’’سلگتے احساس‘‘ کا شاعر مشتاقؔ دربھنگوی

ڈاکٹر ممتاز جہاں صدیقی
سابق صدر شعبہ اُردو، ڈی ایس ایم کالج (پربھنی، مہاراشٹر)
اﷲ کی اس حسین دنیا میں آئے دن ہزاروں انسان پیدا ہوتے ہیں اور مقررہ زندگی کا وقفہ گزار کر گزر جاتے ہیں۔ لیکن بہت کم شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جو حیات و موت کے درمیانی شب و روزمیں عظیم ترین کارہائے نمایاں انجام دے کر سارے عالم پر چھا جاتی ہیں اور مشہور و مقبول اور معتبر و معظم ہوجاتی ہیں۔ اُن کی خدمات بے غرض ہوتی ہیں اور اُن کی کاوشیں مثالی ہوتی ہیں۔ ایسے افراد کسی بھی شعبۂ حیات میں چاہے وہ سماجی میدان ہو، سیاسی کارزار ہو یا ادبی گلستان ہو، اپنی شخصیت کو اپنے کارناموں سے یادگار بنا جاتے ہیں۔ ایسے ہی معتبر، مقبول اور ہر دلعزیز شخصیات میں مشتاقؔ دربھنگوی کا نام بڑے احترام سے رقم کیا جا رہا ہے۔
مشتاقؔ دربھنگوی ہشت پہلو شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ پیشہ کے اعتبار سے ایک محنتی صحافی ہیں۔ ساتھ ہی بہترین شاعر و ادیب اور مرتب بھی۔ ترتیب و تزئین کے معاملہ میں مشتاقؔ دربھنگوی کو بڑا ملکہ حاصل ہے۔ اس خصوصیت کی بناء پر انہوں نے کئی موضوعات پر تقریباً سترہ کتابیں ترتیب دی ہیں۔ ان میں سب سے اہم شعراء و شاعرات کی ڈائرکٹری ’’گوش بر آواز‘‘ ہے جو اُن کی رات دن محنت و مشقت کا صلہ ہے۔ اس ضمن میں کئی مداحیہ قطعات و اشعار سے انہیں نوازا گیا۔ شاعرہ شہناز رحمت کا ایک شعر ملاحظ ہو۔
نام دربھنگہ کا روشن کردیا ہے آپ نے
آپ پر تو واقعی اُردو ادب کو ناز ہے
مشتاقؔ دربھنگوی ذاتی طور پر بڑے مخلص، محترم اور ہر دلعزیزشخصیت کے مالک ہیں۔’’گوش بر آواز‘‘ کے ضمن میں تعریف کرتے ہوئے پاکستان سے طارق تاسی تحریر کرتے ہیں۔
’’مشتاق ؔسر آپ کی سحر انگیز شخصیت اہل علم و ادب کو اپنے اثر سے باہر ہی نکلنے نہیں دے رہی ہے۔‘‘
صحافی، مرتب اور مصنف کے علاوہ مشتاقؔ دربھنگوی کی شخصیت کا ایک خوبصورت پہلو شاعر کی حیثیت سے اجاگر ہوا ہے۔ بطورِ خاص غزل گوئی میں وہ ایک خاص مقام کے حامل ہوگئے ہیں۔
اُردو شاعری میں غزل ایک ایسی صنف ہے جو ہر دور میں مقبول و مشہور رہی ہے۔ اسی لئے اس کو اُردو شاعری کی آبرو کہا گیا ہے۔ دکن سے لے کر دلّی اور دلّی سے لے کر لکھنؤ تک اُردو ادب کا کوئی شاعر ایسا نہیں گزرا جس نے غزل میں طبع آزمائی نہ کی ہو۔
مشتاقؔ دربھنگوی کی پسندیدہ صنف غزل ہی رہی ہے۔ انہوں نے بھی دیگر شعراء کی طرح اُردو غزل میں ہزارہا موضوعات کو بڑے سلیقے سے برتنے کی کامیاب کوشش کی ہے اور غزل کی روایت کو بخوبی اعلیٰ و ارفع مقام تک پہنچانے میں بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں۔
ثریا شاہد (لاہور، پاکستان) اُن کی غزل گوئی کے بارے میں اظہار خیال کرتی ہیں:ــ ’’وہ اُن شعراء کی صف کے مجاہد ہیں جنھوں نے غزل کو اُس کے اعلیٰ منصب پر فائز رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اُس کی روایتی شان میں کوئی فرق نہیں آنے دیا۔ الفاظ کے تکلفات کے پیچھے ایک درد پنہاں ہے جو سادگی کے پردے میں رہنے کے باوجود کہیں نہ کہیں اپنا اثر دکھا ہی جاتا ہے۔‘‘
