سید منظور علی گیلانی پاکستان کے ان چند سیاسی افراد میں
شامل ہیں جنہیں پاکستان کی مٹی سے نہ صرف پیار ہے بلکہ جنون کی حد تک محبت
ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ انہیں یوں یاد ہے جیسے بچپن میں ہمیں پہاڑے یاد
ہوتے تھے ایک طرف تو وہ ملک میں سیاسی جمہوری نظام کو پھلتا پھولتا دیکھنا
چاہتے ہیں تو دوسری طرف ہو پاکستان کے محب وطن سیاستدانوں کو خراج تحسین
پیش کرنے کے لیے یادرفتگان کے نام سے سیمینار بھی کرواتے رہتے ہیں گذشتہ
روز انہوں نے سائیں جی ایم سید کی یاد میں لاہور ہائی کورٹ بار کے جاوید
اقبال آڈیٹوریم میں ایک پروگرام رکھا اس پروگرام میں سید منظور علی گیلانی
سمیت سابق گورنر کے پی کے اقبال ظفر جھگڑا، سندھ یونائیڈ پارٹی سید ذین شاہ،
اظہر جمیل چیئر مین قومی محاذ آزادی و سیکرٹری جنرل پی پی ایم، سیکرٹری
جنرل جے یو آئی عبدالغفور حیدری، سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون، صدر
لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر سردار اکبر علی ڈوگر، صدر عوامی ورکر پارٹی
یوسف مستی خان، نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ، چیئر مین شیعہ پولیٹکل
پارٹی سید نو بہار شاہ، سابق صدر اے این پی حسان وائیں، دانش ور راشد رحمان،
خاکسار تحریک کے ڈاکٹر نور محمد شجرہ نے انتہائی خوبصورت باتیں کی ۔سندھ
دھرتی کا بیٹا سائیں جی ایم سید 91سالہ عمر میں 76سال سیاسی جدوجہد کی
لازوال مثال قائم کی 1943میں سب سے پہلے قیام پاکستان کی قرار داد سندھ
اسمبلی میں پیش کرکے منظور اور سندھ کو پاکستان کا حصہ بنوانے والا غلام
مرتضی سیدپھر پاکستان کا سب سے پہلا سیاسی قیدی بھی بناگذشتہ صدی میں سب سے
زیادہ سیاسی قید میں رہنے والا جی ایم سیدہی ہے جنہوں نے جنوبی افریکہ کے
نیلسن منڈیلا سے بھی تقریبا 6ماہ زیادہ قید کاٹ رکھی تھی جس طرح 1947میں
پاکستان کا حصہ بننے والا بنگال وہ صوبہ تھا جہاں قیام پاکستان کے لیے سب
سے زیادہ تحریک چلی اور پھر 1971کے الیکشن میں واضح اکثریت لینے والے انہی
محب وطن افراداقتدار دینے کی بجائے غدار قرار دیدیا گیاجو پاکستان کے اصل
وارث تھے اسی طرح جی ایم سید پر بھی ہمارے حکمرانوں اور ملا نے غداری کا
لیبل اور غیر مسلم کا فتوی جاری کردیا حالانکہ وہ مسلمان اتنے پکے تھے کہ
اپنے علاقہ کی مسجد میں امامت اور خطبہ جمعہ بھی دیا کرتے تھے جب ان پر غیر
مسلم کا فتوی جاری کیا تو ہمارے وہ مسلمان بھائی جو چند لمحوں میں مفت جنت
حاصل کرنا چاہتے ہیں انہی میں سے ایک شخص گلستان خان خنجر لیے دائرہ اسلام
سے خارج کیے جانے والے جی ایم سید کو قتل کرنے آیا تو ساری رات کی مجلس کے
بعد جب جی ایم سیدکو اشراق اور تہجد پڑھتے دیکھا تواس نے اپنا خنجر نکال کر
انکے سامنے رکھتے ہوئے اعتراف کیا کہ وہ کس طرح جنت کمانے نکلا تھا جی ایم
سید مذہب کے نام پر بنی ریاست سے بنیادی اختلاف یہ رکھتے تھے کہ اس میں
دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی جگہ کم سے کم تر ہوتی چلی جارہی ہے مخلص اور
محب وطن اتنے تھے کہ جب قائد اعظم پر قاتلانہ حملہ کی افواہ ان تک پہنچی تو
دھاڑیں مار مار کر بچوں کی طرح رونا شروع کردیا 1948میں پہلی بار سیاسی
قیدی بننے والے نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں بھی نظر بندرہے اوربینظیر
بھٹو کی دوسری حکومت میں بھی انکی نظر بندی کو ختم نہ کیا گیا اور اپنی
وفات تک نظر بند رہے انہیں جدید سندھی قوم پرستی کے بانیوں میں شمار کیا
جاتا ہے جی ایم سید نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 16 سال کی عمر میں کیا جب
انہوں نے 17 مارچ 1920 کو اپنے آبائی شہر سن میں خلافت کانفرنس کا انعقاد
کیا انہوں نے صوفی نظریات کے سیاسی نفاذ کو دوبارہ بیان کیا جس نے اسلامی
اصولوں، سیکولرازم، سندھی قوم پرستی کی وکالت کی اور سندھودیش تحریک کی
