مجھے سوتیلے لفظ سے ہی نفرت ہے۔۔۔ شنیرا نے خود پر سے “ سوتیلی ماں “ کا ٹیگ کیسے ہٹایا؟

image
 
شنیرا اکرم کو پاکستان کی قومی بھابی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ جس دن سے وہ اسٹار کرکٹر اور کمنٹیٹر وسیم اکرم سے شادی کر کے پاکستان آئی ہیں لوگوں نے انہیں پیار اور عزت دی۔ انھوں نے پاکستان کو کھلے دل سے قبول کیا ہے اور وہ ملک کی بہتری کے لیے کام بھی کر رہی ہیں۔
 
شنیرا اکرم آسٹریلوی نژاد ہیں یقیناً ان کو شادی کے بعد اپنی نئی زندگی میں بہت سی تبدیلیاں کرنی پڑیں۔ آسٹریلیا دنیا کا ایک کونا تھا اور پاکستان دنیا کے مرکز میں ہے جہاں زمین سے لے کر لوگوں تک ہر چیز میں بہت ڈائیورسٹی ہے۔ انھیں ایک بہت ہی مختلف ملک میں آنا تھا اور بہت مختلف ماحول اور ثقافت کو اپنانا تھا۔ شنیرا اکرم نے وسیم اکرم سے شادی کرنے سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا۔ جب شنیرا سے ان کی زندگی میں اتنی بڑی تبدیلی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کچھ دلچسپ انکشافات کیے۔
 
انھوں نے کہا کہ اسلام پہلا مذہب ہے جسے انھوں نے قبول کیا کیونکہ وہ اسلام سے پہلے کسی مذہب کی پیروی نہیں کرتی تھیں۔ اسلام قبول کرنے کے بعد سے وہ اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ سیکھ رہی ہیں۔ یہ ان کے لیے ایک سفر ہے اور وہ سوچتی ہیں کہ مذہب نے اسے پایا ہے۔ وہ ایسے مراحل سے گزر رہی ہیں جہاں وہ ہر روز کچھ نیا سیکھتی ہیں اور بہت دل سے سیکھتی ہیں ۔ ایک کوئی روحانی طاقت ہے جو حالات کے مطابق ڈھال لیتی ہے ۔
 
image
 
وسیم اکرم سے شادی کے بعد شنیرا پاکستان شفٹ ہوگئیں۔ شنیرا تین بچوں کی ماں ہیں، بیٹے اکبر اور تیمور اکرم اور بیٹی عائلہ اکرم۔ اکبر اور تیمور وسیم کی پہلی بیوی سے ہیں اور جب وہ ان کی زندگی میں آئیں تو تیمور13 اور اکبر 9 سال کی عمروں کے ہو چکے تھے جو یقیناً مشکل عمریں ہیں ۔ سگی ماؤں کو اس عمر کے بچوں کو درپیش مسائل کے بارے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ایک سوتیلی ماں کے لئے اپنے آپ کو منوانا کوئی آسان بات تو نہیں۔
 
شنیرا نے ایک میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے تجربات شیئر کئے کہ انہوں نے سوتیلی ماں بننے کے بعد کن مشکلات کا سامنا کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ اکبر اور تیمور نے دراصل ان کی نئی زندگی شروع کرنے میں بہت مدد کی۔ پاکستان ایک نئی جگہ، ایک نئی ثقافت اور ایک نیا نقطہ نظر تھا لیکن اپنے بیٹوں کی دیکھ بھال نے اسے یہ سوچنے کا وقت ہی نہ دیا ان کا پہلا چیلنج تو ان بچوں سے دوستی کرنا تھی وہ ان کے کام خود کرنا چاہتی تھیں- یہی وجہ ہے کہ بچے ان کے دوستانہ رویے کی وجہ سے انھیں ان کے نام سے پکارتے تھے۔ جب وہ پاکستان آئیں تو 2011-2012 میں حالات بہت پرامن نہیں تھے۔شنیرا نے وضاحت کی کہ "سوتیلی ماں" کا ٹیگ ایسی چیز ہے جسے وہ پسند نہیں کرتی ہیں۔ وہ صرف ایک ماں ہے۔ انھیں ان خواتین پر حیرت ہے جو پچھلے رشتے سے مرد کے بچوں کے ساتھ بدتمیزی کرتی ہیں۔ "کوئی چھوٹے بچوں سے نفرت کیسے کر سکتا ہے" اکبر اور تیمور اب بڑے ہو چکے ہیں لیکن وہ اب بھی کبھی کبھار ان کے ساتھ بچوں جیسا سلوک کرتی ہے۔
 
