محفل طنز و مزاح۔ ایک شام خالد عرفان کے ساتھ

محفل طنز و مزاح۔ ایک شام خالد عرفان کے ساتھ
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
صدارتی کلمات!
ناظم ِ تقریب جناب اویس ادیب انصاری صاحب، محبان بھوپال فورم کی چیرئ پرسن محترمہ شگفتہ فرحت صاحبہ، فاران کلب انٹر نیشنل کے سیکریٹری ندیم اقبال صاحب، جناب خالد عرفان صاحب، حاضرین محفل
السلام علیکم!
سامعین محفل، گو وقت زیادہ ہوچکا، متعدد مقررین کو سنا، آخر میں جناب خالد عرفان کی مزاحیہ شاعری سننے کے بعد گنجائش نہیں رہتی کہ کوئی اظہار خیال کرے لیکن،رسم ہے کہ تقریب کی صدارت کا بار اٹھانے والے کو تقریب کو سمیٹنا اور اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہی ہوتا ہے اس لیے میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لونگا۔ آج کی ادبی محفل عام تقریبات سے مختلف ہے یہی وجہ ہے کہ شہر کراچی کے ادبیب، شاعر یہاں کھنچے چلے آئے ہیں، حال میں جگہ کم پڑگئی ہے۔ آج کی محفل میں جن مقررین نے اظہار خیال کیا ان میں ظفر عالم صاحب نے اپناکالم پرچی سنایا، جو مزاح سے پر تھا، عامر بشیر صاحب کی گفتگو اپنے موضوع پر عمدہ تھی، اظہر عزمی اور پروفیسر صفدر علی انشاء صاحب نے مزاح کی تاریخ پر مختصر روشنی ڈالی، عارف مصطفی صاحب کی تو کیا بات ہے انہوں نے مزاح سے بھر پور تحریر پڑھی۔ ابتدائی کلمات فاران کلب انٹر نیشنل کے سیکریٹری جنرل جناب ندیم اقبال صاحب نے سیر حاصل گفتگو فرمائی۔ انہوں نے فاران کلب میں ہونے والی تقریبات کے لیے اصولوں کا تذکرہ کیا۔ بارہویں کھلاڑی کے اظہار خیال سے قبل تقریب کے کلیدی مقرر شاعر جن کے ساتھ شام منانے کا احتمام کیا گیا، اپنے مزاحیہ کلام سے محفل لوٹ لی۔ جناب خالد عرفان کے اشعار سنانے کے بعد مہمانوں میں پھول تقسیم کیے گئے۔
حاضرین محفل!
سب سے پہلے تو عزت افزائی کا شکریہ، جناب اویس ادیب انصاری صاحب کی محبت ہے کہ وہ مجھے محبان بھوپال فورم کی ادبی تقاریب میں محبت سے بلاتے ہیں۔ صدارت کا اعزاز بخشتے ہیں۔ محبان بھوپال فورم میں میری تَواتُر کے ساتھ شرکت سے مجھے یہ احساس ہونے لگا ہے کہ میں بھی بھوپالی ہی ہوں، حالانکہ میرا تعلق شاعر مزدور احسان دانش کے شہر ضلع مظفر نگر سے ہے، بنیادی طور پر میں راجپوت ہوں۔ محبان بھوپال فورم کی چیرئ پرسن اور جملہ ذمہ داران کو سلام پیش کرتاہوں کہ وہ جس تندہی اور ثابت قدمی سے اردو ادب کی خدمت کر رہے ہیں، شہر کراچی میں علمی و ادبی فضا ء میں وہ اپنا حصہ خوش اسلوبی سے ڈال رہے ہیں۔
رواں ہفتہ ملک میں اعصاب شکن سیاسی فضاء نے عمومی طور پر لوگوں کے ذہنوں میں تردد پید کردیا تھا اس صورت حال میں آج کی اس محفل زعفران زار میں قہقہوں اور مسکراہٹوں کے خوشگوار احساسات کا باعث ہوئے ہیں۔ جناب خالد عرفان نے اپنے طنز و مزاح سے بھر پور کلام سے سامعین کو محضوظ و مسرور کیا۔ خالد عرفان کے مزاح کا انداز نرالہ اور اچھوتا ہے، مزاح نگار ی کا جو انداز ان کے ہاں ملتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ مقررین نے طنز و مزاح کے حوالے سے اظہار خیال کیاوہ قابل تعریف ہے۔