غزل کے پیمانے کو سامنے رکھ کر مشتاقؔ دربھنگوی کی غزلوں کا مطالعہ کریں تو ثابت ہوجاتا ہے کہ انہوں نے تمام لوازماتِ غزل کو بخوبی نبھانے کی کوشش کی۔ پُر اثرمطلعے اور زبردست مقطعے، بے نظیر ردیف و قافیے، آسان بحر، نرم و سبک الفاظ اور سونے پہ سہاگا الفاظ کی خوبصورت ترتیب و تزئین نے غزلوں میں موسیقی و غنائیت پیدا کردی ہے۔
مشتاقؔ دربھنگوی بھی گہری فکر و نظر کے مالک شاعر ہیں۔ ذاتی طور پر بڑے مخلص اور درد مند ایسے کہ سارے جہاں کا درد انہی کے جگر میں ہے۔ اُن کی غزلوں کا مجموعہ ’’سلگتے احساس‘‘ کے مطالعہ سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ نام،اسم با مسمیٰ ہے۔ کیونکہ بجاطور پر انہوں نے اپنے دلی احساسات کو پُر اثر الفاظ کے پیرائے میں قاری کے سامنے رکھ دیا ہے۔
اس مجموعہ کی ابتداء روایتی انداز سے کی ہے۔ چنانچہ اﷲ کے نام سے ابتدا کرتے ہوئے تین حمد یں شامل کی ہیں جن میں انہوں نے اپنے رب کے سامنے سیدھے سادے والہانہ انداز میں عقیدت و محبت اور عاجزی و بندہ نوازی کا اظہار کیا ہے۔ اُن کی مدح سرائی سے بخوبی اُن کے نہایت مذہبی ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ وہ اﷲ کی وحدانیت اور اُس کی عظمت کو سچے اعتقاد کے ساتھ مانتے ہیں اور اُس کی بڑائی کرنے سے غافل نہیں رہتے۔ مثال کے طور پر چند اشعار حاضر خدمت ہیں۔
تو ہی ستار ہے تو ہی غفار ہے
اے خدا تو ہی سب کا مددگار ہے
کوئی جا تیرے جلووں سے خالی نہیں
ہر طرف تیری قدرت کا اظہار ہے
بڑھ کر بسم اﷲ جب تھاما قلم مشتاقؔ نے
صورتِ مہرِ درخشاں ہوگیا حسنِ بیاں
’’سلگتے احساس‘‘ میں حمد باری تعالیٰ کے بعد حضورؐ کی شان میں نغمہ سرائی کی ہے ۔چنانچہ دو نعتوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔
ہے مرے دل میں بسی عظمت رسول اﷲؐ کی
رات دن کرتا ہوں میں مدحت رسول اﷲؐ کی
کروں میں آپؐ کے در کا نظارا یا رسول اﷲؐ
چمک اٹھے مری قسمت کا ستارا یا رسول اﷲؐ
نعت شریف کے بعد گیارہ قطعات بہ عنوان ’’ صل علیٰ محمدؐ ‘‘تحریر کئے ہیں اور ایک منقبت حضرت علیؓ سے متعلق ملتی ہے۔
شعرائے اُردو نے زندگی کے ہزارہا موضوعات کو اپنی غزلوں میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ چونکہ شاعری زندگی سے وابستہ ہوتی ہے اسی لئے زندگی کے ہر پہلوکی تصویر کشی کرتی ہے۔ مشتاقؔ دربھنگوی کی غزلوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انہوں نے بھی زندگی کے کئی رنگ اُردو غزل میں بھرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ صرف عشقیہ جذبات کی عکاسی ہی نہیں کی بلکہ دیگر موضوعات کو گہری فکر کے ساتھ بیان کیا ہے۔ جیسے
مشتاقؔ راہِ زیست کے یہ پیچ و خم مجھے
دیتے ہیں غور و فکر کی دعوت کبھی کبھی
ہر گوشۂ حیات کا ہو جس میں تذکرہ
مشتاقؔ ہے پسند وہی شاعری مجھے
