#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ مُحمد ، اٰیت 16 تا 19
فکرِ دین و فہمِ دین اور فروغِ دین !! اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
منھم من
یستمع الیک
حتٰی اذا خرجوا
من عندک قالوا للذین
اوتوا العلم ماذا قال اٰنفا
اولٰئک الذین طبع اللہ علٰی
قلوبھم و اتبعوا اھواءھم 16
والذین اھتدوا زادھم ھدی و اٰتٰھم
تقوٰہم 17 فھل ینظرون الا الساعة ان
تاتیھم بغتة فقد جاء اشراطھا فانٰی لھم
ذکرٰھم 18 فاعلم انهٗ لاالٰه الا اللہ واستغفر
لذنبک وللمؤمنین والمؤمنٰت واللہ یعلم متقلبکم
و مثوٰکم 19
اے ہمارے رسُول ! آپ کے پاس جو لوگ قُرآن سُننے کے لیۓ آتے ہیں اُن میں وہ
لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جو صرف گوش سے سُنتے ہیں ہوش سے نہیں سُنتے ، جب یہ
با گوش و بے ہوش لوگ آپ کی مجلس سے چلے جاتے ہیں تو اہلِ علم سے پوچھتے ہیں
کہ آپ نے اپنی مجلس میں کیا فرمایا ہے اور تُم لوگوں نے کیا سُنا ہے ، یہ
غائب دماغ لوگ اللہ کے وہ دل گرفتہ بندے ہیں جو اپنے خیالات کے ہجُوم میں
دَبے رہتے ہیں جس کی وجہ سے اِن میں وہ فہم و ادراک پیدا نہیں ہوا ہے جو
اُن لوگوں میں پیدا ہوا ہے جنہوں نے قُرآن کو اپنے پُورے گوش و ہوش سے سُنا
ہے ، تو کیا اَب یہ لوگ انقلاب کے اُس شدید جھٹکے سے ہی ہوش میں آئیں گے جس
کے آثار اَن کے سامنے آچکے ہیں لیکن جب وہ انقلاب آۓ گا تو اتنا اَچانک آۓ
گا کہ اُس وقت اِن کے گوش و ہوش سے سُننے کا وقت ہی گزر چکا ہو گا اِس لیۓ
اِس وقت سے اُس وقت تک آپ دین کے اسی بُنیادی اعتقاد کو پیش نظر رکھیں کہ
اللہ ہی وہ مُفرد اِلٰہ ہے جو آپ کا ذہنی بوجھ کم کرے گا اور اللہ ہی وہ
مُفرد اِلٰہ ہے جو اہلِ ایمان کے جُملہ مرد و زن کا ذہنی بوجھ بھی کم کرے
گا کیونکہ اللہ ہی وہ مُفرد اِلٰہ ہے جو اُن سب لوگوں کے اَحوالِ دل کو
جانتا ہے جو آپ کے پاس قُرآن سُننے کے لیۓ آتے ہیں اور جو آپ سے قُرآن سُن
کر واپس جاتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
آفتابِ رسالت طلوع ہونے کے بعد مکے میں ایک جماعت وہ تھی جس میں داخل ہونے
والے سارے کے سارے لوگ پکے مومن تھے اور جس سے خارج رہنے والے سارے کے سارے
لوگ پکے کافر تھے لیکن جب آفتاب رسالت مکے کے بعد مدینے پر طلوع ہوا تو
مدینے میں اِن دو مومن و کافر جماعتوں کے درمیان میں ایک تیسری جماعت بھی
ظاہر ہو گئی جو مومن یا کافر جماعت نہیں تھی بلکہ وہ ایک ایسی منافق جماعت
تھی جو اپنی کسی ایک مصلحت کے تحت اہلِ ایمان کے پاس آجاتی تھی اور اپنی
کسی دُوسری ضرورت کے تحت اہلِ کفر کے ساتھ جاکر مل جاتی تھی لیکن اٰیاتِ
بالا میں ذکر کیۓ گۓ جن لوگوں کو اہلِ روایت نے منافق قرار دیا ہے اٰیات کا
سیاق و سباق نہ صرف اُن کے اِس خیال کی تردید کرتا ہے بلکہ اُن کے اِس خیال
کے خلاف اِس اَمر کی بھی تصدیق کرتا ہے کہ زیرِ نظر اٰیات کے یہ زیرِ بحث
لوگ منافق نہیں تھے بلکہ وہ غائب دماغ لوگ تھے جو قُرآن سُننے کے لیۓ نبی
علیہ السلام کی آواز پر کان تو لگاۓ رکھتے تھے لیکن سماعت کے دوران اپنے
خیالات کے اُس ہجُوم میں دَبے رہتے تھے جو اُن کے کانوں تک پُہنچنے والی
آواز کو اُن کے دل تک نہیں پُہنچنے دیتا تھا ، اگر وہ لوگ منافق ہوتے تو
سماعتِ قُرآن کی اُس مجلس سے باہر جاکر اَز رَہِ تمسخر جو بات کرتے وہ ایک
دُوسرے کے ساتھ کرتے جبکہ قُرآن اُن کے بارے میں یہ خبر دے رہا ہے کہ وہ
قُرآن کی اُس مجلسِ سماعت سے باہر جا کر جن اہلِ علم کے ساتھ بات کرتے تھے
وہ اہلِ کتاب اہلِ علم بھی ہوسکتے تھے اور مُسلم اہلِ علم بھی ہو سکتے تھے
اور اُن کے ساتھ اُن کی بات چیت کا مقصد سُنی ہوئی اٰیات کے ساتھ تمسخر
کرنا نہیں ہو سکتا تھا بلکہ اُن بُھولی ہوئی اٰیات کو اپنے ذہن میں راسخ
کرنا ہی ہو سکتا تھا جن اٰیات کو وہ سُننے کے بعد بُھلا چکے ہوتے تھے ، اس
اَمر کی تصدیق اِس اٰیت کے بعد آنے والی اُس اٰیت کے اُس مضمون سے بھی ہوتی
ہے جس اٰیت کے جس مضمون میں یہ کہا گیا ہے کہ اہلِ ایمان کو ہدایت میں اِن
پر یہ سبقت اِس بنا پر حاصل ہوئی تھی کہ وہ توجہ سے قُرآن سُنتے اور یاد
رکھتے تھے اور اُن کو اہلِ ایمان کے مقابلے میں اِن غائب دماغ لوگوں کو
سبقت اِس لیۓ حاصل نہیں ہوئی تھی کہ وہ قُرآن توجہ سے سُنتے بھی نہیں تھے
اور یاد بھی نہیں رکھتے تھے ، اگر اہلِ روایت کے اِس روایتی خیال کے مطابق
اُن کو منافق مان لیا جاۓ تو اہلِ ایمان کے ساتھ اُن کے اِس تقابل کا مقصد
اور جوازِ مقصد ہی ختم ہو جاتا ہے جو تقابل قُرآن نے کیا ہے ، اَمرِ واقعہ
یہ ہے کہ بولے جانے والے کلام کو سُنتے ہوۓ اور پڑھے جانے والے کلام کو
پڑھتے ہوۓ بُھول جانا ایک عام انسانی عادت ہے کیونکہ سُنتے اور پڑھتے ہوۓ
اکثر لوگ بظاہر سُنے اور لکھے ہوۓ کلام کے ساتھ ہی موجُود ہوتے ہیں لیکن در
حقیقت وہ اپنے خیالات میں مست ہوتے ہیں اور خارجی دُنیا کے ساتھ اُن کا
اتنا ہی موہُوم سا تعلق ہوتا ہے جتنا ایک سوۓ ہوۓ آدمی کا اپنے ارد گرد کے
ماحول کے ساتھ ایک موہُوم سا تعلق ہوتا ہے ، اٰیاتِ بالا کے مضمونِ بالا کا
حقیقی مقصد یہ ہے کہ قُرآن نے انسان کے سامنے جو دین پیش کیا ہے وہ ایک
سنجیدہ حقیقت کا حامل اور ایک سنجیدہ توجہ کا طالب دین ہے جس کا انسان سے
پہلا فکری تقاضا یہ ہے کہ انسان اِس دین کو قبول کرے تو ایک کامل فکری
بیداری کے ساتھ اُس کو قبول کرے اور جب کامل فکری بیداری کے ساتھ قبول کر
لے تو قبول کرنے کے بعد کامل فکری بیداری کے ساتھ اُس کا فہم حاصل کرے اور
جب اِس کا کامل فہم حاصل کر لے تو اُس کو فروغ دینے کے لیۓ دل و جان کی
پُوری توانائی کے ساتھ کمر بستہ ہو جاۓ اور اِس خوش فہمی میں نہ رہے کہ
تکمیلِ تمنا کے لیۓ بڑی عُمر پڑی ہے بلکہ اُس کو جس وقت اور جس عُمر میں
بھی دین کی حقیقت سمجھ آجاۓ تو وہ اُسی عُمر میں اُس دین کے ابلاغ اور اُس
کی تبلیغ میں جُت جاۓ ، گمان غالب یہ ہے کہ قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا میں
انسان کے لیۓ فکرِ دین و فہمِ دین اور فروغِ دین کا یہی اعلٰی اصول بیان
کیا ہے ، جہاں تک اٰیاتِ بالا میں آنے والی معروف قُرآنی اصطلاح { الساعة }
کا تعلق تو اِس سے وہ بڑی انقلابی ساعت بھی مُراد لی جا سکتی ہے جس کا
معروف نام قیامت ہے اور اِس سے مدینے کی زمین پر برپا ہونے والا وہ زمینی
انقلاب بھی مُراد لیا جا سکتاہے جو آہستہ آہستہ مدینے میں پنپ رہا تھا اور
اُس کے نتیجے میں حق کے دشمن بھی اُس زمینِ جنت کو چھوڑ کر اپنی جہنم کی
طرف بڑھ رہے تھے ، مُحوّلہ بالا اٰیات کی آخری اٰیت کا نواں لفظ { ذنب } ہے
جو ضمیر حاضر { ک } کے ساتھ اٰیا ہے اور اہلِ روایت نے علی الاطلاق اِس کا
ترجمہ گناہ کیا ہے اور پھر اِس جاہلانہ ترجمے سے یہ احمقانہ نتیجہ اخذ کیا
ہے کہ اِس اٰیت میں اللہ تعالٰی نے اپنے رسُول کو اپنے گناہوں سے معافی
مانگنے کی ہدایت کی ہے ، اِس سے قبل یہی لفظِ ذنب اسی ضمیر حاضر کے ساتھ
سُورَةُالمؤمن کی اٰیت 55 میں بھی گزر چکا ہے جہاں پر ہم اہلِ روایت کے اِس
جاہلانہ ترجمے اور اِس کے اِس کافرانہ مفہوم کی علم و لُغت کے قوی دلائل کے
ساتھ مُذمت و تردید کر چکے ہیں اور اِس سُورت کی اِس اٰیت کے بعد یہی لفظ
اسی ضمیر حاضر کے ساتھ چونکہ اِس سُورت کے بعد آنے والی سُورت ،
سُورَةُالفتح کی اٰیت 2 میں بھی وارد ہوا ہے اِس لیۓ اِس پر ہم مزید گفتگو
سُورَةُ الفتح کے مُتعلقہ مقام پر کریں گے !!
|