قُرآن کا فرمانِ واقع اور فرمانِ متوقع

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ مُحمد ، اٰیت 20 تا 24 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ویقول
الذین اٰمنوا لو
لا نزلت سورة فاذا
انزلت سورة محکمة و
ذکر فیھا القتال رایت الذین
فی قلوبھم مرض ینظرون الیک
نظر المغشی علیه من الموت فاولٰی
لھم 20 طاعة وقول معروف فاذا عزم
الامر فلو صدقوا اللہ لکان خیر لھم 21 فھل
عسیتم ان تولیتم ان تفسدوا و تقطعوا ارحامکم
22 اولٰئک الذین لعنھم اللہ فاصمھم واعمٰی ابصارھم
23 افلا یتدبرون القراٰن ام علٰی قلوب اقفالھا 24
اے ہمارے رسُول ! اہلِ ایمان میں سے کُچھ اہلِ ایمان چاہیں گے کہ اِس وقت اُن کے لیۓ راز داری کے ساتھ کوئی ایسا محفوظ حُکم نازل ہوجاۓ کہ اہلِ ایمان کو اہلِ کفر کے ساتھ مُسلح جنگ کی اجازت مل جاۓ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر اِس وقت واقعی اہلِ ایمان کو مُسلح جنگ کی اجازت دے دی جاۓ تو آپ دیکھیں گے کہ کم زور دل لوگوں پر مدہوشی کی وہی کیفیت طاری ہو جاۓ گی جو مرنے والے انسان پر مرنے سے پہلے طاری ہو جاتی ہے اِس لیۓ اِن کے لیۓ مناسب یہی ہے کہ اِن کے لیۓ جس وقت اللہ کا جو حُکم آۓ اُسی حُکم پر عمل کیا جاۓ ، اَمن کا سچا فرمان آنا اور اَمن کے سچے فرمان کا بجا لانا ہی بندگی کی رُوح ہے ، اہلِ ایمان اِس وقت عملی تربیت کے اُس ابتدائی مرحلے سے گزر رہے ہیں کہ اگر اِس وقت اُن کو جنگ اختیار دے دیا جاۓ تو اِس وقت اُن کو دیا گیا جنگ کا وہ اختیارِ زمین میں اَمن کے بجاۓ بد امنی کا مُوجب بن جاۓ گا جس سے اُن کے وہ خونیں اور انسانی رشتے مُنقطع ہو جائیں گے جن رشتوں کا مُنقطع ہونا روا نہیں ہے اور جو لوگ اندھے بہرے اور گونگے بن کر اِن انسانی رشتوں کو پامال کریں گے وہ اللہ کی طرف سے دُھتکار پِھٹکار دیۓ جائیں گے کیونکہ انقطاعِ اَمن کا پہلا قدم رشتوں کا انقطاع ہے اِس لیۓ کوئی وجہ نہیں ہے کہ اہلِ ایمان ہمارے اِس فرمان کے بعد بھی اِس پڑھی جانے والی کتاب کو نہ پڑھیں اور کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہمارے اِس فرمان کے بعد بھی اِن کے دلوں پر تالے پڑے رہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کے جلیل مقاصد کو اگر قلیل الفاظ میں قابلِ فہم بنانے کی اپنی سی ایک کوشش کی جاۓ تو اٰیاتِ بالا میں فہم کی پہلی کلید وہ لفظِ { سُورة } ہے جس سے عُلماۓ تفسیر نے بجا طور پر وہ خاص محفوظ قلعہ مُراد لیا ہے جس محفوظ قلعے کے محفوظ احاطے میں اللہ تعالٰی نے قُرآنی اٰیات کو محفوظ کیا ہے لیکن اٰیاتِ بالا کے زیرِ نظر محلِ وقوع کے اعتبار سے اِس قلعے سے مُراد وہی معروفِ عام قلعہ ہے جس میں ایک انسانی جماعت محفوظ ہو کر کسی دُوسری انسانی جماعت کے خلاف اپنی دفاعی جنگ لَڑتی ہے ، اٰیاتِ بالا کے فہم کی دُوسری کلید اِن اٰیات میں آنے والا لفظِ { قُرآن } ہے جو اُس کتاب کا ایک معروفِ عام نام ہے جو کتاب سیدنا مُحمد علیہ السلام پر نازل ہوئی ہے اور