اسی فکری سوچ کے سبب قوموں کا درد، رشتوں کی پاسداری، عصری مسائل، سیاسی حکمرانوں کے سنگین رویے ، ظلم و ستم، موجودہ دور کے بدلتے حالات، تعصب وغیرہ جیسے موضوعات کو بڑی سادگی اور نرم الفاظ میں بیان کردیا ہے۔ الفاظ کی ترتیب اور دل پذیر اندازِ بیان نے کلام کو پُراثر بنادیا ہے۔ مشتاقؔ دربھنگوی بہرحال ایک مخلص انسان اور درد مند دل کے مالک ہیں ۔ انہوں نے نرم و سبک الفاظ کو اپنایا اور اصلاحِ قوم کا فریضہ انجام دیا۔ مثال کے طور پر چند اشعار اُن کی غزلوں سے انتخاب کئے گئے ہیں۔
نکلتی تھی نہ بولی جس کے منہ سے
وہ اب اونچے سُروں میں بولتا ہے
جو ہوتا ہے صداقت کا پیمبر
عدالت میں وہی سچ بولتا ہے
ایسی تہذیب سے اﷲ بچائے مجھ کو
جو بزرگوں کی نہیں جانتی عزت کرنا
آغوشِ گلستاں میں رہو پھول بن کے تم
میدانِ جنگ میں رہو شمشیر کی طرح
آدمی رکھتا ہے یوں تو ساری دنیا کی خبر
بے خبر بس آدمی سے آدمی ہے آج کل
مشتاقؔ دربھنگوی کی غزلوں میں روایتی عشق و عاشقی کے جذبات و احساس کی عکاسی ملتی ہے جو غزل کا پسندیدہ اور مقبول موضوع رہا ہے۔ وارداتِ قلبی کو برملا آسان اور عام فہم زبان میں ضبط تحریر میں لایا ہے۔ چنانچہ مشتاقؔ صاحب نے اپنی غزلوں میں محبوب کی تعریف، اظہارِ محبت، وصل و فراق، شکوہ و شکایت، ظلم و ستم، غرض تمام لوازماتِ عشق کو برتنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ دیکھئے ان کا اندازِ دلربانہ:
نزاکت کی ہے چال اُس گلبدن کی
یہ گل ہائے نقشِ قدم بولتے ہیں
تھی آرزو سناتا اُنہیں دل کا حال لیکن
کبھی میری زندگی میں وہ مقام تک نہ آیا
تھا گماں کس کو کہ ایسا معجزہ ہو جائے گا
وہ ستم پرور محبت آشنا ہو جائے گا
اے زندگی تو سانس بھی لینے تو دے ہمیں
گزرے ابھی ہیں عشق میں اک امتحاں سے ہم
غزل کی خصوصیت خارجی جذبات کی عکاسی ہے لیکن غزل میں شعرائے اُردو نے صرف دل کا درد ہی نہیں بیان کیا بلکہ دنیا کے تمام مسائل بلکہ سیاسی مسائل بھی بیان کئے ہیں کیونکہ شاعر اپنے زمانے کے حالات سے اثر قبول کرتا ہے۔ یہ زندہ قوموں کی ضمانت ہے کہ حالاتِ حاضرہ کا جائزہ بھی لیں اور اپنی شعری اصناف میں اس کا اظہار بھی کریں۔ مشتاقؔ نے اپنی غزلوں میں عصری مسائل، سماجی نا انصافی، فسادات، حاکموں کی بے حسی اور سیاسی مسائل کو بھی اظہار خیال کا ذریعہ بنایا ہے۔ اس قسم کے موضوعات قلم بند کرتے ہوئے بھی اُن کا لہجہ باغیانہ یا شدت پسندانہ نہیں ہوتا بلکہ درد مندی، دل پزیری اور جان سوزی سے ایسے واقعات بیان کردیتے ہیں جو دلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر درج ذیل اشعار پڑھئے ۔
ہر لمحہ کوندتی ہیں تعصب کی بجلیاں
لمحہ بہ لمحہ اہلِ نظر جاگتے رہیں
مشتاق ؔمیرے ملک میں یوں آیا انقلاب
ہر شعبۂ حیات کے منظر بدل گئے
قتل گاہیں جو یہ آباد نظر آتی ہیں
تیری خوں ریز سیاست کا اثر لگتا ہے
بے گناہی کی سزا دی جائے گی مظلوم کو
پھر کسی ظالم کے حق میں فیصلہ ہوجائے گا
