بزم اقبال کا ذکر اقبال

ریاض احمد چوھدری سیکر ٹیری؍ ڈائریکٹر’’ بزم اقبال لاہور‘‘کا کمال ہے کہ اس نے جریدہ’’ جوہر‘‘ جو جامع ملیہ اسلامہ دہلی کا رسالہ ہے، کے پرانے مضامین ڈھونڈ کر اسی سال2022ء میں اسے کتابی شکل دی اور ہمارے سامنے’’ جریدہ جوہر میں ذکر اقبال‘‘ کی شکل میں موجود ہے۔’’جوہر ‘‘جامع ملیہ اسلامیہ کا وہ مجلہ ہے جس نے 1938ء میں علامہ ڈاکٹر سر شیخ محمد اقبالؒ کی وفات کے چند ماہ بعد اقبال ایڈیشن شائع کیا۔ایک مدت سے یہ ایڈیشن کم یاب ،بلکہ نایاب تھا۔ اس کی اشاعت کر کے اسے اقبالیات کے طلبہ کے لیے عام کیاگیا۔اﷲ اسے شرف قبولیت عطا فرمائے آمین۔

اس کتاب میں جامع ملیہ اسلامیہ کے متعلق لکھا ہے کہ شیخ الہند مولانا محمودالحسنؒ نے علی گڑھ کی جامع مسجد میں ’’جامع ملیہ اسلامیہ‘‘ کا افتتاح کیا تھا۔حکیم اجمل خان اسے علی گڑھ سے دہلی لے گئے۔ اس کے سرپرست ڈاکٹر مختار انصاری تھے، جو ریڈ کراس کے کارکنوں کے ساتھ ترکی گئے تھے کہ مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھیں اور مریضوں کی مسیحائی کریں۔کچھ لوگوں نے اس کے لیے زندگیاں وقف کی۔ ان میں ڈاکٹر ذاکر حسین،ڈاکٹر عابد حسین،پروفیسر مجیب،خواجہ عبدالحئی فاروقی اور بہت سارے دوسرے ۔جامع ملیہ اسلامیہ اب بھی مسلمانوں کی خدمت کر رہا ہے۔ اس جامع میں ترکی کی خالدہ ادیب خانم کے لیکچر کی علامہ اقبال نے صدارت کی۔اسی جامع کے ایک فرزند سید نذیر نیازی نے علامہ اقبالؒ کی انگریزی کی کتاب’’ ریکنسٹریکشن آف ریلیجیس تھاٹ ان اسلام‘‘((reconstruction of religious thoghts in islam کا اُردو ترجمہ کیا۔ 1938ء میں علامہ اقبالؒ کی وفات کے بعد جامع ملیہ اسلامیہ کے مجلہ ’’جوہر‘‘ کاخصوصی یادگار شمارہ بیاد علامہ اقبالؒ شائع کیا۔ اس میں جامع کے اساتذہ طلبہ اور ہندوستان کے بڑے لوگوں نے مضامین لکھے۔ ان میں سید سلمان ندوی، ابو الاعلی مودودی،مولانا سعید اکبر آبادی، پرفیسر رشید احمد صدیقی وغیرہ شامل تھے۔ سلیمان ندوی کو علامہ اقبال استاد الکل کہتے تھے۔ سید مودودی کو دین کی خدمت کے لیے حیدر آباد سے پنجاب بلایا۔ اس مجلہ کو پیغام بھیجتے ہوئے،ڈاکٹر ذاکر حسین فرماتے ہیں کہ علامہ اقبال کا کلام ایسا ہے کہ ہمارے نوجوان اسے سمجھ لیں اور اس پر کاربند ہوں تو ہماری ملت کے دن پھر جائیں۔ علامہ اقبال کے پیغام سے ہمارے ملت کی رُت بدلنے کو ہے۔ڈاکٹر سر رابندرناتھ ٹیگور فرماتے ہیں کہ ہندوستان کا رتبہ دنیا کی نگاہ میں اتنا کم مایہ ہے کہ ہم کسی حالت میں ایسے شاعر کی کمی برداشت نہیں کرسکتے جن کے کلام نے عالم گیر مقبولیت حاصل کر لی۔ڈاکٹر سر اکبر حیدری کہتے ہیں کہ اقبال نے ساری دنیا کے لیے نیا پیغام دیا ہے۔ اس کی شاعری بنی نوع انسان کے لیے نوید و کامیابی ہے۔مجھے یقین کہ ’’جوہر‘‘ کا یہ مطبوعہ نمبر ہر طالب علم کے لیے باعث فخر ہو گا اور پیام نموداری اس میں مضمر ہے اس پر ہر نوجوان گامزن ہو گا۔سر تیج بہادر سپرو کہتے ہیں کہ اقبال شاعروں سے ممتاز ہیں۔ وہ کسی تلون مزاج معشوق کے ناز و انداز نہیں بلکہ فطرت انسانی کے اعلیٰ برتر لطیف جذبات و احساسات کے ترجمان تھے۔ڈاکٹر مولوی عبدالحق انجمن ترقی اُردو کہتے ہیں کہ اقبال نے مولانا حالی کی طرح قوم ملک کے جگانے اور رہنمائی کاکام کیا۔ یہی وجہ ہے کہ سارے ملک پر چھا گیا۔ اس نے خود اعتمادی سکھائی توہمات کو توڑا جو گھن کی طرح ہماری قوم کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی۔مولانا عبدلماجد دریا آبادی کہتے ہیں کہ ’’جوہر‘‘محمد علی جوہر کی یاد گار میں قائم ہے،اقبال نمبر نکالنے کا حق اس سے بڑھ کر کس کو حاصل ہے؟ایک کی سیاست دوسرے کی شاعری دونوں اسی ایک رنگ سے رنگین ہے فرق صرف۔۔۔ کہ ایک کلام میں حکیمانہ ذوق، دوسرے کے قلم و زبان میں جوش طوفان دونوں دنیا میں جیے تو اسلام کی توحید کا کلمہ پڑھتے ہوئے دونوں دنیا سے اُٹھے تو( آبروے مازنامِ مصطفےٰ است) کا وظیفہ جپتے ہوئے۔ ڈاکٹر بابو راجندر پرشاد کہتے ہیں کہ ڈاکٹر سر اقبال نے اپنے اشعار سے ہندوستان میں نئی روح پھونک دی۔سر اقبال کے اشعار ہندوستان کو جگاتے رہیں گے۔’’جوہر‘‘ کے مدیر کہتے ہیں کہ انھوں نے جامع کو اپنا سمجھا اس کی نشاۃ ثانیہ میں حصہ لیا۔ وہ بار بار جامع آئے۔ ہماری انجم کی درخواست پر اعزازی رکنیت حاصل کی۔ اقبال کو سمجھنے کا نتیجہ ہے یہ ’’جوہر‘‘سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ کہ اقبال کے والد نے انھیں بتایا کہ ’’ کہ جب قرآن تم پڑھو تو یہ سمجھو کہ یہ قرآن تم ہی پر اترا ہے، یعنی اﷲ تعالیٰ خود تم سے ہم کلام ہے‘‘ محمد حسین سید لکھتے ہیں کہ بلند پایا ہستی ہمارے لیے مایا صد ناز تھی۔ ہم کو ان کی صحبتوں اور مجلسوں سے لطف حاصل تھا۔ڈاکٹر عابد حسین’’ عقل و عشق،اقبال کی شاعری‘‘ کے عنوان سے اقبال کے فارسی اشعار کی تشریع کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اقبال نے عقل اور عشق کے تصورات صوفی شاعروں سے لے کر ان پر جدید فلسفہ و جدانیت کارنگ چڑھا یا ہے اور اپنے جدت ِ فکر سے ان کے تضاد کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔پروفیسر رشید احمد صدیقی ’’اقبال‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ اقبال اُٹھ گیا۔ اس پہلے بڑے بڑے لوگ بھی رحلت کر چکے ہیں۔لیکن اقبال ابھی ہم میں موجود تھے۔ پھر اقبال جو بحیثیت شخص اور شخصیت دونوں کے مدتوں ہم میں رہے کیسے بھلائے جا سکتے ہیں۔پروفیسر محمد نجیب بے اے آکسن ’’ڈاکٹر اقبال ‘‘کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر اقبال مرحوم سے ملاقات کا شرف مجھے 1928ء میں حاصل ہوا۔ میرے دوست نذیر نیازی نے میرا تعارف اور میرے پریس کی سفارش کرنے کا دعدہ کیا۔وہ دنیا میں دنیا والوں کی طرح رہتے تھے، دل میں صاحب دلوں کی طرح۔ گفتگو جلوت میں کرتے تھے۔ شعر خلوت میں کہتے تھے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی’’ حیات ِ اقبال کا سبق‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ آخری دور میں اقبال نے تمام کتب کو الگ کر دیاتھا اور سوائے قرآن کے اور کوئی کتاب وہ اپنے سامنے نہ رکھتے تھے۔ وہ جس نتیجہ پر پہنچے وہ یہ تھا کہ اصل قرآن ہے ۔ایک جامعی’’ اقبال شخصیت اور پیام‘‘ کے عنوان سے اقبال کی شاعری کی صفحہ 96 تا115 تک طویل تشریع کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اقبال کو اپنی استعداد کے مطابق سمجھنے کی کوششوں کا حاصل یہ صفحات ہیں۔پروفیسرخواجہ غلام السیدین’’ مقام عقل و عشق‘‘ عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ قدرت کبھی کبھی اپنی فیاضی سے افراد کو اس قدر مالا کر دیتی ہے کہ دیکھنے والوں کی عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں اس نے شاعر مشرق اقبال کو ایسی ہی دریا دلی کے ساتھ اپنی بہترین نعمتیں عطا فرمائیں۔

صاحبو!اس کے علاوہ اس کتاب میں درجنوں اہل علم ، دانشوروں اور اقبال شناس حضرات کی تحریریں موجود ہیں یہ کتاب اقبال کے متعلق علم کا خزانہ ہے۔یہ کتاب ادبیات اقبالیات میں گراں قدر اضافہ ہے۔ ریاض احمد چوھدری سیکرٹیری؍ ڈاریکٹر بزم اقبال ۲ کلب روڈ لاہور ، ناشر کتاب’’ جریدہ جوہر میں ذکراقبال‘‘ تعریف کے مستحق ہیں۔

 

Mir Afsar Aman
About the Author: Mir Afsar Aman Read More Articles by Mir Afsar Aman: 1130 Articles with 1095006 views born in hazro distt attoch punjab pakistan.. View More