مقدر کی جوتیاں

کچھ لوگ ہوائی چپل کی طرح ہوتے ہیں ساتھ تو دیتے ہیں مگر پیچھے سے کیچڑ اچھالتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چپل پاؤں کا ایک غیر رسمی پہناوا ہے ۔جسے کچھ لوگ پاجامے کے ساتھ بھی پہنتے ہیں تا کہ سادہ اور عوامی نظر آئیں جیسے ہمارے سیاستدان ۔ویسے کبھی نہ کبھی آ پکا پالا ایسے لوگوں سے ضرور پڑا ہوگا جو ہوائی چپل کی طرح ہوتے ہیں مطلب ساتھ تو دیتے ہیں مگر پیچھے سے کیچڑ بھی اچھالتے رہتے ہیں۔
عربی زبان میں چپل کو نعل کہتے ہیں اسکے علاوہ بھی اسکے کئ مقامی نام ہیں جیسے ،کفشن شو ،گرگابی ،سلیم شاہی ،کھڑائوں,پمپی ناگرا ،سینڈل ،سلیپر ،ملتانی ،مکیشن اور خان چپل وغیرہ

کچھ چپلیں ایسی ہوتی ہیں جو اگر مقدر میں ہوں تو مل ہی جایا کرتی ہیں جیسے سیاسی جلسوں میں کسی اہم شخصیت کو پڑنے والی چپل جسے جوتا چلنا بھی کہتے ہیں اور مسجد سے غائب ہونے والی چپل جو لے اڑنے والے کے مقدر میں لکھی ہوتی ہے ۔ کچھ چپلیں باعث عزت بھی ہوا کرتی ہیں جیسے والدین اور اساتذہ کے ہاتھوں سے پڑنے والی چپل جو جہالت کو ختم کر دیتی ہیں جیسے مولانا الطاف حسین حالی کہتے ہیں :
بوٹ ڈاسن نے بنایا میں نے مضمون لکھا
ملک میں مضمون نہ پھیلا جوتا چل گیا ۔
جفت سازی کا عمل وجود میں کیسے آیا یہ جانتے ہیں ۔

ایک زمانہ تھا جب جوتے کا وجود نہ تھا لوگوں کو ننگے پاؤں سفر کرنا پڑتا تھا ۔ ایک بادشاہ کو بھی اسی ظلم کا سامنا تھا جب جب وہ زمین پر پاؤں رکھتا ملازمین آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر جائزہ لیتے دور دور تک کہ بادشاہ کے پاؤں کو ضرب نہ لگے " راہوں میں آنکھیں بچھانا" شاید اسی دور کی کہاوت ہے پھر بادشاہ نے سینکڑوں جانوروں کو ذبح کر کے انکی کھال نرم کر کے ملازموں کے حوالے کر دی وہ جب زمین پر قدم رکھتا ملازم کھال اس کے قدموں میں بچھاتے جاتے اسطرح جانوروں اور مگازمین مشقت میں پڑ گۓ پھر ایک عقلمند وزیر کا جنم ہوا جس نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ کھال کے موزےبنا کے پہن لیں اس سے آپکے پاؤں بھی محفوظ رہینگے اسطرح دنیا کی پہلی چپل وجود میں آئ۔آہستہ آہستہ یہ چپل امیروں میں بھی مقبول ہو گئ غریب لوگ مزری کے پودے اور چاول گندم کے خشک پودے سے چپل بنا کے پہننے لگے وقت کے ساتھ اسکی بناوٹ میں جدت آتی گئ اور قیمتی اور نۓ نۓڈیزائن کی چپلیں بنتیں اور فخر سے دہلیز پر سجائ جاتیں تاکہ آنے جانے والوں کو مرعوب کیا جا سکے۔ یہ انکی جدت اور قیمت ہی ہے جسکی وجہ سے شادیوں اور مسجدوں میں جوتا چھپائی کی رسم وجود میں آئ شادیوں میں یہ رسم سالے ادا کرتے ہیں مگر مسجد میں کون کرتاہے اس پر ریسرچ جاری ہے۔
ایک صف میں کھڑے ہو گۓ محمود و ایاز
اورانکے جوتے اٹھا کر بھاگ گیا نواز

۔اگر آپکو بھی مسجد میں اس رسم کا سامنا ہے تو ایک جوتا ایک کونے اور دوسرا دوسرے کونے میں اتارنے سے آپکا جوتا محفوظ رہ سکتا ہے ۔ اگر پھر بھی غائب ہو جاۓ تو مسجد سے نکل کر بے سری آواز میں مشاعرہ شروع کر دیں اتنے جوتے آ جائیں گے کہ آپ گن نہیں پائنگے ۔
 
Rizwana aziz
About the Author: Rizwana aziz Read More Articles by Rizwana aziz: 33 Articles with 33283 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.