#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ محمد ، اٰیت 10 تا 15
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
افلم
یسیروا فی
الارض فیینظروا
کیف کان عاقبة الذین
من قبلھم دمر اللہ علیھم
وللکٰفرین امثالھا 10 ذٰلک بان
اللہ مولی الذین اٰمنوا وان الکٰفرین
لا مولٰی لھم 11 ان اللہ یدخل الذین اٰمنوا
وعملوا الصٰلحٰت جنٰت تجری من تحتہا الانھٰر
والذین کفروا یتمتعون و یاکلون کما تاکل الانعام
والنار مثوی لھم 12 وکاین من قریة ھی اشد قوة من
قریتک التی اخرجتک اھلکنٰھم فلا ناصرلھم 13 افمن کان
علٰی بینة من ربهٖ کمن زین لهٗ سوء عملهٖ واتبعوا اھواءھم 14
مثل الجنة التی وعد المتقون فیھا انھٰر من ماء غیر اٰسن وانھٰر
من لبن لم یتغیر طعمهٗ وانھٰر من خمر لذة الشٰربین وانھٰر من عسل
مصفٰی ولھم فیھا من کل الثمرٰت ومغفرة من ربھم کمن ھو خالد فی
النار وسقوا ماء حمیما فقطع امعاءھم 15
اے ہمارے رسُول ! کیا اِن اہلِ زمین نے ابھی تک زمین میں چل پھر کر اُن
لوگوں کے اَنجام میں اپنا اَنجام نہیں دیکھا ہے جو حق کے انکار کی پاداش
میں ہلاک ہوۓ ہیں ، کیا اِن لوگوں نے ابھی تک یہ بھی نہیں جانا ہے کہ اللہ
صرف حق کا اقرار کرنے والوں کا مُربی ہے حق کا انکار کرنے والوں کا مُربی
نہیں ہے ، کیا یہ لوگ ابھی تک یہ بات بھی نہیں جان سکے ہیں کہ ماضی میں
ہلاک ہونے والے اُن سرکش اہلِ زمین کی بستیاں حال کے اِن سرکش لوگوں کی اِس
بستی سے بڑی بستیاں تھیں جس بستی سے اِن لوگوں نے آپ کو نکالا ہے اور ماضی
کی اُن ہلاک شدہ بستیوں کے وہ لوگ بھی حال کے اِن لوگوں سے زیادہ سرکش تھے
جن لوگوں نے آپ کو آپ کی بستی سے نکالا ہے اور کیا اِن حق فراموش لوگوں کو
ابھی تک اِس اَمر کا بھی یقین نہیں آیا ہے کہ جو انسان اللہ کی طرف سے حق
کی دلیل لے کر آتا ہے وہ اُن سارے اہلِ زمین کے لیۓ ہدایت کا پیغام بر ہوتا
ہے جو فریبِ نفس میں مُبتلا ہوکر زمین میں چوپائیوں کی طرح رہتے اور کھاتے
پیتے ہیں اور جو حق پرست لوگ حق کے اِس ھادی کی ہدایت کو قبول کر لیتے ہیں
تو اُن کے خیال میں اُن کی وہ نادیدہ خیالی اور مثالی جنت ہوتی ہے جس جنت
کا پانی ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ ہی خوشبُو دار رہتا ہے ، جس جنت کا دُودھ
ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ ذائقے دار رہتا ہے ، جس جنت کے مشروبات ہمیشہ سے
ہمیشہ کے لیۓ لذت دار و بے خمار رہتے ہیں اور جس جنت کی زیرِ زمیں نہریں
ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ اِس طرح رواں رہتی ہیں کہ اُس جنت میں اُس جنت کا ہر
موسم خوش رنگ اَشجار اُگاتا اور خوش ذائقہ اَثمار بناتا رہتا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
ماضی انسان کی جاں بیتی و جہاں بیتی کی وہ علمی و عملی گزر گاہ ہے جس کو
انسان گاہے بگاہے اپنے خیال کے نقشے پر لا کر اُس کو دیکھتا رہتا ہے اور
مُستقبل انسان کے خیال میں آنے والی وہ خیالی جولان گاہ ہے جس کو انسان
گاہے بگاہے وہ اپنی سوچ کے دائرے میں لاکر اُس پر سوچتا رہتا ہے اِس لیۓ
انسان اپنے جس ماضی سے گزر کر اپنے اِس حال میں آیا ہے وہ اپنے اِس حال میں
آکر اپنے اُس ماضی کے مُثبت و مَنفی اعمال کے نتائجِ اعمال کو دیکھ رہا ہے
اور انسان نے اپنے اِس حال سے گزر کر اپنے جس مُستقبل میں جانا ہے وہ اپنے
اِس حال میں اپنے اُس مُستقبل کے سادہ ورق پر اپنے جو مُثبت و مَنفی اعمال
لکھ رہا ہے اُس نے اپنے اُن مُثبت و مَنفی اعمال کے مُثبت و مَنفی نتائج کو
بھی اپنے اُس مُستقبل میں دیکھنا ہے جس مُستقل میں وہ داخل ہو رہا ہے ، یہی
وجہ ہے کہ قُرآنِ کریم نے انسان کو سُورَہِ اٰلِ عمران کی اٰیت 137،
سُورَةُالانعام کی اٰیت 11 ، سُورَةُالنحل کی اٰیت 36 ، سُورَةُالنمل کی
اٰیت 27 ، سُورَةُالعنکبوت کی اٰیت 20 ، سُورَةُالرُوم کی اٰیت 30 اور
سُورَہِ سبا کی اٰیت 18 میں دُنیا میں گُھوم پھر کر دُنیا کے اَحوال کو
دیکھنے پرکھنے کے لیۓ { سیروا فی الارض } کا حُکم دیا ہے تاکہ وہ انسان کے
اُن سابقہ مشاہدات و تجربات سے فائدہ اُٹھاۓ جو اُس کو اقبال و کمال کی طرف
بڑھائیں ، اِدبار و زوال کی طرف نہ لے جائیں اور چونکہ { سار یسیر } کے اِس
مصدر و مادے میں زمین و حیاتِ اہلِ زمین ، زمین و حالاتِ اہلِ زمین ، زمین
و سیاراتِ اہلِ زمیں ، زمین و کمالاتِ اہلِ زمین ، سیرتِ اہلِ زمین و
بصیرتِ اہلِ زمین ، جہاتِ زمین و ہیہاتِ اہلِ زمین اور زمین و اَدیانِ اہلِ
زمین کے وہ سارے مفاہیم شامل ہیں جو اِس مصدر و مادے کے بُنیادی مفاہیم میں
شامل ہیں اِس لیۓ قُرآنِ کریم کے اِس { سیروا فی الارض } سے زمین میں انسان
کا وہ مُجرد چلنا پھرنا مُراد نہیں جو انسان کا معروف چلنا پھرنا ہے بلکہ
اِس سے انسان کا با مقصد چلنا پھرنا اور اُن زمین کی تمام سمتوں میں چلنا
پھرنا مُراد ہے جن کا اِس مصدر و مادے سے سراغ ملتا ہے اور اِس مصدر و مادے
سے زمین کی جن سمتوں میں چلنے پھرنے کا سراغ ملتا ہے اُن میں ساری زمین ،
ساری زمین کے وہ سارے اَطراف اور ساری زمین کے وہ سارے اَفلاک شامل ہیں جو
انسانی نگاہ و خیال میں آتے ہیں ، اِس تفصلی اور تاکیدی حُکم کا مُدعا یہ
ہے کہ انسان جس وقت اللہ تعالٰی کے اِس حُکم پر عمل کرنا چاہے تو اُس وقت
وہ اپنی علمی و فکری اور عقلی و عملی بصیرت سے وہ سارے وسائل بھی پیدا کرے
جو اِس کو زمین و فلک کی اِن وسعتوں میں آنے اور جانے کے قابل بنا سکیں ،
اِس لیۓ قُرآنِ کریم نے انسان کو اِن 7 مقامات پر زمین میں چلنے پھرنے کا
یہ حُکم دینے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے اِس حُکم کے بعد سُورَہِ یوسف
کی اٰیت 109 ، سُورَةُ الحج کی اٰیت 22 سُورَةُالرُوم کی اٰیات 9 ،
سُورَةُالفاطر کی اٰیت 35 ، سُورَةُالغافر کی اٰیت 21 و 82 اور سُورتِ ہٰذا
کی اٰیت 10 سمیت قُرآن کے دیگر 7 مقامات پر { افلم یسیروا / او لم یسیروا }
کی صورت میں یہ سوال بھی کیا ہے کہ انسان نے ابھی تک یہ کام کیوں نہیں کیا
ہے جس کا اِس کو بار بار حُکم دیا گیا ہے اور اِس تاکیدی حکم کے بعد اِس
جواب طلبی میں یہ مقصد بھی بیان کردیا ہے کہ انسان جس قدر جلدی ممکن ہو
اپنے اِس حال میں اپنے اُن مُثبت تخلیقی اعمال میں مصروف ہوجاۓ جو مُثبت و
تخلیقی اعمال اپنے وہ مثبت نتائج پیدا کریں جو مُثبت نتائج انسان کو اُن
تمام مَنفی اعمال سے دُور کردیں جن مَنفی اعمال کے مَنفی نتائج نے سابقہ
اقوام کے مُستقبل کو تباہ کیا ہے لیکن خیال رہے کہ قُرآن نے انسانی ماضی کے
اِس سلسلہِ خیال کو انسانی ماضی کے اُس سلسلہِ خیال سے اخذ کیا ہے جو
سلسلہِ خیال ہمیشہ سے انسان کے خیال میں چلتا چلا آرہا ہے اور ماضی کے اِس
سلسلہِ خیال کے بعد قُرآن نے انسان کے مُستقبل کی جس جنت کا جو اَحوال بیان
کیا ہے وہ اَحوال بھی انسان کے اسی سلسلہِ خیال میں موجُود ہے اور یہ وہی
سلسلہِ خیال ہے جس کے تحت انسان یہ سوچتا رہتا ہے کہ اُس کو جو پانی مُیسر
ہو وہ ایسا بے رنگ و بے بُو اور بے ذائقہ ہو کہ جس میں وہ اپنی مرضی کے رنگ
، اپنی مرضی کی خوشبُو اور اپنی مرضی کے ذائقے بھر کر سکے ، اُس کو پینے کے
لیۓ جو دُودھ حاصل ہو وہ دُودھ بھی ایسا دودھ ہو کہ جس میں موسمی اثرات کی
موسمی تاثیر کوئی خرابی نہ پیدا کر سکے اور اُس کو جو مشروبات ملیں جن
مشروبات کا ذائقہ بھی کبھی خراب نہ ہو اور وہ مشروب پینے کے بعد اُس کو
مسرُور کریں مخمُور نہ کریں ، اٰیاتِ بالا میں انسان کی اُسی خیال کی
ترجمانی کی گئی ہے جو خیال اُس کے شعور میں موجُود ہے تاکہ انسان اپنے خیال
کے مطابق اللہ تعالٰی کی جنت کی اُن نعمتوں کو اپنے فہم کے مطابق سمجھ سکے
جو نعمتیں اِس اٰیت میں بیان کی گئی ہیں کیونکہ اگر جنت کی اُن اَن دیکھی
نعمتوں کو انسان کے اِس خیال میں بسی ہوئے کسی مُختلف خیال میں بیان کیا
جاتا تو اُن نعمتوں کا مفہوم انسان کے سر کے اُوپر سے ہی گزر جاتی اِس لیۓ
اٰیتِ بالا میں جنت کی اُن تمام نعمتوں کو سمجھانے کے لیۓ وہ پیرایہِ اظہار
اختیار کیا گیا ہے جو پیرایہِ اظہار انسان کا اپنا پیراایہِ اظہار ہے اور
انسان کے لیۓ ایک قابلِ فہم پیرایہِ اظہار ہے !!
|