گذشتہ روز سرمئی شام کو ملتان کے نامورقلم کارسجادجہانیہ کی کتاب ،ٹاہلی
والا لیٹربکس ٫کی تقریب رونمائی جس کا انعقاد ای لائبریری ہال نزدقذافی
سٹیڈیم لاہور میں کیا گیا شرکت کے لئے ٹھیک ساڑھے چاربجے ہم اپنے بڑے بھائی
اورسرائیکی زبان کے بڑے شاعر اورادیب افضل عاجز کے دولت خانے کے باہرپہنچ
گئے کچھ ہی دیر بعد عاجزاورعلی مرتضی باپ بیٹا دونوں ہمارے ساتھ تھے اور ہم
ای لائبریری کی جانب رواں دواں ہوگئے ایسی تقریبات میں ہماری شمولیت چونکہ
نہ ہونے کے برابرہوتی ہیں ہال کے اندرداخل ہوتے ہی افضل عاجز سے لوگ لپٹتے
رہے اورہم اپنا منہ سابنا کے ایک طرف کھڑے دیکھتے رہے کیونکہ ہمیں کوئی نہ
جانتا تھا ہم سب کے لئے اجنبی تھے جس طرح بھیڑوں کے ریورڑمیں کسی نئی
بھیڑکی انٹری ہوتی ہے خیر وہ بھیڑیں تو اس اکیلی بھیڑ کو جاننے کی پوری تگ
ودو کرتی ہیں لیکن ہمارے بارے کسی نے بھی نہ پوچھا کہ خیرسے آپ کس پنڈ سے
آئے ہیں یہ سلسلہ تب تک جاری رہا جب تک ہم ہال کی نشستوں تک نہ پہنچ پائے
ہمیں سٹیج کے بالکل سامنے والی نشستوں پربٹھادیا گیا اور نظامت کے فرائض
سرانجام دینے والے اے میرے صاحب افضل عاجز کی طرف سے حکم جاری کیا گیا کہ
اپنی نشستیں بالکل ہی نہ چھوڑی جائیں ہمارے بائیں جانب ملتان کی معروف
گلوکارہ واداکارہ ثمن شیخ تشریف فرما تھیں ہمیں ثمن کے بارے معلوم نہ تھا
کہ یہ ہستی کون ہیں اس سے قبل عمارہ کنول ہمیں دکھائی دے چکی تھیں اوران سے
ہیلو ہائے بھی ہوئی تھی لیکن ثمن کے بارے ہمیں معلوم نہ تھا کہ جنوبی جنوب
کی اتنی خوبصورت آواز کی مالک خوبصورت ثمن شیخ ایک ابھرتی ہوئی نامور
گلوکارہ ہیں بہرحال ٹاہلی والا لیٹر بکس کی تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت
کلام مجید سے ہوا
ہال میں موجود (روزن دیوار والے) عطاالحق قاسمی صاحب کا نعتیہ کلام پیش کیا
گیا بعدازاں معروف لکھاری اورادیب تقریب میں اظہارخیال کرتے رہے معروف
شاعراور کالم نگار دل سے دل والے سعود عثمانی نے اپنا پورا کالم جو سجاد
صاحب کی کتاب ٹاہلی والا لیٹربکس بارے تھا پڑھ کرسنایا جو آج کے روزنامہ
دنیا میں ہمیں سننے کے بعد پڑھنے کو بھی مل گیا ذرا ہٹ کے ٫والے یاسر
پیرزادہ صاحب اپنے حسن کی طرح حسین باتیں کرتے رہے قاسم علی شاہ نے بھی
تقریب کوخوب رونق بخشی علم وادب اورفارسی ادب کے استاد جناب ڈاکٹرمعین
نظامی صاحب نے بھی تقریب میں علم وادب بارے سیرحاصل تقریر کی آخرمیں ٹاہلی
والالیٹربکس کے خالق سجاد جہانیہ صاحب تشریف لائے اور ماضی کے زمانے کی
پیاری باتیں سنائیں جہانیہ صاحب آج بھی خطوط لکھتے ہیں اب چونکہ جدید ترین
ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے لیکن شاید وہ خط کے پکڑے جانے والے دلفریب اور دلربا
واقعہ کو بھلانا نہیں چاہتے تبھی اکثر پرانے مگرسچے زمانے کی باتیں کرتے
دکھائی دیتے ہیں ویسے خطوط کے زمانے کی بات کی جائے توخط پکڑے جانے کی
قیامت ہم بھی جھیل چکے ہیں لیکن ایسے واقعات کو اب پوشیدہ رکھنا ضروری ہے
اس کیفیت اوررازکو اپنے تک ہی محدود رکھنا چاہئیے اس ڈھلتی عمر میں راز کھل
گئے تو کس در پرجائیں گے ٹاہلی والا لیٹربکس میری ٹیبل پر موجود ہے
انشااللہ وقت ملے گا تو پہلی فرصت میں مطالعہ شروع کردیاجائے گا اللہ تعالی
سجاد جہانیہ کو سلامتی دے آپ ہمارے استاد ہیں ہم آپ سے ہی سیکھ رہے ہیں
|