اللہ کے حیلے -- اللہ کے داؤ

واہ بھئی کیا ! بات ہے !! -- آپ رہائش تبدیل کر رہے ہیں - بہت ہی شاندار جگہ ہے - ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہے اور ہاں آپ کو ٹیلی فون بھی تو مل رہا ہے -یہاں‌تو کراچی میں دس دس سال لگ جاتے ہیں ٹیلی فون نہیں ملتا - ماشاء اللہ --چشم بد دور

یہ تھے لوگوں کے ڈائیلاگ جب میں شہر سے اسٹیل ٹاؤن منتقل ہو رہا تھا - زمانہ تھا 1979 کا -اس زمانے میں ٹیلی فون ایسی ہی ایک نایاب شے تھی - دادا محترم ٹیلی فون کی درخواست دیتے تو پوتے کو یک دَہائی اور کئی دُہائیوں کے بعد ملتا - ٹرک آیا - ذرا لیٹ تھا - ٹرک ڈرائیور نے بتایا کہ کسی اور کا سامان بھی پہنچانا تھا - ٹرک میں ایک طرف ایک دو پٹ سن کی بوریاں پہلے سے پڑی ہوئی تھیں - جی ہاں اس زمانے میں سامان لے جانے کے لئے پٹ سن یعنی جوٹ کی بوریاں ہی استعمال ہوتی تھیں - بوری کا وزن ہی سامان کے وزن سے زیادہ ہوتا تھا - اپنا سامان رکھنے کے لئے ایک بوری کو ایک طرف کرنا چاہا تو اس میں سے ایک چوہا نکل کے بھاگا اور ٹرک سے کود گیا - اچھا ہی ہوا کود گیا ورنہ مجھے ہی ٹرک سے کودنا پڑتا -خیر بوریوں کو ایک طرف کیا اور اپنا سامان رکھا اور نئی منزل کی جانب چل پڑے -
تین چار دن بعد کسی چیز کو ڈھونڈنے کی ضرورت پڑی تو سارے صندوقوں کو دیکھ لیا وہ مل کر نہیں دی - دل بڑا پریشان ہوا کہ جانے کہاں چلی گئی - لے کر بھی آیا تھا یا نہیں - سب صندوق تو دیکھ ہی لئے تھے سوائے ایک کے - وہ صندوق اس لئے نہیں کھولا کہ سامان کی منتقلی کے وقت اسے کھولا ہی نہیں تھا - اسی الجھن میں کھڑا تھا کہ وہ صندق جو کھولا نہیں تھا میں سے ایک چوہا نکل کر بھاگا - بعینہ ویسا ہی جیسا تین چار دن پہلے پچھلے مکان کو چھوڑتے وقت دیکھا تھا - ڈرائیور نے بتا یا تھا کہ کسی بیکری والے کا سامان تھا اور وہاں چوہے بہت تھے - خیر یہ چوہا بھی باہر کی طرف بھاگا تھا اس لئے پریشانی نہیں ہوئی کہ گھر میں داخل نہیں ہوا - پھر خیال آیا کہ صندوق کو دیکھ ہی لوں کوئی اور چوہا نہ چھپا ہو - - سوچ کر اس صندوق کو گھر سے باہر میدان میں لے جا کر کھولا اور سامان نکالا تو اس میں کوئی اور چوہا نہیں نکلا لیکن حیرت ہوئی کہ جس چیز کو میں ڈھونڈ رہا تھا وہ اسی میں تھی - گھر میں کسی نے بتایا کہ آپ نے شاید جلدی میں جو صندوق سامنے نظر آیا اس میں یہ چیز ڈال دی تھی اور کسی کو یاد ہیں نہیں تھا - - ہم کبھی بھی اس صندوق کی تلاشی نہیں لیتے اور پریشان ہی رہتے -
اللہ تعالیٰ نے کیسی تد بیر سے گمشدہ چیز دلادی - واہ اللہ تعالیٰ تیری تدبیروں کے - میں نے دعا مانگی اے اللہ تعالیٰ ہم ناقص العقل بندے ہیں تو کسی بھی حربے سے ہماری مدد کر دیا کر تیرےلئے کچھ بھی نا ممکن نہیں‌
---------------------------------------------------------------------------
میرے ایک دوست تھے شفقت شفیق -- اور حقیقت میں اپنے نام کی مانند ہر لحاظ سے شفقت و محبت کا مرقع تھے - انہیں دیکھ کر ایک ٹھنڈک کا احساس ہوتا تھا - غصہ کبھی ان کے پاس نہیں گیا اور نہ ہی وہ غصےکے پاس گئے - غرض ان کی کتاب زندگی کھولیں تو تمام صفحات ملاحت ، ملایمت، نفاست ، مسکراہٹ اور راحت کا احساس لئے ہو ئے - ان کی بیگم بھی شکر و صبر کی پیکر تھیں لیکن ان کا نام شاکرہ یا صابرہ نہیں تھا - گلشن حدید کے مکان میں رہتے تھے - -شفقت شفیق کی ساس صاحبہ دل کی مریضہ ہو گئیں - انہیں گھبراہٹ اٹھتی تو وہ اپنی بیٹی کو یاد کرتیں لیکن بیٹی سے رابطہ ہونا نا ممکن تھا کیوں کہ اس زمانے میں فون اتنے عام نہیں ہوئے تھے اور موبائیل فون کا نام بھی کوئی نہیں جانتا تھا - ماں بیٹی دل مسوس کے رہ جاتیں - شفقت شفیق صاحب بے چین رہتے تھے اور اللہ ہی سے رحمت و برکت مانگتے رہتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہتے تھے کہ اے اللہ میرے عصیاں اتنے ہیں کہ میں تجھ سے ان کی بخشش کی دعا ہی کرتا رہوں تو وقت کم پڑ جائے گا - پھر ایک روز عجب واقعہ ہوا - ان کے شعبے کے سربراہ جو ان ہی کے ہم رتبہ تھے لیکن بس ذرا سا سینئر تھے کو اپنا مکان تبدیل کرکے کہیں جانا پڑا - وہاں پر اسٹیل مل ٹیلی فون کی سہولت میسر نہیں تھی لیکن ان کی بھی مجبوری تھی - جب باس چلے گئے تو شفقت شفیق ہی رہ گئے جنہیں ٹیلی فون ملنا تھا سو ایسا ہی ہوا - شفقت شفیق ملتے تو کہتے "اللہ کے معاملات بھی کیسے ہوتے ہیں - کیسا راستہ میرے لئے بنادیا - کیسا میرے لئے حیلہ ہوا -
---------------------------------------------------------------------

اللہ نے اپنے کرم و مہربانی کے ایسے سلسلے سب کے لئے وا رکھے ہیں ـ سورہ یوسف کی آیت 58 سے 75 تک ایک ایسا ہی واقعہ لکھا ہے
حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے - ان میں سے دو یعنی حضرت یوسف علیہ السلام اور بنیا مین - ایک ماں کے تھے یعنی دو سگے بھائی تھے - باقی دس سوتیلے بھائی تھے - یہ دس سوتیلے بھائی ان دونوں بھائیوں سے حسد کرتے تھے - دس بھائیوں نے سازش کر کے ایک بھائی یعنی حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک کنوئیں میں دھکیل دیا اور جاکر اپنے والد محترم جناب حضرت یعقوب علیہ السلام سے کہہ دیا کہ اسے جنگل کے جانوروں نے کھالیا ہے - لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ نے سلامت رکھنا تھا انہیں کچھ لوگوں نے کنوئیں سے نکال لیا - حالات تبدیل ہوئے - حضرت یوسف علیہ السلام اپنی دانشمندی اور فراست کے سبب مصر کے حکمران کی نظروں میں آگئے اور مصر کے حکمران نے انہیں تقریباً سارے اختیارات سونپ دئے - حضرت یوسف علیہ السلام خوابوں کی تعبیر بتانے کا اچھا علم رکھتے تھے - انہیں پتہ چل گیا تھا کہ ملک مصر میں غلے کا قحط آنے والا ہے - اس کے لئے انہوں نے تمام تیاریاں مکمل کر لی تھیں - چنانچہ جب قحط آیا تو عوام کو زیادہ مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑا -البتہ انہیں اپنے راشن کا کوٹا لینے حضرت یوسف علیہ السلام کے دربار آنا پڑتا تھا اور وہ معلومات کر کے گھر کے افراد کے حساب سے غلہ دے دیا کرتے تھے -

قحط کے اثرات حضرت یعقوب علیہ السلام کے علاقے کنعان میں بھی پڑے چنانچہ دس بھائی بھی غلہ لینے حضرت یوسف علیہ السلام کے دربار پہنچے - حضرت یوسف علیہ السلام نے انہیں پہچان لیا لیکن وہ بھائی پہچان نہ پائے - خیر حضرت یوسف علیہ السلام نے ان سے کہا کہ اگلی مرتبہ اپنے دوسرے بھائی بنیا مین کو بھی لے کر آنا - ورنہ راشن نہیں ملے گا - چنانچہ اگلی مرتبہ دس بھائی بنیا میں کے ہمراہ پہنچے - حضرت یوسف علیہ السلام لوگوں سے الگ الگ انٹرویو کر کے خاندان کے حالات معلوم کیا کرتے تھے -انہوں نے ایسا ہی انٹرویو بنیا مین کا کیا اور حضرت یوسف علیہ السلام نے بنیا مین کو بتایا کہ میں ہی تمہارا گم شدہ بھائی یوسف ہوں - حضرت یوسف علیہ السلام کی دلی تمنا تھی کہ وہ کچھ عرصہ بنیا مین کی معیت میں گزاریں - اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک طریقہ کار بتایا جو ان کے بھائی بنیا مین کو روکنے کا جواز بن سکتا تھا ورنہ رائج الوقت دستور کے مطابق وہ کسی غلہ لینے والے کو نہیں روک سکتے تھے
اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق سب افراد کا راشن ان کے تھیلوں میں ڈالتے جا رہے تھے - تے تھے - جب بنیا مین کی باری آئی تو راشن کے ہمراہ ایک پانی پینے کا پیالہ ( جو راشن نا پنے کے کام بھی آتا تھا ) بنیا میں کے سامان میں ڈالدیا - اور سب کو رخصت کیا - قافلہ روانہ ہو گیا - ابھی کچھ ہی دور پہنچا تھا کہ پیچھے سے حضرت یوسف علیہ السلام کے عملے کے لوگ پہنچے اور کہا کہ ہمارا پیالہ غائب ہے -ہمیں شک ہے کہ وہ تم اٹھا کر لے آئے ہو - تمہاری نیت چوری کی لگتی ہے - چلو واپس چلو اور اپنے سامان کی تلاشی دو - بڑی رد و قدح کے بعد واپسی ہوئی اور سامان کی تلاشی لی گئی - سب کا سامان کھولا گیا - اس پیالے نے بنیا مین کے سامان سے نکنا ہی تھا - وہ نکلا - پھر شور شرابا ہوا اور فیصلہ کیا گیا کہ حضرت بنیا میں کو بطور سزا وہیں یہیں روک لیا جائے
اللہ تعالی نے اس موقع پر قران مجید میں ارشاد فرمایا

كَذٰ لِكَ كِدْ نَا لِیُوْ سُفَؕ

ترجمہ 1: یوں ہم نے یوسف کو داؤ بتلایا -- حوالہ شاہ عبدالقادر صاحب
ترجمہ 2 : اس طرح ہم نے یوسف کی تائید اپنی تدبیر سے کی ------ حوالہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی

قران مجید مطبوعہ سعودی عرب با اہتمام شاہ فہد میں صفحہ 664 پر مزید تشریح ایسے آئی ہے کہ " اس سے یہ بھی نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ کسی صحیح غرض ( کام) کے لئے ایسا طریقہ اختیار کر نا جس کی ظاہری صورت کسی حیلہ ( کید ) کی ہو جائز ہے -بشرط یہ کہ وہ طریقہ کسی نصِ شرعی کے خلاف نہ ہو“
للہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ ہمارے مسائل حل کرتا رہے اور ہمیں اپنی عافیت میں رکھے - ملک میں امن و شانتی کا دور دورہ ہو آمین یا رب العالمین
https://www.quran4u.com/Qadir/Qadir_ar/012Yusuf_ur.htm
Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 355091 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More