#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ مُحمد ، اٰیت 25 تا 31
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ان
الذین
ارتدوا
علٰی ادبارھم
من بعد ما تبین
لھم الھدی الشیطٰن
سول لہم و املیٰ لھم 25
ذٰلک بانہم قالوا للذین کرھوا
ما نزل اللہ سنطیعکم فی بعض
الامر واللہ یعلم اسرارھم 26 فکیف
اذا توفتھم الملٰئکة یضربون وجوھھم و
ادبارھم 27 ذٰلک بانہم ما اسخط اللہ وکرھوا
رضوانهٗ فاحبط اعمالھم 28 ام حسب الذین فی قلو
بھم مرض ان لن یخرج اللہ اضغانھم 29 ولو نشاء لارینٰکھم
فلعرفتھم بسیمٰھم ولتعرفنہم فی لحن القول واللہ یعلم اعمالکم
30 ولنبلونکم نعلم المجٰھدین منکم والصٰبرین ونبلوا اخبارکم 31
اے ہمارے رسُول ! ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ہے کہ جو لوگ
قُرآنی فرمان کے نافرمان ہوتے ہیں اُس کا سبب اُن کا وہ ذاتی یا جماعتی
مفاد ہوتا ہے جو ذاتی یا جماعتی مفاد شیطان سجا سنوار کر اُن کے سامنے پیش
کرتا رہتا ہے جس کی سجی سنوری حالت کو دیکھ کر وہ قُرآن کے روشن راستے کے
بجاۓ شیطان کے اُس تاریک راستے پر چلنے لگتے ہیں جس پر جگہ جگہ قُرآن کے وہ
دشمن کھڑے ہوتے ہیں جو اپنے سازشی منصوبے کے تحت اُن سے کہتے ہیں کہ ہم
قُرآن کے بعض اُمور میں قُرانی اَحکام کی اتباع کرتے ہیں اور بعض اُمور میں
اپنے فیصلے آپ ہی کرلیتے ہیں لیکن یہ لوگ اپنے اسی غیر مُتوازن خیال و عمل
کے باعث انسان کے اجتماعی مفاد کے بجاۓ اپنے ذاتی اور جماعتی مفادات کی
دَلدَل میں دھنستے چلے جاتے ہیں لہٰذا آپ بھی اُن پر یہ اَمر واضح کردیں کہ
اللہ تُمہارے اُن سارے سیاہ منصوبوں سے باخبر ہے جو سیاہ منصوبے تُم اپنے
سیاہ دلوں میں چُھپاۓ پھرتے ہو ، اِس وقت اگرچہ یہ لوگ اپنے اِن سازشی
منصبوں پر بہت خوش ہیں لیکن یہ بھی تو سوچو کہ اُس وقت اِن کا کیا حال ہو
گا جب موت کے ہرکارے اِن کو آگے سے کھینچتے اور پیچھے سے مارتے ہوۓ اِن کے
اَنجامِ بد کی طرف لے جا رہے ہوں گے اور اُس وقت حق کے اِن دشمنوں کا سب
کیا دھرا دھرے کا دھرا رہ جاۓ گا اِس لیۓ اِن کو اِس گمان میں بھی نہیں
رہنا چاہیۓ کہ اللہ اِن کے یہ منصوبے اُن لوگوں پر ظاہر نہیں کرے گا جن کے
خلاف وہ اپنے یہ منصوبے عمل میں لانا چاہتے ہیں ، اگر ہم چاہیں تو اِن کی
ایک ایک چُھپی ہوئی بات ایک ایک کر کے آپ کے سامنے لے آئیں لیکن ہم چاہتے
ہیں کہ آپ اِن کی سازشوں کو اِن کے قول و عمل سے جانیں کیونکہ اگر ہم انسان
پر انسان کے قلبی ارادوں کو کھول دیں گے تو اہلِ جُہد کی وہ جُہدِ حیات رُک
جاۓ گی جس کا جاری رہنا ضروری ہے اور اہلِ صبر کا وہ صبرِ حیات بھی تَھم
جاۓ گا جس کا باقی رہنا ضروری ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا میں پہلا توجہ طلب یا توضیح طلب لفظ پہلی اٰیت کا تیسرا لفظ {
ارتدوا } ہے جس کا مقصدی معنٰی انسان کا وہ قصد و ارادہ ہے جس قصد و ارادے
سے انسان اپنے استعمال میں لائی جانے والی کسی استعمال کی چیز یا اپنے
ایمان و اعتقاد کے طور پر اختیار کیۓ جانے والے کسی علمی و عملی نظریۓ کو
رَد یا قبول کرتا ہے ، خود لفظ رَد بھی اسی قبیل سے ہے اسی لیۓ جو انسان
اپنے جس دین کو اپنے ارادے سے رَر کردیتا ہے وہ خود بھی اپنے اہلِ دین کی
نظر میں رَد ہو جاتا یے ، اُردو زبان میں استعمال ہونے والے الفاظ ارادہ و
ارادت اور تردد و تردید وغیرہ بھی انسان نے اسی مادے سے اخذ کیۓ ہیں اور
مُرتد کی وہ اصطلاح بھی اسی مادے سے نکلی ہے جس پر ہم قُرآن کے مُتعلقہ
مقامات بقدرِ ضروت وہ گفتگو کر چکے ہیں جس کا اِس مقام پر اعادہ کرنے کی
ضرورت نہیں ہے تاہم قُرآن نے پہلی اٰیت کے آخری حصے { سول لہم و املٰی لھم
} میں اُن لوگوں کو سوچنے کی مُہلت دی ہے جنہوں نے اپنے قصد و ارادے سے
اپنے کسی اعتقادی نظریۓ کو ترک اور تبدیل کیا ہے کیونکہ دین کا اجتماعی
مزاج انسانی وجدان کی اصلاح کرنا ہے ، انسانی جان کا تلف کرنا ہر گز نہیں
ہے اِس لیۓ کہ جو انسان اپنے ارادہِ دل سے ایمان قبول کرتا ہے اُس کے شعور
و لا شعور میں ایمان کا وہ نقشِ اَوّل اگرچہ ہمہ وقت موجُود ہی رہتا ہے
لیکن اُس کے داخلی و خارجی حالات کا اُس پر وہ داخلی اور خارجی دباؤ اتنا
شدید ہوتا ہے کہ جو کبھی نہ کبھی اُس کو اُن پُرکشش رنگوں اور روشنیوں کی
طرف اتنی شدت سے دھکیلتا ہے کہ اُس کے داخلی اور خارجی جذبوں پر اُس کے
شعور و لا شعور کی گرفت کم زور یا ختم ہو جاتی ہے اور وہ اُن کم زور لمحوں
میں اُس گُم راہی کے گڑھے میں گر جاتا ہے جس سے گڑھے سے اُس کا نکلنا بھی
لازم ہوتا ہے اور اُس کا نکالا جانا بھی لازم ہوتا ہے ، انسان کے گر کر
اُٹھنے اور اُٹھ کر چلنے کے اسی عمل کا نام وہ توبہ یا رجوع الی الحق ہے جس
عمل کو انسان کی موت کے سوا کوئی دُوسری چیز کبھی بھی نہیں اور کہیں بھی
نہیں روک سکتی ، جو لوگ رجوع الی الحق کر کے حق کی طرف آجاتے ہیں تو اُن کو
قبول کیا جاتا ہے لیکن جو لوگ آخری وقت تک گُم راہی کے اُسی مُتعفن گڑھے
میں پڑے رہتے ہیں اور اُسی مُتعفن گڑھے میں اُن کی موت آتی ہے تو اٰیاتِ
بالا کی تیسری اٰیت کے مضمون کے مطابق اُس وقت موت کے جو ہر کارے اُن کے
پاس آتے ہیں وہ اُن کو آگے سے کھینچتے اور پیچھے سے مارتے ہوۓ حسابِ بندگی
کی منزل کی طرف لے جاتے ہیں کیونکہ اُس وقت اُن کے رجوع الحق کی مُہلت و
مُدت ختم ہو چکی ہوتی ہے اور اُن کے سامنے حسابِ بندگی کی وہ آخری سرحد
آچکی ہوتی ہے جس آخری سر حد کے بعد وہ دُنیا شروع ہو جاتی ہے جس دُنیا میں
عمل کا کوئی موقع نہیں ہوتا صرف جوابِ عمل ہی کا ایک مُشکل مرحلہ ہوتا ہے ،
اٰیاتِ بالا کے نصف اَوّل کے بعد اِن اٰیات کے نصف آخر میں انسانی نفسیات
کے اِس حساس پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ انسان جب تک بقیدِ حیات رہتا ہے
تب تک وہ اپنی فطرت کے اِس فطری تجسس میں مُبتلا رہتا ہے کہ اُس کا دوست
اُس کے بارے میں کیا سوچ رہا ہے اور اُس کا دشمن اُس کے خلاف کیا منصوبے
بنا رہا ہے اور خاص طور پر جب کوئی انسان اپنے دشمنوں کے درمیان گھرا ہوا
ہوتا ہے تو اُس کا یہ فطری تجسس اپنے عروج پر ہوتا ہے اور یہی وہ فطری تجسس
تھا جو مدینے کی سرزمین پر دشمنوں کے درمیان گھرے ہوۓ اُن اہلِ ایمان کے
دلوں میں بھی پیدا ہوتا رہتا تھا جو اُس وقت بہت سے دیدہ و نادیدہ دشمنوں
کے درمیان گھرے ہوۓ تھے اِس لیۓ اللہ تعالٰی نے اُن کی تسلّی کے لیۓ اپنے
رسُول علیہ السلام کو بتایا کہ انسانی خیالات کا یہ سمندر خالق اور مخلوق
کے درمیان وہ راز ہے جس کے مد و جزر کو صرف خالق ہی جانتا ہے مخلوق کا کوئی
فرد ہر گز نہیں جانتا لیکن اگر ہم چاہیں تو دشمن کا ایک ایک ارادہ و عمل
اُس کے دل سے نکال کر آپ کی نظر کے سامنے لے آئیں لیکن ہم ایسا اِس لیۓ
نہیں کریں گے کہ اِس سے ہمارا وہ قانُونِ راز داری ختم ہو جاۓ گا جو قانونِ
راز داری خالق اور اُس کی مخلوق کے درمیان ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ جاری ہے
اِس لیۓ آپ دشمن کے قول و عمل کو پرکھیں اور اپنی فراست و بصیرت سے اِس بات
کا اندازہ لگائیں کہ آپ کا وہ دشمن کس وقت اپنی زبان سے کیا کہتا ہے اور
اپنے عمل سے کیا ظاہر کرتا ہے کیونکہ انسان کے لیۓ اِس دُنیا میں انسان کے
اَچھے یا بُرے خیالات کو جاننے کا یہی ایک راستہ ہے جو اُس کے لیۓ اتنا ہی
روشن کیا جاتاہے جتنی اُس کی عقل و بصیرت میں قُدرت کی دی ہوئی ایک قُدرتی
روشنی ہوتی ہے اور اُن انسانوں میں یہ روشنی بہر طور بڑھتی رہتی ہے جو
انسان اپنے ذاتی و جماعتی مفادات کے بارے میں سوچنے کے بجاۓ انسان اور
انسانیت کے اجتماعی مفادات کے بارے میں سوچتے ہیں !!
|