ہر سال 28 مئی یوم تکبیر کی یاد مناتے وقت پوری
پاکستانی قوم سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف ، قومی ہیرو و ایٹمی سائنسدان
ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، انکی ٹیم کے علاوہ پاکستان میں ایٹمی پروگرام شروع
کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو ، جنرل ضیاء الحق، ڈاکٹر عبدالسلام، رضی
الدین، اصغر قادر، منیر احمد خان، اشفاق احمد،ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی ممنون
ہوتی ہے کہ ان کی کاوشوں اور شب و روز محنت سے پاکستان ناقابل تسخیر قوت
بنا ۔ اٹھائیس مئی کو اﷲ تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم سے پاکستان کی سول و
عسکری قیادت نے اپنے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ، اقوام عالم کے تمام
تر تحفظات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کو عالم اسلام کی پہلی ایٹمی
قوت بنا کر ثا بت کر دکھایا کہ پاکستان نہ تو وہ کسی سے کم ہے اور نہ ہی
کسی میدان میں پیچھے۔ حالانکہ اس وقت کے امریکی صدربل کلنٹن نے پاکستان کے
حکمرانوں کو ٹیلی فون کرکے کہیں اقتصادی دھمکیوں سے ڈرایا تو کہیں پانچ ارب
ڈالر کے امدادی پیکج کالالچ دیا۔یہ وہ ایام تھے جب 11 اور 13 مئی کو بھارت
راجستھان میں پوکھران کے مقام پر ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان میں خطرے کی
گھنٹی بجا چکا تھا ،بھارت نے یکے بعد دیگرے 5 دھماکے کر کے اس خطے میں طاقت
کے توازن کو بگاڑنے کی مذموم سازش کی تھی جسکا ہر صورت جواب دینا لازمی تھا
۔ اس واقعہ کے بعد ملک کے سب ہی حلقوں میں یکساں تشویش پائی جاتی تھی، اس
وقت اہل پاکستان پر صرف ایک جنون طاری تھاکہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا
جواب دینا ضروری ہے۔ ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو ڈرانے کی ناکام کوشش
کرنے والوں کو بتانا ہے کہ ہم ان کے شرلی جیسے ہتھیاروں سے ڈرنے والے نہیں
ہم جوش و جذبات میں بھی ان سے زیادہ ہیں اور قوت و طاقت میں بھی کسی سے کم
نہیں۔ ہم ایک امن پسند قوم ہیں مگر جارحیت برداشت ہر گز نہیں کریں گے، ہم
اینٹ کا جواب پتھر سے دینا جانتے ہیں ۔
آخر کار 28مئی 1998ء کی سہ پہر تین بج کر 16 منٹ پر پاکستان کے ایٹمی
سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے نعرہ تکبیر کے ساتھ چاغی میں ایک بٹن دبا
کر نیوکلیئر کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کر دیا۔ پہاڑوں سے اﷲ اکبر
کی صدا گونجی، چاغی کا پہاڑ دہکتے ہوئے زمین سے تھوڑا اوپر بلند ہوا اور
پھر واپس اپنی جگہ پر براجمان ہو گیا، مگر جل کر خاکستر ہونے سے اس کا رنگ
تبدیل ہوگیا۔ ایٹمی دھماکوں کے وقت پیروں کے نیچے زمین تھرتھراتی رہی ۔
پہاڑ کی سطح 3 منٹ تک روئی کے گالوں میں تبدیل ہو گئی، امریکہ ، برطانیہ ،
جرمنی ، فرانس اور آسٹریلیا کی رسد گاہوں میں الارم کا شور بلند ہوا۔ سیسمو
گرافک آلات یکدم حرکت میں آئے، کوئی رسد گاہ اس کو 40 کلو ٹن کا دھماکہ
دکھا رہی تھی تو کوئی 25 سے 30 کلو ٹن، کوئی بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا تھا
کہ یہ سب کچھ زیر زمین کہاں پر ہوا ہے۔ عالمی میڈیا پر ایک شور برپا ہوا
اور پاکستان نے وہ کر دکھایا جس کی برسوں پہلے سے توقع کی جا رہی تھی، اور
یوں ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان دنیا کا ساتواں ایٹمی ملک بن گیا اور اسے
یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ یہ پہلا اسلامی ملک تھا جس نے ایٹمی شعبے میں یہ
کمال حاصل کیا تھا ۔ پاکستان کے ایٹمی سائنسدان اور حکمرانوں نے وطن عزیزکو
ناقابل تسخیر بنانے کا یہ دلیرانہ قدم اٹھا کر مسلم امہ کو بھی روشن راہ
دکھائی کہ وہ بھی اس تاریخ ساز قدم کو دیکھ کر دنیا میں فخر سے جینا
سیکھیں۔
جبکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب اس
کے خاتمے کے لیے پوری دنیا کی طاقتیں بر سر پیکار تھیں مگر اس کے باوجود اﷲ
تعالیٰ کی نظر کرم نے اس کی تکمیل میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ ایٹمی تجربے
سے قبل سیاست دانوں اور عوام کی فکر مندی تو اپنی جگہ پر مگر افواج پاکستان
جس کے ہاتھوں میں ملک کی سرحدوں کا دفاع ہے، سب سے زیادہ بے چین تھی۔ ہر
کوئی اپنے اپنے خدشات کا اظہار کر رہا تھا۔ سرتاج عزیز جوابی دھماکوں کی
صورت میں پاکستان پر معاشی پابندیاں لگ جانے کے اندیشے میں متفکر تھے تو
دوسری طرف گوہر ایوب جن کی تربیت ہی خالصتاً فوجی ماحول میں ہوئی تھی، اس
معاملے پربڑا سخت گیر رویہ رکھتے تھے اور بھارت کو فوراً جواب دینے کے حق
میں تھے۔ دھماکوں سے کچھ پہلے میاں محمد نواز شریف نے نوائے وقت کے ایڈیٹر
انچیف مجید نظامی (مرحوم) سے پوچھا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے تو انہوں نے کہا
تھا، میاں صاحب اگر آپ نے دھماکے نہ کئے تو عوام آپ کا دھماکہ کردیں گے۔ 13
مئی 1998ء کو وزیراعظم نوازشریف قازقستان کے دورے سے واپس پہنچے اور فوراً
اعلیٰ فوجی افسران سے صلاح مشورے کیلئے ایک میٹنگ بلائی۔ اجلاس میں فیصلہ
ہو جانے پر اعلیٰ عسکری قیادت نے وزیراعظم نوازشریف سے زیر زمین دھماکہ کر
دینے کے لئے صرف ایک ہفتہ کی مہلت مانگی،اور ایٹمی سائنسدانوں کی نگرانی
میں کام کا آغاز کر دیا گیا۔ 1974ء میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں
ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں جس ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی گئی تھی،
مختلف مراحل میں کامیابی حاصل کرلینے کے بعد 1983ء میں اس کا کولڈ ٹیسٹ بھی
مکمل کر لیاگیا تھا۔ پھر 15 برس بعدجب ایٹمی دھماکہ کرنے کا فیصلہ کر لیا
گیا تو ملک کے نامور سائنسدانوں ڈاکٹرعبدالقدیر خان، ڈاکٹر اشفاق احمد خان
اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو مشترکہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ ہندوستان کے
ایٹمی دھماکوں کے جواب کے لئے تیاری کریں ڈاکٹر ثمر مبارک مند اس لحاظ سے
نمایاں سائنسدان تھے کہ 1983ء سے لے کر تمام لیبارٹری کولڈ ٹیسٹ ان کی
نگرانی میں کئے گئے تھے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے دھماکہ کرنے کے لئے صرف 10
دن کا وقت مانگا اور بڑے فخر سے یہ بات کہی کہ خان ریسرچ لیبارٹریز نے
یورنیم انرچمنٹ کا کام بغیر کسی بیرونی مدد کے خود ہی پایہ تکمیل تک
پہنچایا ہے۔
اس دوران امریکی صدر کی طرف سے تنبیہات کا سلسلہ بھی شروع رہا مگر ملک و
قوم کے وسیع تر مفاد میں ایٹمی دھماکوں سے باز رہنے کی پیشکش مسترد کر دی
گئی۔ بھارت کی طرف سے کئے گئے دھماکوں پرتو عالمی برداری کے کان پر جوں تک
نہیں رینگی مگر پاکستان کے دھماکوں نے تو جیسے ایک طوفان کھڑا کر دیا ۔ بہت
سے ایسے ممالک جو اسلامی کانفرنس کے رکن نہیں تھے نے مذمتی بیانات جاری کئے
اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرار داد نمبر 1172 منظورکی جس میں
پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت کی مذمت کی گئی۔ کچھ ممالک جن میں امریکہ بھی
شامل تھا اور اس کے علاوہ جاپان، آسٹریلیا، سویڈن، کینیڈا اور آئی ایم ایف
نے تو پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ جاپان تو ایک قدم اور آگے
بڑھ گیا اور اس نے پاکستان سے اپنا سفیر واپس بلا کر سفارتی تعلقات معطل کر
دیئے۔ تاہم یہ اقصادی پابندیاں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے عہد صدارت میں
اٹھائی گئیں۔آج پاکستان دوسرے ایٹمی ممالک کی طرح ان کے ہم پلہ ایٹمی قوت
ہے،اس کے اثاثے فوج کی حفاظت و تحویل میں ہیں اور فوج کا اپنا ایک کمانڈ
اینڈ کنٹرول سسٹم ہے۔ ہمیں جہاں اپنی اس ایٹمی صلاحیت کے حاصل کرنے پر فخر
ہے، اتنا ہی فخر ہمیں اپنی مسلح افواج پر ہے جس کے جوانوں نے ملک و قوم کے
لئے ہمیشہ آگے بڑھ کر ایثار اور قربانی کے جذبے کا مظاہرہ کیاہے۔دنیا یہ
جانتی ہے کہ پاکستان اپنے دفاع سے غافل نہیں اور وقت پڑنے پر پاکستان اپنے
دفاع کی خاطر یہ طاقت استعمال کر سکتا ہے جو کہ خطے میں تباہی کا باعث بنے
گا یہی وجہ ہے کہ دنیا کی تمام بڑی قوتیں بھارت کو پاکستان کے خلاف جارحیت
کی غلطی سے روک رہی ہیں کیونکہ اس جنگ کا حتمی انجام بھارت کی تباہی ہو گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر آج پھر سے پاکستانی قوم میں وہی جوش و جذبہ وہی
شوق وولولہ زندہ ہوجائے تو عوام پاکستان کو تمام تر بحرانوں اور مسائل سے
نجات میسر آسکتی ہے ۔
|