وہ کہتی ہیں کہ ان کی محبت کی شادی تھی اور محبت آپ سے سب کچھ کروا لیتی ہے۔ انھیں بہت اچھا لگا کہ بغیر کسی محنت کے وہ دو بچوں کی ماں بن چکی تھیں۔ بچوں کے قریب ہونے کے لئے انکی ہر جائز اور ناجائز باتوں کو ماننا پڑتا تھا کیونکہ وہ بچوں کی دوست بننا چاہتی تھیں۔ اپنے بیٹوں سے وہ ان کی ماں کے بارے میں اکثر بات کرتی ہیں بلکہ انھوں نے ہما وسیم ( پہلی بیوی) کی تصویریں اپنے گھر میں لگائی ہوئی ہیں۔ اور بچوں کی ماں کے ہر اہم دن مثلًا سالگرہ اور برسی و غیرہ مناتے ہیں۔ وسیم کی پہلی بیوی کے چلے جانے کا ایک انجانہ خوف انکے اندر تھا کہ انھوں نے شادی کے بعد سے اپنے آنے والے بچے کے لئے ای میلز لکھنی شروع کر دیں تاکہ وہ اگر دنیا میں نہ ہوں تو ان کی ای میلز بچے کے لئے ہوں ۔ یہ ان کی ایک بہت مختلف سوچ تھی جو کوئی عام انسان نہیں سمجھ سکتا ۔ ان کی یہ عادت آج بھی اپنی بیٹی عائلہ کے لئے جاری ہے۔ عائلہ ان کی زندگی میں شادی کے ایک سال بعد ہی آگئی تھیں اور وہ سب کی لاڈلی ہیں۔ بھائیوں نے عائلہ کی دیکھا دیکھی شنیرا کو مم پکارنا شروع کر دیا جو انھیں بہت اچھا لگا وہ کوئی بھی کام ان بچوں سے زبردستی کروانے کی قائل نہیں ہیں۔
 
image
 
ایک سوال کے جواب میں کے ایک سوتیلی ماں کو کیا کرنا چاہئے تو وہ کہتی ہیں یہ بالکل مشکل نہیں ہے سب سے بڑی بات آپ کو بغیر کسی تکلیف کے بچے مل جاتے ہیں جو یقیناً آپ کے شوہر کا حصہ ہیں جس سے آپ محبت کرتے ہیں۔ ان کو اپنا خاندان سمجھا جائے بے شک یہ آسان نہیں لیکن جب آپ اپنے چیلنج میں کامیاب ہوں گے تو آپ کو بہت خوشی ہو گی۔ ان کے کیس میں وسیم اور بچوں دونوں نے ان کا بہت بھر پور ساتھ دیا جس کے لئے وہ ان لوگوں کی بہت شکر گزار ہیں۔
 
پاکستان کو چار جملوں میں انھوں نے کچھ اس طرح بیان کیا کہ پہلے نمبر پر کبھی وقت پر نہ پہنچیں کیونکہ وہ اپنے ملک کی عادت کے مطابق وقت سے 15 منٹس پہلے پہنچنے کی عادی تھیں لیکن اب انھوں نے پاکستانیوں کی یہ عادت سیکھ لی ہے۔ دوسرے نمبر پر پاکستان کی جغرافیہ انھیں بہت پسند ہے نارتھ سے لے کر ساؤتھ تک آپ کو بہت مختلف مناظر، کلچراور لوگ ملیں گے۔ تیسرے نمبر پر یہاں لوگ بہت ملنسار ہیں کسی سے ملنے یا کچھ بھی کرنے کے لئے یہاں پروگرام نہیں بنانا ہوتا بس آپ سوچتے ہیں اور کر لیتے ہیں- آپ کو کوئی بھی کام ویک اینڈ کے لئے نہیں چھوڑنا ہوتا۔ چوتھے نمبر پر لوگ ہر وقت مدد کے لئے حاضر ہوتے ہیں ان کے پاکستانی دوستوں نے شادی کے بعد ہر معاملے میں ان کی رہنمائی کی ۔ لوگ یہاں چیرٹی بہت کرتے ہیں۔ وہ خود یہاں سوشل ورک کر رہی ہیں اور این جی اوز کے لئے کام کر رہی ہیں۔
 
غرض وہ ایک اچھے دل کی مالک انتہائی سمجھدار عورت ہیں جنھوں نے جان ودل سے اپنے شوہر کو قبول کیا ہے بے شک ہنستی مسکراتی عورت کو بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہوگا- لیکن ان کے ایک اچھا اور حساس انسان ہونے نے ان تما م تفریقات کو مٹا دیا ۔ وہ ایک الگ دنیا سے آئی تھیں !
YOU MAY ALSO LIKE: