(ق) لیگ کے پلیٹ فارم سے باقاعدہ
عملی سیاست کا آغاز کرنے والی خوبصورت و نازک دوشیزہ حنا ربانی کھر ایک
زمیندار و سیاسی گھرانے سے تعلق رکھنے والی اعلٰی تعلیم یافتہ اور کامیاب
بزنس ومین ہے ۔ ٢٠٠٢ میں مظفر گڑھ کے حلقے سے کامیاب ہوکر قومی اسمبلی کی
ممبر بنی ۔ حنا کی تعلیمی قابلیت و کیرئیر کو مد نظر رکھتے ہوئے سابق آمر
کے دور حکومت میں انہیں وزارت خزانہ و اقتصادی امور کا وزیر بنا دیا گیا ۔
سابق وزیراعظم شوکت عزیز حناربانی کھر کی خزانہ و اقتصتادی امور کے معاملات
میں رہنمائی فرماتے اور انہیں گاہیں بگاہیں اپنے تجربے سے مستفید کرتے رہتے
۔ سابق صدر پرویز مشرف اور شوکت عزیز حناربانی کھر کے سیاسی آئیڈیل رہنماء
تھے جس کا اعتراف وہ سابقہ دور حکومت میں کرتی رہی تھی۔
سابق آمر کے دور میں حنا ربانی کھر کو میڈیا سے دور اور الگ تھلگ رہتا
دیکھا گیا اور دیگر سیاسی رہنماؤں کی روش سے ہٹ کر حنا نے صحافیوں کی دوستی
سے اجتناب برتا ۔
٢٠٠٨ کے الیکشن میں مسلم لیگ (ق) نے حناربانی کھر کو پارٹی ٹکٹ دینا سے
انکار کیا تو انہوں نے محترمہ سے رجوع کیا تو بے نظیر بھٹو نے ان کا
خاندانی سیاسی پس منظر اور حلقہ میں اثر و رسوخ دیکھتے ہوئے حنا کو
پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ فراہم کردیا ۔ محترمہ
کی دور اندیشی صحیح ثابت ہوئی اور حنا بڑی بھاری اکثریت سے اپنے مخالفین کو
پیچھاڑتے ہوئے قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی ۔
حنا کی کامیابی (ق) لیگ کو ہضم نہیں بوئی کئی معتبر لیگی رہنماؤں نے حنا کے
لیے جو نازیبا الفاظ استعمال کیے وہ قابل شرمناک ہیں ۔ بہر کیف یوسف رضا
گیلانی نے اپنی کابینہ میں حنا کو دوبارہ وزارت خزانہ و اقتصادی امور میں
بھیج دیا لیکن اس دفعہ وہاں ان کی رہنمائی کرنے والے شوکت عزیز صاحب نہیں
تھے ۔
حنا نے بطور مملکت برائے خزانہ و اقتصادی امور اپنی ذمہ داری کو بڑ ے احسن
طریقے نبھایا اور اپنی قابلیت اور حسن گفتگو سے بہت ہی قلیل عرصے میں صدر
آصف علی زرداری کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔
حنا ربانی کھر ملک کی پہلی سب سے کم عمر وزیر خارجہ ہی نہیں بلکہ وزیر
خزانہ بنے کا بھی اعزاز حاصل ہے بطور وزیرخزانہ قومی اسمبلی میں بجٹ پیش
کرنے والی پاکستان کی تاریخ میں پہلی خاتون ہے ۔
(ق) لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کرنے والی سیاسی طور پر نابالغ لڑکی
جسے پیپلزپارٹی سے منسلک ہوئے تین سال سے زائد کا عرصہ ہوا اس نے پارٹی سے
منسلک ان سنیئر رہنماؤں کو جو پیپلزپارٹی سے ٢٥ اور ٣٠ سال سے وابستہ تھے
پیچھے چھوڑ تے ہوئے صدر زرداری کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہی ۔
شاہ محمود قریشی کے وزارت خارجہ سے بے دخلی کے بعد صدر آصف علی زرداری نے
خارجہ کے منصب پر سنیئر رہنماؤں کو نظر انداز کرکے حناربانی کھر کو وزیر
خارجہ کا قلمدان دینا پارٹی رہنماؤں میں ناقابل پسند دیدہ فیصلہ تھا۔
بھارت کی تاریخ میں پہلی بار کسی پاکستانی وزیر خارجہ کے دورے کو بہت
پذیرائی ملی بھارت کے ہر اخبار و چینل پر حناربانی کھر کے دورے کو خاص
کوریچ دی گئی سیاسی گفتگو سے لے کر ان کی نجی زندگی کا موضوع بھی زیر بحث
رہا ۔ حنا کے کپڑ ے ، نیکلس ، پرس ہیئر اسٹائل کے حوالے سی بھی شہ سرخیاں
لگی۔،
ان کے بھارتی ہم منصب ایس ایم کرشنا کو کو نروس دیکھا گیا جبکہ حنا صرف چند
لحموں کے لیے نروس ہوئی جب ایس ایم کرشنا کی جانب سے نا ختم ہونے والے محصا
فحہ کیا گیا ۔
بھارتی آخبارمیں شہ سرخیا زینت بنی کہ پاک ہند تعلقات حنا کے رنگ میں رنگ
گئے ایس ایم کرشنا پر شدید تنقید کی گئی کہ وہ خوبصورت حسینہ کے سامنے چت
ہوگئے اور بھارتی موقف کی صیح ترجمانی نہیں کرسکے یہ واقعی پاکستان کی
کامیابی ہے۔
تاہم صدر زرداری کو وزارت خارجہ کے لیے گیلانی جیسے وفادارکی ضرورت تھی جو
نہ لوگوں کی تنقید سن سکتا ہوں نہ ان کے مصائب و تکلیف دیکھ سکتا ہوں اور
ناہی بیرونی آقاؤں کے غلط اقدام کو غلط کہہ سکتا ہوں شاید یہی وجہ ہوگی
اپنوں سے بے وفائی کی اس لیے اہم منصب پر تجربہ کار سیاست دانوں کے بجائے
سیاسی طور پر نابلغ دوشیزہ کو اہم ذمہ داری سونپ دی گئی۔ |