لگ بھگ اٹھارہ بلین ڈالر مل چکے ہیں۔
افغانستان کی جنگ روز مرہ کی بنیاد پر مغرب نے نہیں جھیلی اس لیے ان کی اس
جنگ کے بارے میں سوچ شاید مختلف ہو۔ یہ عین ممکن ہے کہ مغرب کی نظر میں
نائن الیون سے قبل افغانستان پاکستان کا اے ٹی ایم تھا، جہاد کریڈٹ کارڈ
اور مجاہد یا طالبان پِن کوڈ۔ اور جب امریکیوں نے اس اے ٹی ایم پر قبضہ کیا
تو اسے پاکستان کے قبائلی اور صوبہ سرحد کے علاقوں میں نصب کر دیا گیا۔
جہاد کا کریڈٹ کارڈ تو وہی پرانا تھا لیکن پاکستانی طالبان اس کا نیا پِن
کوڈ بنے۔ تعنی ضرورت مند جب چاہیں اس اے ٹی ایم میں جہاد کا کریڈٹ کارڈ ڈال
کر اس سے طالبان کا پِن کوڈ دے کر ڈالر نکلوا لیں۔
عبدالحئی کاکڑ |