اِس قُرآن کا معنٰی پڑھا جانے والا وہ رہنما کلام ہے جس رہنما کلام سے رہنمائی لینے کے لیۓ انسان اُس کلام کی ہدایات کے عین مطابق اُس کے پیچھے پیچھے چلتا ہے تاکہ قُرآن کے مقرر کیۓ ہوۓ صحیح راستے سے بہٹک کر وہ کسی غلط راستے کی طرف نہ نکل جاۓ لیکن اہلِ روایت نے چونکہ اِس سُورت کا ایک نام { سُورةُالقتال } رکھا ہوا ہے اِس لیۓ اہلِ روایت نے اپنی عام روایت کے مطابق اِس سُورت کی اِن اٰیات میں بھی ایسے ایسے گُل کھلاۓ ہیں کہ بعد کے روشن خیال اہلِ علم نے بھی اُن ہی کے تتبع میں عافیت جانی ہے چناچہ اٰیاتِ بالا کی سب سے پہلی اٰیت کا مولانا مودودی مرحوم نے یہ ترجمہ کیا ہے کہ { جو لوگ ایمان لاۓ ہیں وہ کہہ رہے تھے کہ کوئی سُورت کیوں نہیں نازل کی جاتی { جس میں جنگ کا حُکم دیا جاۓ } مگر ایک مُحکم سُورت نازل کر دی گئی جس میں جنگ کا ذکر تھا تو تم نے دیکھا کہ جن کے دلوں میں بیماری تھی وہ تُمہاری طرف اِس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے کسی پر موت چھاگئی ہو } اِس ترجمے میں لفظی تضاد تو یہ ہے کہ جس سورت کا ذکر کیا گیا ہے وہ ماضی کے حوالے سے کیا گیا ہے لیکن اُس سورت کے نزول کا جو رَدِ عمل بیان کیا گیا ہے وہ زمانہِ حال کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے حالانکہ اِس سُورت کی اٰیت 13 اِس سُورت کی جو اندرونی شہادت ہے وہ اِس اَمر کا ناقابلِ تردید ثبوت فراہم کرتی ہے کہ اِس سُورت میں سیدنا مُحمد علیہ السلام کے مکے سے ہجرت کے بعد آپ کی مدنی زندگی کے وہ ابتدائی حالات بیان کیۓ گۓ ہیں جن حالات میں اہلِ ایمان کے پاس کسی جارحانہ جنگ کے وہ مناسب وسائل ہی موجُود نہیں تھے کہ جن کی بناپر وہ کسی عملی جنگ کی اجازت طلب کرتے اور اِس اَمر کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اِس سے قبل نبی علیہ السلام پر جنگ کی اجازت کے بارے میں کوئی سُورت نازل ہوئی تھی اور اِس اَمر کا بھی کوئی عقلی و مَنطقی جواز نہیں ہے کہ اگر اِس سے پہلے جنگ کی اجازت کے بارے میں کوئی سُورت نازل ہو چکی ہوتی تو اہلِ ایمان جنگ کی وہ اجازت طلب کرتے جو اجازت اُن کے اُس مطالبے سے پہلے ہی اُن کو دی جا چکی تھی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر اِس سے پہلے واقعی جنگ کی اجازت کے بارے میں کوئی سُورت نازل ہوئی ہوتی تو وہ آج بھی قُرآن کے ان اوراق میں موجُود ہوتی اِس لیۓ یہ سوال ایک قُدرتی سوال ہے کہ اگر اہلِ ایمان کے اِس مطالبے سے پہلے کوئی سُورت موجُود ہی نہیں تھی تو پھر اہلِ روایت کے اِن ترجموں میں لاۓ گۓ اُس تھا اور تھی کا کیا مقصد یا کیا جواز ہے جو اِن ترجموں میں موجُود ہے ، اِن ترجموں کے اِس لفظی تضاد کے بعد اِن کا علمی تضاد یہ ہے کہ اہلِ روایت نے قُرآن کے فرمانِ واقع اور قُرآن کے فرمانِ مُتوقع کے درمیان کوئی فرق قائم نہیں کیا جس کی ایک مثال اٰیاتِ بالا کی آخری اٰیت { افلا یتدبرون القران } ہے جس کا مضمون سُورَةُالنسا کی اٰیت 82 میں صیغہِ ماضی کے ساتھ اُس اَمرِ واقعہ کے طور پر آیا ہے جو اَمرِ واقعہ بالفعل واقع ہو چکا ہے اور جس کی دُوسری مثال اِس سُورت کی اِس اٰیت میں صیغہِ مُستقبل کے ساتھ اُس اَمرِ متوقع کے طور پر آیا ہے جس کی ایک توقع ہے اور اگر وہ مُتوقع واقعہ اِس توقع کے عیم مطابق واقع ہو جاۓ تو اُس سے نبرد آزما ہونے کا وہ طریقہ تلاش کیا جاۓ جو اُس واقعے کے اثرات سے بچنے میں معاونِ کار ہو ، بہر کیف اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا میں اِس قسم کے کسی مُتوقع واقعے کا جو سبب بیان کیا گیا ہے وہ سبب یہ ہے کہ انسانی ہلاکت و بربادی کا یہ متوقع واقعہ یا تو اُس قوم کے ساتھ پیش آتا ہے جس قوم کے پاس اللہ تعالٰی کی یہ تنزیل آتی ہے لیکن وہ قوم اُس تنزیل کی سماعت سے مُسلسل اعراض کرتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ اُس قوم کا دل اُس تنزیل کو جذب کرنے کے بجاۓ مُقفل ہوجاتا ہے اور یا پھر اُس قوم کے ساتھ پیش آتا ہے جو قوم اِس تنزیل کا تنزیل ہونا تسلیم کر لیتہ ہے مگر وہ اِس میں تدبر نہ کرتی اور اپنے اسی عدمِ تدبر کی بنا پر ہلاک اور برباد ہوجاتی ہے لیکن یہ اَمر بھی خیال میں رہے کہ اِس تنزیل میں تدبر سے مُراد وہ عام عقلی شعور نہیں ہے جس شعور کا ہر ذی شعور عادتاً مظاہرہ کرتا رہتا ہے بلکہ اِس تدبر سے مُراد انسان کا وہ عملی شعور ہے جس کے لیۓ ہر ذی شعور ارادتاً وہ عملی تد بیر کرتا ہے جس عملی تدبیر سے اُس قوم کی عملی و فکری حیات میں وہ مُثبت نتائج رُونما ہوتے چلے جائیں جو اُس کی اجتماعی حیات کو ایک با مقصد حیات بنا دیں ، مقصد و مَنشا کے اعتبار سے یہ اُس دور کے اُن ہی غائب دماغ اور غیر معیاری انسانوں کے مُنجمد حالات کا وہ عمومی اَحوال ہے جو اِن اٰیات سے پہلی اٰیات میں بھی بیان ہو چکا ہے اور موجُود اٰیات میں تاکیدِ مُکرر کے طور پر بیان ہوا ہے لیکن عُلماۓ روایت و تفسیر چونکہ اِس طرح کے ہر مقام پر اپنے منافقانہ خیال و عمل سے اپنی وہ غیر معیاری کہانیاں تلاشنے اور تراشنے میں لگے رہتے ہیں جن کہانیوں سے وہ اَصحابِ محمد علیہ السلام پر نفاق کا بُہتان عائد کرکے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کر سکیں حالانکہ قُرآن جب اور جہاں مُطلقاً اہلِ ایمان کا ذکر کرتا ہے تو اُس ذکر میں ہر وہ مومن شامل ہوتا ہے جس کے پاس کسی بھی ذریعے سے ایمان کی روشنی پُہنچی ہے اور اُس نے وہ روشنی قبول کی ہے اِس سے قطع نظر کہ اُس کی کتنی دینی و رُوحانی تربیت ہوئی ہے لیکن اہلِ روایت جب اُس زمانے کے کسی غیر معیاری واقعے کا انتخاب کرتے ہیں تو اُس کا انتساب اُن اَصحابِ مُحمد علیہ السلام کی طرف کرتے ہیں جن کی دینی و رُوحانی تربیت سیدنا مُحمد علیہ السلام نے بذاتِ خود کی ہوتی ہے اور اِس سے اُن کا مقصد اَصحابِ محمد علیہ السلام کے مومنانہ کردار و عمل پر اپنی منافقانہ حرف گیری کرنا ہوتا ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 559673 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More