ہوسِ اقتدار

پاکستان مسلم لیگ(ن) آج کل عدلیہ کی حمائت کے نعرے بڑے زور شور سے لگا رہی ہے شائد وہ اس بات کو ثابت کرنا چاہتی ہے کہ اس کے دلِ ناتواں میں عدلیہ کا بڑا گہرا درد گھر کئے ہوئے ہے اور وہ اس درد اور محبت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔مسلم لیگ (ن) عوام میں یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش بھی کر رہی کہ وہ بڑی انصاف پسند جماعت ہے اور اس نے ہمیشہ قانون و انصاف کی سر بلندی کے لئے بے شمار قربانیاں دی ہیں اس کا دعویٰ ہے کہ جب کبھی بھی عدل و انصاف کے اداروں پر کڑا وقت آیا مسلم لیگ (ن) نے آگے بڑھ کر ان اداروں کا تحفظ کیا ۔ حالانکہ سچ یہ ہے کہ اس نے پاکستان کے سفاک ترین آمر کی گود میں جنم لیا ہے لہذا عدلیہ سے محبت کا ورد اس کے منہ سے سجتا نہیں ہے۔ عدلیہ سے محبت کے دعوی کی صدا قت کے لئے ان کے پاس سب سے موثر دلیل ان کا وہ لانگ مارچ ہے جو انھوں نے مارچ ۹۰۰۲ میں عدلیہ کی بحالی کے لئے کیا تھا اور جس کے دوران وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے ججز کی بحالی کا حکم نامہ جاری کرکے تمام یرغمال شدہ ججز کو بحال کر دیا تھا۔خود فریبی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو گی کہ ججز کی بحالی کو لانگ مارچ سے جوڑ دیا جائے حالانکہ ججز کی بحالی کا تعلق لانگ مارچ کی بجائے قویک مارچ سے زیادہ تھا۔اگر لانگ مارچ سے ججز بحال ہو سکتے ہوتے توپھر جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس لانگ مارچ کے نتیجے میں ضرور بحال ہو جاتے جس لانگ مارچ میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی تھی اور جن کے نعروں کی ضربوں سے صدارتی محل کے درو دیوار کانپ رہے تھے لیکن ججز پھر بھی بحال نہ ہوئے اور سارے شرکا ئے لانگ مارچ کو انتہائی مایوسی ، بد دلی اور بے شمار الزامات کے درمیان اپنے اپنے گھونسلوں میں واپس آنا پڑا تھا۔ ججز کی بحالی تو بڑے دور کی بات ہے احتجاجی تحریک کے سارے کردار دو سالوں میں ان خاردار تاروں کو بھی نہ ہٹوا سکے تھے جن کے پیچھے ججز حراست میں رکھے گئے تھے۔ یہ کریڈٹ تو بہر حال وزیرِ اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کو جاتا ہے جس نے حلف اٹھانے سے پہلے خاردار تاروں کو ہٹا نے کا حکم صادر فرمایا تھا اور یوں ججز کی وہ نظر بندی جو جنرل پرویز مشرف کے دور سے شروع ہو ئی تھی اپنے انجام کو پہنچی تھی۔

یہ تو بھلا ہو جنرل اشفاق پرویز کیانی کا کہ جن کی خصوصی توجہ کی وجہ سے یہ دیر ینہ مسئلہ حل ہو گیا۔وگرنہ ممکن تھا کہ ججز اب بھی خاردار تاروں کے پیچھے رمضان کے روزے رکھ رہے ہوتے۔جنرل اشفاق پرویز کیانی نے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اور وزیرِ اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کو اس بات پر قائل کیا کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا ہے لہذا اس مسئلے کو اب حل ہو جانا چائیے ۔ کئی گھنٹو ں کی کی باہمی مشاورت کے نتیجے میں یہ مسئلہ اپنے انجام کو پہنچا تھا اور جنرل کیانی کے ٹیلیفون کے بعد میاں برادران لانگ مارچ ادھورا چھوڑ کر واپس چلے گئے تھے ۔ ججز بحالی کا اعلان وزیرِ اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے قوم کے نام اپنے خصوصی خطاب میں کیا۔ کچھ لوگ اس چیز کا بھی ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ لانگ مارچ کے خوف سے آصف علی زرداری کے ہاتھ پاﺅں پھول گئے تھے اور وہ اتنے خوف زدہ ہو گئے تھے کہ انھوں نے ججز کی بحالی کی سمری پر فورا دستخط ثبت کر کے اپنی جان بچائی۔ جو لوگ آصف علی زرداری کی شخصیت سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتے ہیں انھیں اتنا تو یقین ہے کہ اس شخص کو خوف زدہ کر کے اپنے من پسند فیصلے حا صل نہیں کیے جا سکتے۔ آصف علی زرداری پر آپ جتنے جی چاہیں الزامات لگا تے رہیں لیکن یہ الزام اسکی شخصیت سے مطابقت نہیں رکھتا کہ اس نے خوف کی وجہ سے ججز بحال کئے تھے۔وہ شخص جو ساڑھے آٹھ سال تک جیلوں کی صعوبتیں برداشت کر سکتا ہو وہ ایک لانگ مارچ سے اتنا خوفزد ہو سکتا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے ججز بحال کر دے بیمار ذہنوں کی عکاس ہے۔پی پی پی ایک عوامی جماعت ہے اور اس طرح کے کئی لانگ مارچ اس نے خود بھی کئے ہیں لہذا لانگ مارچوں سے سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ آمروں کے حاشیہ بردار خوف زدہ ہوا کرتے ہیں اور رات کی تاریکی میں معافی نامے لکھ کر فرار ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر اب بھی اگر کوئی جماعت، فرد یا گروہ اس مسئلے کے حل کا کریڈٹ لینا چاہتا ہے تو اسے ایسے ضرور کرنے دیں اس کی دل شکنی نہ کریں کیونکہ روزوں میں دل شکنی کی بالکل گنجائش نہیں ہو تی۔

مسلم لیگ کے صدر میاں محمد نواز شریف نے چند روز قبل اپنی پریس کانفرنس میں جس طرح بھڑکوں سے سجی ہو ئی دھواں دھار تقریر کی اور عدلیہ کو جسطرح سے اپنی حمائت کا یقین دلا یا اس نے بہت سے سوا لات کو جنم دے دیا ہے۔ پاکستان کا آئین عدلیہ کو تحفظ فراہم کرتا ہے لہذا اسطرح کی بھڑکیں عدلیہ کے وقار میں اضافہ کی بجائے اسے مزید متنا زع بنا دیں گی۔مسلم لیگ (ن) کی شدید خواہش ہے کی عدلیہ اور پی پی پی کے درمیان کسی نہ کسی طرح سے تصادم ہو جا ئے اور عدلیہ پی پی پی کی حکومت کو اقتدار کے ایوانوں سے رخصت کر دے تا کہ اقتدار پکے پھل کی طرح مسلم لیگ (ن) کی جھولی میں آگرے۔ میاں محمد نواز شریف کی حالیہ پریس کانفرنس بھی اسی تناظر میں دیکھی جا نی چائیے لیکن الٹی ہو گئیں سب تد بیریں دل نے کچھ نہ کام کیا کہ مصداق ان کا یہ تیر اپنے ہدف پر نہیں لگ سکا کیونکہ حکو مت نے ایک دفعہ پھر اپنی بہتر حکمتِ عملی سے اپوزیشن کی منفی سوچ کو کو مات دے ڈالی ہے۔ کچھ دن پہلے بھی نواز لیگ کا اسی طرح سیاسی دھڑن تختہ ہوا تھا اور اسے ہزیمت اٹھا نی پڑی تھی جب اس نے ایم کیو ایم کو ہوسِ اقتدار میں بھاگ کر گلے لگایا تھا ،ان کی بلائیں لی تھیںاور انھیں پارسائی کی سند سے نوازا تھا اور پی پی پی کی جمہوری حکومت کو گرانے کے لئے گرینڈ الائنس کا منصوبہ بنا یا تھا حالانکہ اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کی نظر میں یہی ایم کیو ایم انتہائی خونی اور دھشت گرد جماعت تھی اور اس سے جمہوری، پارلیمانی اور حکومتی معاملات پر کسی قسم کی کو ئی بات چیت نہیں ہو سکتی تھی ۔ ذاتی مفادات کے شا خسانے ایسے ہی موقف بدللواتے ہیں جس سے بعد میں ندامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایسی ہی صورتِ حال عدلیہ کے معاملے میں بھی دیکھنے کو ملی ہے۔ایک وقت تھا جب مسلم لیگ (ن) نے اقتدار بچانے کےلئے عدالتوں پر حملہ کیا تھا اور اب اقتدار حاصل کرنے کے لئے عدالتوں کو استعمال کر رہے ہیں لیکن انھیں پھر بھی اپنے مقاصد میں کامیابی نہیں ہو سکتی کیونکہ عدالتیں بھی ان کے عزائم کو خوب اچھی طرح سے سمجھتی ہیں۔ انھیں علم ہے کہ کچھ سیاسی جماعتیں ان کے کندھوں پر بندوق رکھ کر شکار کھیلنا چاہتی ہیں لہذا وہ اپنے شانوں کو دوسروں کے استعمال کے لئے کھلا چھوڑنے کےلئے بالکل تیار نہیں ہیں کیونکہ اس میں انکی بھی رسوائی ہے۔ وہ اپنی ساری توجہ آئین اورقانون کی روح پر مرکوز رکھنا چاہتے ہیں اور کسی کا آلہ کار بننے کےلئے بالکل تیار نہیں ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے آزاد عدلیہ کا وہ تصور جس کے لئے پوری قوم نے جدو جہد کی تھی گہنا جائے گا۔۔

میاں صاحب جس قسم کا کھیل کیل رہے ہیں اور اپنی بھڑکوں اور غیر ضروری حما ئت سے عدلیہ کو متنازع بنا رہے ہیں اس سے انھیں اجتناب کرنا چائیے۔عوام با شعور ہو چکے ہیں اور وہ من میں چھپے عزائم کو بخوبی سمجھتے ہیں لہذا یہ بھڑکیںخود مسلم لیگ (ن) کے مفادات کو زک پہنچا رہی ہیں۔ سیانوں کا قول ہے کہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہو تا ہے اور عدلیہ کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا معاملہ درپیش ہے کیونکہ وہ لوگ جو عدلیہ کی حمائت کے لئے سینہ تان کر عدلیہ کو ہوا دے رہے ہیں ان کا اپنا ایجنڈا ہے اور اپنے ایجنڈے کی آڑ میں وہ سپریم کورٹ کو استعمال کر کے سپریم کورٹ کی غیر جانبداری کو داغ دار کر رہے ہیں ۔عوام نے پی پی پی کو ۵ سال کے لئے منتخب کیا ہے لہذا عوام پی پی پی کو اپنی ٹرم پوری کرنا دینا چاہتے ہیں اور اسے کسی لانگ مارچ، عدالتی فیصلے یا غیر آئینی طریقے سے رخصت کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ان کی خواہش ہے کہ پی پی پی اپنی آئینی مدت کے پانچ سال پورے کرے عوامی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے اور اپنی ٹرم کے خاتمے پر عوامی عدالت میں اپنے پانچ سالوں کا حساب دے اگر عوام پی پی پی کی خدمات سے مطمئن ہو ں گے تو اسے اگلی ٹرم کے لئے موقعہ دیں گئے نہیں تو ا نھیں اقتدار کے ایوانوں سے رخصت کر دیں گے۔ عوام اپنے ووٹ کی قوت سے تبدیلی کے خواہاں ہیں وہ کسی بھی غیر آئینی تبدیلی کے حق میں نہیں ہیں لہذا میاں برادران کو بھی اس حقیقت کا ادراک کر لینا چائیے اور یہی ان کےلئے سودمند ہے ورنہ بصورتِ دیگر وہ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔کوئی تیسری قوت میدان میں کود پڑے گی اور پھر وہ کچھ ہو جائے گا جو کسی کو بھی پسند نہیں ہو گا۔ تیسری قوت کو آج کل بڑے کھلے دعوت نامے مل رہے ہیں لیکن وہ جمہوری قدروں کی لاج رکھنے کی کوشش کر رہی ہے وگرنہ بعض سیاسی ادا کاروں کی تو راتوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں وہ تو حکومت کی تبدیلی کے علاوہ کچھ بھی سوچنے کےلئے تیار نہیں ہیں لیکن تیسری قوت فی الحال ایسا کرنے کے موڈ میں نہیں ہے لیکن اس بات کی کو ئی گارنٹی نہیں ہے کہ تیسری قوت ہمیشہ اسی طرح ہی سوچے گی اگر اس کا دماغ گھو م گیا اور اس نے ملکی مفاد میں اقتدار پر قبضے کا فیصلہ کر کیا تو پھر کیا ہو گا۔ میاں برادران تو خفیہ سمجھوتہ کر کے پھر سعودی عرب رو پوش ہو جائیں گئے اور اپنا نیا کارو بار شروع کر کے موج میلہ کریں گئے لیکن مارے جائیں گئے پی پی پی کے جیالے اور ان جیالوں کے موجودہ سردار آصف علی زرداری جو ایوانِ صدر سے زیادہ جیل میں خوش رہتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کی جنگ صرف پی پی پی ہی لڑ سکتی ہے لہذا وہ لوگ جو اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ پی پی پی غیر جمہوری قوتوں اور غیر جمہوری رویوں کے سامنے سر نگوں ہو جائے گی شدید غلطی پر ہیں ۔پی پی پی پوری قوت سے جمہوریت کی یہ جنگ لڑے گی اور غیر جمہور قوتوں کو شکستِ فاش سے دوچار کر کے جمہوریت کے پودے کی آ بیاری اپنے لہو سے کرے گی ۔۔

مسلم لیگ (ن) عوام کو عدلیہ سے اپنی محبت کی داستاں جس انداز سے سنانے کی کوشش کر رہی ہے وہ بڑی دلکش اور دلفریب ہے لیکن کیا حقائق بالکل ویسے ہی ہیں جیسے انھیں مسلم لیگ (ن) پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے یا پسِ پردہ کچھ دوسری کہانیاں ہیں جن کو طشت از بام کرنا ضروری ہے۔ اس میں کسی شک و شبہ کی مطلق کو ئی گنجائش نہیں ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو عدلیہ سے محبت ہے اور یہ اسی محبت کا کمال ہے کہ عد لیہ بھی مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے خلاف اہم مقدمات سننے سے گریزاں ہے اور میاں برادران کو مکمل ریلیف دے رہی ہے۔ہاں ایک بات ضرور ہے کہ جب کبھی مسلم لیگ (ن) محسوس کرتی ہے کہ عدلیہ اس کی محبت کا جواب محبت سے دینے کی بجائے بے رکھی اور انصاف پسندی پر اتر آئی ہے اور مسلم لیگ (ن) کے خلاف سخت فیصلہ سنانے کا قصد کر رہی ہے تو پھر مسلم لیگ (ن) عدلیہ کو سبق سکھانے کی خاطر اس پر حملہ آور بھی ہو جاتی ہے تا کہ عدلیہ کو علم ہو جائے کہ عاشقوں کا دل دکھانا کتنا بڑا جرم ہوتا ہے۔ دانش وروں کا قول ہے کہ عاشقوں کا دل کبھی بھی دکھانا نہیں چائیے کیونکہ جب کبھی بھی عاشقوں کا دل دکھایا جاتا ہے تو عاشق جذبات کی رو میں ایسے اقدام بھی اٹھا لیتے ہیں جو عام حالات میں وہ اٹھا نے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔مسلم لیگ (ن) کا ہوش ربا، جارحانہ اور رنگین ما ضی عوامی عدالت میں لایا جانا بہت ضروری ہے تا کہ لوگ مکمل حقائق سے آگاہ ہو سکیں اور پھر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ حقائق مقدس ہو تے ہیں جنھیں میڈیا ٹرائل اور چند زر خرید صحافیوں کے قلم کے جادو سے بدلا نہیں جا سکتا۔دعووں اور حقائق میں ہمیشہ زمین آسمان کا فرق ہو تا ہے اور دونوں میں بعد المشرین ہو تا ہے۔ مشہور کہاوت ہے کہ ہا تھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور لہذا مسلم لیگ (ن) کے عدلیہ سے محبت کے دعووں کو وقت کی کسوٹی پر پرکھنا بہت ضروری ہے تا کہ ان دعووں میں پوشیدہ تضادات کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے۔(اگلے کالم کا انتظار کیجئے )
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515916 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.