محقق اور اقبال شناس پروفیسر عبد الجبار شاکر کے بقول”بنی نوعِ انسان کے جبلی شعور میں اظہار کے جتنے پیرائے موجود ہیں ان میں ایک مؤثر اسلوب ظرافت اور مزاح کا بھی ہے۔ جس کے بغیر کوئی شخصیت مکمل نہیں ہوسکتی، یہی باعث ہے کہ دُنیا کی کسی زبان کا ادب بھی طنز و مزاح کے لوازم سے خالی دکھائی نہیں“۔ اردوادب کا دامن بھی طنز و مزاح سے کبھی خالی نہیں رہا۔ چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنا کوئی آسان کام نہیں۔خاص طور پر آج کے مشکل دور میں جب کہ ہمارے ارد گرد مختلف مسائل اور ٹینشن کا دور دورہ ہے۔اس صورت حال میں اگر کوئی قلم کار یا شاعر اپنی نگارشات سے قارئین کو وقتی طور پر ہی سہی مسکراہٹوں سے نوازتا ہے تو گویا اس نے بڑا کام سر انجام دیا۔ طنزاور مزاح دو مختلف نوعیت کی چیزیں ہیں، مزاح نگار کو اپنی تحریر یا شعر قرطاس پر منتقل کرتے وقت بہت احتیاط اور اپنے قاری کے حس مزاح کو مدِ نظر رکھنا ہوتا ہے۔ طنز میں دل آزاری، بیہودہ گوئی، پھکڑ پن، ستم گاری طنز کی بنیادی خوبصورتی کو تہس نہس کردیتی ہے اسی طرح مزاح میں شائستگی، سادگی، زبان و بیان میں لطافت، ادب و آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے، توہین کا پہلو کسی طور نہ نکلتا ہو۔ شگفتہ بیانی مزاح نگار کا بنیادی وصف ہونا چاہیے۔ معروف مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے اپنی کتاب ”چراغ تلے“ میں طنز و مزاح کے بارے میں لکھا ہے کہ ”مزاح اپنے لہو کی آگ میں تپ کر نکھر نے کا نام ہے لکڑی جل کر کوئلہ بن جاتی ہے اور کوئلہ راکھ۔ لیکن اگر کوئلے کے اندر کی آگ باہر کی آگ سے تیز ہو تو پھر وہ راکھ نہیں بنتی ہیرا بن جاتا ہے“۔ اردو ادب میں طنز و مزاح کے اولین نقوش قدیم داستانوں میں ملتے ہیں، لکھاریوں کی ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے طنزو مزاح لکھا۔امیر خسرو (پیدائش1253ء وفات27 ستمبر 1325 )جو شیریں زبان میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھیخسرو نے بھی مزاح لکھا۔ اس کا ایک شعر۔
خسرو دریا پریم کا ، الٹی وا کی دھار
جو ا ترا سو ڈوب گیا ، جو ڈوبا سو پار
سیج وہ سونی دیکھ کے روؤں میں دن رین
پیا پیا میں کرت ہوں پہروں، پل بھرسکھ نا چین
امیر خسرو کے کوئی چار سو سال بعد جعفرزٹلی نے اردو زبان میں ادب تخلیق کرنا شروع کیا، شاعری بھی کی اور مزاح بھی تخلیق کیا۔ زٹلی کا دور (1658ء۔ 1713ء)تک کا ہے۔ جعفر زٹلی کا کلام۔
جعفر زٹلی نے ایسا کیا
کہ مکھی کو مل مل کے بھینسا کیا
خصم کو جورو اٹھ مارے
گریباں باپ کا پھاڑے
عجب یہ دور آیا ہے
دغل کرتے پھر یں چغلے