بہرحال مشتاقؔ دربھنگوی نے اپنی غزلوں میں حالات کے بدلتے منظرنامے کو پیش کیا ہے۔ سچائیوں کا اظہار کیا ہے۔ غزل کی وسیع دامانی کی عکاسی بھی کی ہے۔ غزلوں کا مجموعہ ’’سلگتے احساس‘‘ دراصل مشتاقؔ دربھنگوی کے سلگتے احساسات کا ترجمان ہے۔ جس کے ساتھ زمانے کا درد بھی شامل ہوکر ’’سلگتے احساس‘‘ کی شدت کو دو آشتہ کردیا ہے۔ کیونکہ مشتاق ؔصاحب نے صحافت جیسے پیشے سے وابستہ ہونے کی وجہ سے اچھی بُری خبروں کے درمیان زندگی کا کافی عرصہ گزارا ہے۔ اسطرح دنیا کے درد سے آشنائی کے ساتھ ذاتی احساس نے مل کر ’’سلگتے احساس‘‘ کی شکل اختیار کر لی۔
صعوبت کی خراشوں نے بدل ڈالی مری صورت
مری صورت کسی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
انسانی رشتوں میں سب سے معتبر اعلیٰ و ارفع رشتہ ماں کا ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی غزلوں میں ماں کی محبت کا اظہار جا بجا کیا ہے۔ جیسے
گھر سے جولے کے ماں کی دعا ہم نکل گئے
رستے میں جو بھی حادثے آئے وہ ٹل گئے
ہے سایہ فگن سر پہ بزرگوں کی دعائیں
مشتاقؔ مگر ماں کی دعا اور ہی کچھ ہے
پاؤں آنگن میں جو رکھتے ہیں تو ڈر لگتا ہے
سونا سونا سا بِنا ماں کے یہ گھر لگتا ہے
تازہ ہے غم کچھ اتنا کہ مدت کے بعد بھی
لگتا ہے جیسے آج ہی بچھڑے ہیں ماں سے ہم
مشتاقؔ دربھنگوی کو اپنے وطن سے بھی محبت ہے اور جہاں اُن کا بچپن گزرا اُس خوبصورت گاؤں سے بھی بہت محبت ہے چونکہ وہ اپنے گاؤں سے روزگار کی وجہ سے دور رہے اسی لئے اپنے گاؤں کی یاد میں کئی اشعار اُن کی غزلوں میں ملتے ہیں۔
ہنگامہ ہائے شہر سے بڑھ کر عزیز ہے
مشتاقؔ اپنے گاؤں کی گونگی فضا مجھے
حاصل سکون شہر کے محلوں میں ہے کسے
دل کا سکوں تو گاؤں کی مٹی کے گھر میں ہے
آگئے جب شہر میں مشتاقؔ ہم
یاد آیا گاؤں کا منظر بہت
سرپھری موجوں کے تن پر چاندنی اچھی لگی
مجھ کو اپنے گاؤں کی جل تھل ندی اچھی لگی
اُردو بڑی شیریں زبان ہے، محبت و عقیدت کی زبان ہے بلکہ تہذیب و شائستگی کی ضمانت ہے۔ ہر انسان اس سے محبت کرتا ہے۔ مشتاق ؔکی غزلوں میں اُردو سے متعلق جابجا اشعار ملتے ہیں۔ جیسے
ہے مصری کی لذت ہماری زباں میں
زباں سب سے میٹھی تو ہم بولتے ہیں
میرے کانوں میں مصری گھولتا ہے
کوئی بچہ جب اُردو بولتا ہے
ہے یوں ہماری روح میں اُردو بسی ہوئی
پھولوں میں جیسے ہوتی ہے خوشبو بسی ہوئی
ہیں شہد سے زیادہ الفاظ اِس کے میٹھے
دنیا کی ہر زباں سے شیریں زباں ہے اُردو
میرؔ ہوں یا غالبؔ، انیسؔ ہوں یا دبیرؔ اور بھی کئی اُردو کے شعراء ہیں جنھوں نے اپنی شاعری کی تعریف خود اپنے اشعار میں کی ہے۔مشتاقؔ ؔدربھنگوی بھی اپنی تعریف میں رطب اللسان ہیں:
میرے طرزِ بیاں پر رو پڑے اہلِ خرد یارو
جنون انگیز لَے میں جب سنائی داستاں میں نے
سلیقے سے جو بات ہم بولتے ہیں
وہی بات اہل قلم بولتے ہیں
بہر حال ’’سلگتے احساس‘‘ کی غزلیں مشتاقؔ دربھنگوی کے احساس کی نہ صرف ترجمان ہیں بلکہ ان کی شخصیت کی عکاس بھی ہیں۔ ٭٭٭
 

Mushtaque Darbhangwi
About the Author: Mushtaque Darbhangwi Read More Articles by Mushtaque Darbhangwi: 9 Articles with 11984 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.