مِیم مِیم مضامین/ڈاکٹر محمد حنیف شیوانی(م ح ش)
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
مِیم مِیم مضامین/ڈاکٹر محمد حنیف شیوانی(م ح ش) ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی سال رواں کا پہلا مہینہ اور مہینے کا پہلا ہفتہ کا آغاز کتاب کے تحفہ سے ہوا۔ اس سال کے پہلے تحفہ کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ ایک محترم کا فون موصول ہوا۔ سلام کے تبادلے کے بعد انہوں نے فرمایا کہ میں نے آپ کی فیس بک پر پروفائل کا مطالعہ کیا آپ کو اپنی کتاب بھیجنا چاہتا ہوں اپنا پوسٹل ایڈریس واٹس اپ کردیں۔ بات کتاب کی تھی چنانچہ اندھا کیا چاہیے دو آنکھیں۔ پہلی فرصت میں ایڈریس واٹس اپ کردیا۔ دوسرے روز جب کہ میں گھر پر نہیں تھا کوئی موصوف ایک پیکٹ گھر پر دے گئے، پیکٹ کھولا تو ڈاکٹر محمد حنیف شیوانی کی طنز و مزاح پر مشتمل مضامین کا مجموعہ ”مِیم مِیم مضامین“ تھا۔ میسنجر پر کال کی تاکہ کتاب موصول ہونے کی اطلاع دوں۔ گفتگو کے دوران یہ راز بھی کھلا کہ شیوانی صاحب انگریز کی نگری برطانیہ کے باسی ہیں، وہ ڈاکٹر ہی نہیں بلکہ سرجن ہیں۔یہ کتاب انہوں نے اپنے کسی عزیز کے ذریعہ مجھے پہنچائی۔ شکریہ ادا کیا،گفتگو سے شائستہ لیکن مزاح کا احساس محسوس ہورہا تھا۔ فرمایا کہ یہ میری اولین کتاب ہے جوطنز و مزاح کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ خوشی ہوئی ڈاکٹر صاحب سے بات کر کے، کتاب کے تحفہ کا شکریہ اداکیااور اس پر کچھ لکھنے کا وعدہ بھی۔میری تخلیقی زندگی میں شخصیا ت اور کتاب کلیدی اہمت رکھتی ہیں۔دونوں سے مجھے عشق ہے۔ یہی وجہ ہے میں نے سب سے زیادہ شخصیات کو اپنا موضوع بنایا، پھر کتاب میرا موضوع بنی اور ہے۔ ان دونوں سے میرے عشق کی نصف صدی بیت چکی۔سوانحی مضامین، خاکہ نگاری، کالم نگاری، تبصرہ نگاری، رپوتاژمیرے خاص موضوعات ہیں، اس کے بعد کالم نگاری کا چسکا لگا، اس کی وجہ سیاسیات میں ماسٹرز ہونا اور ملک کے ابتر سیاسی حالات اور حکومت اور سیاسی جماعتوں کے مابین لفظی جنگ۔میرے کالموں کے مجموعوں میں رشحات قلم، کالم نگری، کالم پارے اور جواہر الکالم شائع ہوچکے ہیں۔ شخصیات کے حوالے سے ’یادوں کی مالا‘، ’وہ جو اب ہم میں نہیں‘، خاکوں کا مجموعہ جھولی میں ہیرے اور موتی شائد ہوچکی ہیں۔ پیش نظرتصنیف طنز و مزاح کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ اصنافِ ادب میں طنز و مزاح کو ہمیشہ سے ہی منفرد، دلچسپ اور پسندیدہ مقام حاصل رہا ہے۔ طنز و مزاح کی حس ہرایک میں نہیں ہوتی۔ منفرد قسم کی صلاحتیں قدرت کی جانب سے ودیعت ہوتی ہیں، پھر اس خوبی کا حامل شخص مستقل مشق اور محنت سے اس میں نکھار پیدا کرلیتا ہے۔ طنز کو میٹھا زہر جب کہ مزاح طنز ہی کی ایک قسم ہے،طنز اور مزاح معمولی سے فرق کے ساتھ ایک ہی کام سرانجام دیتے ہیں یعنی بات کو اس انداز سے نثر یا نظم میں پیش کرنا کہ سننے یا پڑھنے والا کبھی تو زیر لب مسکراکر رہ جائے کبھی زور دار قہقہا لگا ئے اور مزاح یا طنز کا بھر پور مزہ لے۔ اردو ادب میں متعدد شخصیات معروف ہیں جنہو ں نے طنز و مزاح کے ایسے ایسے تیر و نشتر چلائے کہ ان کے اس عمل نے انہیں امر کردیا۔جعفر زٹلی کا نام ادب کی کئی اصناف میں آتا ہے مزاح میں بھی جعفر زٹلی سر فہرست ہے۔ پھر مصحفیؔ، آتشؔ، غالبؔ، انشاءؔ اللہ خان، ذوقؔ، رفیع سوداؔ، پطرس بخاری، رشید احمد صدیقی مغرب کے ایڈیسن گولڈا سمتھ جیسے مزاح لکھنے والوں نے اس صنف کو آگے بڑھایا۔ اکبرؔ الہ آبادی نے مزاح کے ساتھ ساتھ طنز و ظرافت میں خوب نام کمایا۔ وہ جدید اردو شاعری کے سَرخَیل بھی سمجھے جاتے ہیں نیز فقید المثال شخصیت بھی۔شاعری میں ایسی روش کو روشناس کرایا جو اس سے قبل موجود نہیں تھی۔ اتفاق ہے کہ سال رواں کے پہلے مہینے میں دو کتابیں احباب نے ارسال کیں دونوں نثری طنز و مزاح ایک تو ”مِیم مِیم مضامین/ڈاکٹر محمد حنیف شیوانی“صاحب کی تصنیف دوسری آسٹریلیا کے ڈاکٹر محمد محسن آرزوکی تصنیف ”بچہ کیوں ضروری ہے“۔ ڈاکٹر محسن آرزو آسٹریلیا کے باسی ہیں۔ وہ اپنی کتاب کی طباعت اور اس کی تعارفی تقریب کے لیے بطور خاص کراچی آئے۔ راقم کا آرزو کی کتاب کا پیش لفط لکھنے اور اس کی تعارفی تقریب کی صدارت کر نے کا بھی شرف حاصل ہوا۔ ڈاکٹر محمد حنیف شیوانی کے طنز و مزاح سے بھر پور مضامین کے مجموعہ کا عنوان ”میم میم مضامین“ ہے یعنی’میرے مختصر مضامین‘، واقعی کتاب میں شامل تمام ہی مضامین مختصر جن کی تعداد 53ہے اور 10مضامین کرونا کے حوالے سے ہیں اس طرح کل مضامین 63ہیں۔ دیباچہ اور چند احباب کی کتاب اور صاحب ِ کتاب کے بارے میں رائے پر مشتمل مضامین کی تعداد 5ہے۔ ڈاکٹر محمد حنیف شیوانی پیشے کے اعتبار سرجن ہیں لیکن ان کے اندر ایک لکھاری جو شاعر بھی ہے اور نثر نگار بھی ہے۔ اسے باہر آنے میں اتنا وقت کیوں لگا یقینا اس کی وجوہات میں ڈاکٹر صاحب کی پیشہ ورانہ سرگرمیاں رہی ہوں گی۔ اس لیے کہ پہلے پیٹ پھر کچھ اور۔ ڈاکٹر صاحب کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی شخصیت ہمہ جہت پہلو لیے ہوئے ہے۔ جن احباب نے ڈاکٹر شیوانی کی اس کتاب پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے، وہ ڈاکٹر شیوانی کے ساتھی، ہم پیشہ اور ذاتی اور قربت کے تعلقات رکھتے ہیں۔ ان کی رائے سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ڈاکٹر شیوانی کے قلم میں روانی ہے بقول عقیل اشرف ’ڈاکٹر محمد حنیف شیوانی کی تحریروں سے آنکھیں روشن ہوئیں اور دل باغ باغ ہوگیا۔ حنیف صاحب کے پاس نشتر بھی اور قلم بھی ہے۔ جب چاہتے ہیں قلم کو نشتر بنا لیتے ہیں۔نشتر سے بدن کی آبیاری کرتے ہیں اور قلم سے ذہن کے آ نگن میں پھول کھلادیتے ہیں‘۔ ڈاکٹر پروفیسر جاوید اقبال کی رائے درست ہے کہ ’ڈاکٹر محمد حنیف شیوانی کی تحریر کی خاص بات سہل نگاری ہے جسے پڑھتے ہوئے قاری کے ذہن یا مزاج پر کسی قسم کا بوجھ نہیں پڑتا۔ پڑھتے وقت توجہ ادھر اُدھر نہیں جاتی اور ایک لطیف فرط کا احساس موجود رہتا ہے‘۔ کتاب کے چند مضامین سے مختصر تحریریں۔ کتاب کا اولین مضمون ”دوپیشے کا فائدہ“ ہے۔ لکھتے ہیں ”اکہتر(71) کے بعد جب سے مشرق اور مغرب الگ ہوئے ہیں اس وقت سے ’ٹکے‘ والے پیسے والے ہوگئے ہیں اور ’پیسے‘ والے ٹکے ٹکے کے ہوگئے ہیں۔ کیا دو ٹکے کی بات ہے یہ لیکن کیا کیا جائے سچائی یہی ہے۔ دو ٹکے کے لوگ مشرق و مغرب میں ہر جگہ ملتے ہیں پر یہاں تو ایسے دو دو ٹکے کے لوگ بڑے بن گئے ہیں کہ جنہوں نے ملک کوہی دوٹکے کا کرکے رکھ دیا ہے“۔مضمون ’کراچی کا جغرافیہ‘ کی تمہید میں لکھتے ہیں ’ایک عرصے بعد سید احمد شاہ بخاری پطرس بخاری مرحوم کے مضامین دوبارہ پڑھنے کا موقع مل گیا۔ ان کے مضمون ”لاہور کا جغرافیہ“ پڑھ کر طبیعت ایسی بے چین ہوئی کہ تحریر لکھے بغیر سکون نہ آیا۔ لاہور تو لاہور ہے، اور کہتے ہیں کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا ”اوتے جمیا ای نئیں“، تو جناب راقم نے بچپن میں لاہور کی سیر کر کے یہ فریضہ زندگی میں ایک مرتبہ ادا کردیا۔ لیکن جس شہر لا مکاں میں بابائے قوم کی جائے پیدائش سے کچھ گلیاں دور اپنی جائے پیدائش واقع ہونے اور ان ہی گلیوں میں اپنی زندگی کے حسین دن گزارنے کی بنیاد پر اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہوئے اور اس کا اب جو حال اصل اور نقل مکینوں نے کررکھا ہے اس پر یہ مضمون لکھنا جائز بنتا ہے۔ اگر پطرس مرحوم زندہ ہوتے تو ان کی چربہ سازی کی اجازت اپنا حق سمجھ کر لے ہی لیتا اور ادبی یا قانونی عدالت میں گھسیٹے جانے کی ہزیمت یقینا اٹھانا پڑتی، لیکن یہ تو ممکن نہیں۔ لہٰذا کوئی اور چار ہ نہیں کہ بیچارگی میں ان سے معذرت کے ساتھ کراچی کا جغرافیہ لکھ دیا جائے“۔ اپنے مضمون ”سر کاری زبان“ میں کچھ اس طرح رقم طراز ہیں ”سرکاری زبان کے بارے میں بہت سی باتیں بتائی یا بنائی جاتی ہیں۔ ایک صوبائی وزیر کے سرکاری ڈرائیور نے بتا یا کہ ان کے صاحب بہت ہی پڑھے لکھے ہیں۔ وہ بہت سے بولیاں بولتے ہیں اور وقت اور موقعے کی مناسبت سے زبان بدل دیتے ہیں۔ ہم نے پوچھا وہ کیسے۔ کہنے لگا: سر، کار میں بیٹھتے ہیں یا اپنے کتے کو واک پر لے جاتے ہیں تو انگریزی میں بات کرتے ہیں، چوکیدار کو پشتو میں گیٹ کھولنے کا حکم دیتے ہیں، پٹے والے سے اردو میں فائلیں اور چپڑاسی سے سندھی میں چائے منگاتے ہیں۔ پولیس والے کو پنجابی میں گالیاں دیتے ہیں اور گن گانے ہوں تو ہندی میں گاتے ہیں“۔ ایک مضمون کا عنوان ہے ”نقطے کا نکتہ“ لکھتے ہیں ”بچو..... اردو کا یہ ’نقطہ‘ ایسا ہے جیسے انگریزی کا عدد ’زیرو‘..... جس دن آپ اس نقطے کی اہمیت سمجھ لیں گے زندگی میں کبھی ”خدا“ کو ”جدا“ نہیں ہونے دیں گے۔ ایک مضمون ”بیوی اور بیلن“ بھی ہے۔ اس مضمون میں صاحب کتاب بیوی اور بیلن کے تعلق کا ذکر کچھ اس طرح کرتے ہیں۔ ”جس طرح جسمانی حرکات اکثر عباداتی اعمال اور روحانی منازل کے اعلیٰ درجات کے حصول کے لیے لازم و ملزوم ہوتی ہیں اور ان کی بنیاد پر خدا کی خوشنودی حاصل کرنا ایک اعلیٰ پائے کے روحانی تعلق کی عکاسی کرتا ہے، اسی مصداق بیلن کے استعمال کی بنیادپر مجازی خدا سے حسب منشاء اعمال کرانا بھی ایک ہنر سے کم نہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ بیلن کے استعمال سے روٹیاں گول اور خاوند سیدھے ہوجاتے ہیں۔اگر چہ روٹی کو گول کرنے کے لیے آ ٹے کے پیڑے کو مختلف زاویے سے مسلناہر دفعہ لازم و ملزوم ہوتا ہے۔ لیکن مشاہدے میں بھی آیا ہے کہ خاوند کو سیدھا رکھنے کے لیے بیلن کو اکثر صرف ہوا میں لہرا نے سے بھی کام چل جاتا ہے“۔کتاب میں شامل دیگر مضامین میں بھی ہلکا پھلکا مزاح اور کہیں کہیں طنز کے نشتر چلتے نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد حنیف شیوانی کے طنز و مزاح پر مشتمل مضامین کا مجموعہ اردو ادب میں ایک اہم اضافہ ہے۔ (18مئی 2022ء)
|