چغل کرتے پہر یں چغلے
شغل کرتے پھریں شغلے
عجب یہ دور آیا ہے
تقریباًدو سو سال بعد اودھ پنچ اخبار (1877ء) جو لندن پنچ کی طرز پر اردو کا ایک مزاحیہ ہفت روزہ تھا جسے منشی سجاد حسین نے 1877ء میں لکھنؤ سے جاری کیا۔ یہ اخبار سیاست کو ظرافت کا جامعہ پہناکر پیش کیا کرتا تھا۔اس کے بعد بے شمار اردو کے ادیبوں اور شاعروں نے طنز و مزاح میں نام پیدا کیا ان میں سوداؔ، انشاءؔ، مصحفیؔ، نظیرؔ اکبرؔ آبادی پھر مرزاغالبؔ سے پہلے اور پھر غالب ؔ کے بعد بے شمار شاعروں اور نثر نگاروں نے مزاح کو اپنایا اور خوب نام کمایا۔طنز ومزاح غالب خوش مزاجی کا جذو تھی جو ان کے شاعری لطافت، گفتگو اور بالخصوص ان کے خطوط کا لازمی حصہ ہے۔ اکبر الہٰ آبادی اردو کے ایسے شاعر ہیں کہ جنہوں نے شاعری میں طنز و مزاح کو بام ِعروج پر پہنچایا۔ ان کے مزاح کا انداز نرالہ اور اچھوتا ہے۔ مزاح نگاری کا جو انداز ان کے ہاں ملتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ سید ضمیر جعفری، دلاور فگار،ابن انشاء، امیر الا سلام ہاشمی، انور مسعود، پروفیسر عنایت علی خان، حکیم ناصر، زاہد فخری، حیدر حسنین جلیسی، ڈاکٹر انعا م الحق جاوید، انور مسعود، ساغر خیامی، خالد مسعود خان، خالد عرفان، ظریف لکھنوی، مجید لاہوری، رضانقوی، خالد عزیز اور ڈاکٹر محسن علی آرزو، صفدر علی خان انشاء، سید عارف مصطفی، اطہر عزمی، عامر بشیر شامل ہیں اور بھی بے شمار شاعر اور ادیب ایسے ہیں جو مزاح اور طنز لکھ رہے ہیں۔اردو ادب کا دامن مزاحیہ نثرلکھنے والوں سے بھی مالا مال ہے۔ مرزا فرحت اللہ بیگ جنہوں نے مرزا الم نشرح کے نام سے مزاح لکھنا شروع کیا بعد میں اپنے اصل نام کو ہی اپنا لیا۔ پطرس بخاری مزحیہ نثر میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اسی طرح عظیم بیگ چغتائی، شوکت تھانوی، شفیق الرحمن، رشید احمد صدیقی، جسٹس محمد رستم، کرنل محمد خان، ابن انشاء، مشتاق احمد یوسفی، محمد اسلام اور دیگر قابل ذکر ہیں۔
آخر میں آج کی اس خوبصورت محفل کے انعقاد پر محبان بھوپال فورم اور فاران کلب کے جملہ ذمہ داران کو دلی مبارک باد۔آج کی محفل کے دولھا جناب خالد عرفان صاحب نے مزاحیہ کلا م سنایا، چند اشعار جو ذہن میں آرہے ہیں پیش ہیں۔کوئی غلطی ہوجائے تو معزرت۔
ہمارے ساتھ کی سب لڑکیاں اب نانیا ہوں گی
کبھی بسکٹ تھیں لیکن اب وہ باکر خانیاں ہوں گی
عجب انداز سے جنت میں یہ حوروں پہ چھپٹیں گے
مگر ملاؤں کو پکڑے ہوئے ملانیاں ہوں گی
بیچ عدالت میں یہ ترازو تم نے کیوں لٹکائی ہے
یاتم ڈنڈی مارنا چھوڑ و یا سیدھی میزان کرو
چھپ چھپ کر یوں ملنے والو شادی کو آسان کرو
محبوبہ سے عقد رچاؤ بیوی سے رومان کرو
اس کے ساتھ ہی رخصت چاہوں گا۔ بہت شکریہ۔(28مئی 2022ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1438603 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More