یہ موجودہ دور کا ایک اہم مسئلہ ہے کہ بہترین دوست کیسے
تلاش کیا جائے؟
دوست کئی طرح کے ہوتے ہیں اور یاری دوستی بھی کئی لوگوں سے ہوتی ہے اسلئے
ہر شخص فطری طور پر یہ چاہتا ہے کہ کو ئی اسکا دوست ہو۔
کیونکہ جس کا کوئی دوست نہیں وہ خود کو تنہا اور ویران محسوس کرتا ہے۔ اس
لیے وہ ہمیشہ ایک ایسے دوست کی تلاش میں رہتا ہے جو مخلص ہو، دیانت دار اور
بے لوث ہو اور اپنے دوست کی خوشی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہو۔
اور اگر خوش قسمتی سے کسی کو ایسا دوست مل جائے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ اس
کی زندگی میں ایک بہار آگئی، جیسے کلیاں پھوٹتی ہیں، پھول کھلتے ہیں اور
قوس قزح کے رنگ ہوا میں بکھر جاتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ فی زمانہ کیا ایسا دوست ملنا ممکن ہے؟ اگرچہ یہ ناممکن
نہیں مگر مشکل ضرورہے کیونکہ عام طور پر ایسے خود غرض دوست ملتے ہیں جواپنے
دوستوں کی جڑیں کاٹتے ہیں اور اپنا مطلب پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن،
ا س خود غرضی کے حالات میں انسان کا ایک سچا دوست بھی ہے جو اپنے بندوں کے
ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہتا ہے۔
وہ جو نظر تو نہیں آتا لیکن اپنے دوستوں کی مدد کرتا ہے اور ان کے ساتھ
بھلائی کرتا ہے،جو طاقتور ہے با اختیار ہے اور اپنے حکم کو پورا کر نا خوب
جانتا ہے۔
جی ہاں یہ دوست اللہ تعالی ہے! جو مالک و خالق، کائنات کا بادشاہ اور انسان
کا سچا دوست ہے۔
قرآن پاک میں اس کا بیان ہے، ”اللہ ایمان والوں کا دوست ہے۔ جوان کو کفر کے
اندھیروں سے نکال کر ہدایت کے نور کی طرف لاتا ہے“ (2.257)۔ اور فرمایا''
کیا انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے دوست بنالئے ہیں؟ درحقیقت اللہ ہی حفاظت
کرنے والا دوست ہے، وہی مردوں کو زندہ کرے گا اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔“
(الشوریٰ: 09)
اور فرمایا”اگر وہ منہ پھیر لیں تو جان لو کہ اللہ تمہارا دوست ہے، بڑا
کارساز، بڑا مددگار ہے۔“ (الانفال:38)۔
سوال یہ ہے کہ دوستی کی صحیح تعریف کیا ہے اور دوستی کسے کہتے ہیں؟ تو دوست
وہ ہے جو یہ کہے کہ جو کچھ میرے پاس ہے وہ میرا نہیں ہے بلکہ میرے دوست کا
ہے جب بھی وہ اسے طلب کرے.....
جی ہاں، دوستی کی اصل تعریف تو یہی ہے، لیکن اس میں ایک بات قابل غور ہے وہ
یہ کہ دوستی کی حد عقل اور شرعی قوانین کے دائرے کے ا ندرہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ دوستی کا باہمی لین دین شرعی قوانین کی بنیاد پر ہوگا
نہ کہ شہوت پرستی کے مطابق!
اب سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دوست ہونے کے ناطے کیا دیا ہے یا
کیا دے گا اور اسی طرح انسان اللہ تعالیٰ کو دوست ہونے کی حیثیت سے کیا دے
سکتا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو جو کچھ دیا ہے اور دیتا
ہے اس کا شمار ہر گز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کے فضل و کرم کے خزانے
لامحدود ہیں۔ اسکا قرآن پاک میں ارشاد گرامی ہے کہ ”اگر تم اللہ کی نعمتوں
کو شمار کرنا چاہو گے تو ہرگز شمار نہیں کر سکو گے“ (القرآن)۔
مگر جہاں تک انسان کا تعلق ہے تو وہ اپنے اس عظیم دوست کو عند الطلب کیا
کچھ ے سکتا ہے؟
اسکا جواب یہ ہے کہ وہ اپنے دوست کو اپنی سب سے زیادہ قیمتی چیز دے سکتا ہے
جو اس کے پاس ہے، اور وہ دراصل اس کی جان اور مال ہے!
اور اگر ا نسان اپنے دوست کا مطالبہ پورا کر دے تو اس کے بدلے اسے کیا حاصل
ہو گا؟
تو قرآن پاک میں آیا ہے کہ ”بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے جنت کے بدلے مسلمانوں سے
ان کی جان اور مال کو خرید کر لیا ہے۔“ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں جس میں
مارتے ہیں اور شہید بھی ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے۔ تورات
میں، انجیل میں اور قرآن میں۔ تم لوگ اسپر خوشیاں مناؤ جس کا تم نے سودا
کیا ہے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔“ (التوبہ: 111)۔
ارشاد باری تعالی ٰہے: ''مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔''
(40:60)۔
اور فرمایا کہ ”کون ہے وہ ذات کہ جسے جب کوئی مصیبت زدہ پکارتا ہے تووہ اس
کی پکار کو سنتا ہے اور اس کی مصیبت کو دور کرتا ہے'' (النمل 27:62)۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی کوئی ایماندار مومن بندہ بغیر کسی مقررہ وقت
اور کسی مخصوص شرط کے اللہ کو پکارے گا تو وہ اپنے دوست کو اپنے ساتھ پائے
گا، جو اسے کہے گا کہ ”فکر نہ کرو میں تمہارے ساتھ ہوں“۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے”بیشک وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر وہ
اسپر قائم رہے اتریں گے انپر فرشتے(اور کہیں گے) کہ نہ خوف کرو اور نہ غم
ناک ہو اور خوشی مناؤ اس جنت کی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے ہم تمہارے
دوست تھے دینا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی اور تمہارے لئے وہاں ہے
ہر وہ چیز جو چاہے گا تمہارا جی۔ اور تمہارے لئے وہاں ہے ہر وہ چیز جو تم
طلب کروگے، یہ مہمانی ہے اسکی طرف سے جو غفورالر حیم ہے“(Fussilat
(Explained in Detail) 41:30)
لہٰذا مومن بندہ کو چاہیے کہ وہ اپنی مرضی کو اپنے سچے دوست اللہ تعالی ٰکی
مرضی کے آگے فنا کر دے، تاکہ دنیا اور آخرت میں وہ کامیاب ہو سکے کہ.....ع
سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے!!
|