بنیاد رکھی انہوں نے اپنی زندگی کے تقریباً تیس سال سندھ مخالف پالیسیوں کی
مخالفت کرنے پر قید اور نظربندی میں گزارے انہیں 1995 میں ایمنسٹی
انٹرنیشنل نے ضمیر کے قیدی کانام بھی دیا ان کا انتقال 26 اپریل 1995 کو
کراچی کے گھر میں نظربندی کے دوران ہوا۔ جی ایم سید 17 جنوری 1904 کو سندھ
کے سادات گھرانے میں پیدا ہوئے تھے سید ابھی شیر خوار تھے جب ان کے والد
سید محمد شاہ کاظمی یکم نومبر 1905 کو خاندانی جھگڑے کی وجہ سے قتل ہو گئے
اپنے والد کی وفات کے بعد سیدہی خاندان میں واحد شیرخوارلڑکا تھا اس لیے
1906 میں برطانوی حکومت نے ان کی خاندانی جائیداد کو اپنی تحویل میں لے لیا
اور ان کے خاندان کو کورٹ آف وارڈز کی طرف سے ماہانہ پنشن دی گئی1915 میں
انہوں نے 5 سال کی پرائمری تعلیم سندھی میں مکمل کی مگر خاندانی جھگڑوں اور
دشمنی کی وجہ سے خاندان کی خواتین بزرگوں اور والدہ حنیفہ بی بی نے انکی
حفاظت کے لیے ہوم اسکول کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ خاندان میں واحد مرد
وارث تھے انہیں گھر پر فارسی اور انگریزی پڑھائی جاتی تھی جی ایم سید نے
اپنی سیاست کا آغاز تحریک خلافت میں حصہ لینے سے کیا 7، 8 اور 9 فروری 1920
کو لاڑکانہ میں ہونے والی خلافت کانفرنس میں پہلی بار شرکت کی وہ ابوالکلام
آزاد، عبدالباری فرنگی محلی، مولانا شوکت علی اور شیخ عبدالمجید سندھی کی
تقاریر سے متاثر تھے انہوں نے اگلی خلافت کانفرنس 17 مارچ 1920 کو اپنے
آبائی شہر سن میں بلائی اس کانفرنس کے دو دن بعد ان کے آبائی شہر سن نے 20
مارچ 1920 کو خلافت عثمانیہ کے خلاف اتحادی طاقتوں کی ناانصافیوں کے خلاف
احتجاج میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جسکے بعد وہ پوری تحریک خلافت میں سرگرم رہے
انہوں نے 26 مارچ 1920 کو مخدوم بلاول کے مزار پر منعقدہ خلافت کانفرنس سے
کم عمر ترین مقرر کی حیثیت سے خطاب کیا 27 اپریل 1921 کو جی ایم سید سن
ریلوے اسٹیشن پر مہاتما گاندھی سے بھی ملے جی ایم سید سندھ عوامی محاذ کے
بانی تھے چودہ سال کی ابتدائی عمر میں سیاسی میدان میں قدم رکھنے والے جی
ایم سید 1919 میں اپنی تحصیل کے سکول بورڈ کے چیئرمین بنے۔ 1929 میں کراچی
ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ کے صدر منتخب ہوئے۔ 1930 میں سندھ ہاری (کسان) کانفرنس کا
انعقاد کیا اور اس کے سیکرٹری بنے۔ 1937 میں پہلی بار سندھ قانون ساز
اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1938 میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار
کی۔ 1940 میں وہ سندھ کے وزیر تعلیم بنے۔ 1941ء میں مسلم لیگ کی مرکزی مجلس
عاملہ کے اراکین میں شامل ہوئے۔ 1943 میں سندھ مسلم لیگ کے صدر بنے اور
سندھ اسمبلی میں قرارداد پاکستان پیش۔1946 میں حالات نے انہیں مسلم لیگ سے
علیحدگی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا اور پروگریسو مسلم لیگ کے نام سے ایک
نئی جماعت بنائی اسی سال وہ سندھ اسمبلی میں اتحادی پارٹی کے رہنما منتخب
ہوئے۔ 1954 میں سندھی ادبی بورڈ کے چیئرمین کے طور پر کام کیا۔ 1966 میں
بزم صوفیہ سندھ کی بنیاد رکھی۔ 1969 میں سندھ یونائیٹڈ فرنٹ بنایا۔ 1972
میں جئے سندھ محاذ بنایا جی ایم سید 65 سے زائد کتابوں کے مصنف بھی ہیں جن
میں سیاست، مذہب، ثقافت، ادب اور مشہور شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کے تبصرے
شامل ہیں میں سمجھتا ہوں سید منظور علی گیلانی کے ساتھ ملکر تمام محب وطن
قوتوں اس طرح کے پروگرام پاکستان کے ہر شہر میں منعقد کروانے چاہیے تاکہ
ہماری نوجوان نسل کو تاریخ کے سنہری اوراق سے سونے جیسے خالص اور خوبصورت
چہروں کا علم ہو سکے جنہیں غدار اور یہودی قرار دیکر ہمارے سامنے پیش کیا
جاتا رہا اصل میں یہی لوگ پاکستان کا چہرہ ہیں جنہوں ہم غداری کی دھند میں
دفنانا چاہ رہے ہیں ۔
|