ادبی جریدہ ”انشا“: شمارہ ۳۱۱۔۴۱۱، جنوری تا جون۲۲۰۲ء

ادبی جریدہ ”انشا“: شمارہ ۳۱۱۔۴۱۱، جنوری تا جون۲۲۰۲ء
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
پروفیسر صفدر علی انشاؔ کی زیر ادارت سہ ماہی اردو جریدہ ”انشا“ کا تازشمارہ ۳۱۱۔۴۱۱ جنوری تا جون پیش نظر ہے۔ انشا صاحب بڑی دلجمعی ئاور مستقل مزاجی سے اردو کا یہ جریدہ شائع کر رہے ہیں۔ اردو ادب کی خدمت اور فروغ کی اعلیٰ مثال بھی وہ قائم کر رہے ہیں۔ ادبی جریدہ شائع کرنا ہمیشہ سے ہی ایک مشکل عمل رہا ہے۔ میں نے بعض ادیبوں کو قریب سے دیکھا ہے جو ادبی جریدہ کی اشاعت میں دن رات فکر مند رہا کرتے۔ صہبا لکھنوی مرحوم کا جریدہ ’ا فکار‘ سالہا سال شائع ہوتا رہا۔ صہبا مرحوم نے برنس روڈ پر ایک کمرہ لیا ہوا تھا اس میں افکار کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ آپ جب بھی جائیں صہبا صاحب دبلے پتلے، چھوٹا قد، سفید کرتا اور بڑے پائچے کا باجاما ان کا لباس افکار کے مضامین کی پروف ریڈنگ، ترسیل اور دیگر امور میں مصروف رہا کرتے۔ صہبا لکھنوی نے اپنی پوری زندگی افکار کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ اسی طرح ڈاکٹر فرمان فتح پور مرحوم جامعہ کراچی میں استا د تھے دیگرادبی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ادبی جریدہ ”نگارِ پاکستان“ شائع کیا کرتے تھے، وہ بھی جریدہ کی اشاعت میں زندگی کے آکری لمحات تک فکر مند اور مسلسل سرگرم رہے۔ حکیم محمد سعید شہید کئی جرائد کے مدیر تھے، ہمدرد نونہال، ہمدر ِ صحت اب بھی شائع ہورہے ہیں۔فنون ایک معیاری ادبی جریدہ ہے، جریدہ ”سلسلہ“مرتضیٰ شریف کی ادارت میں شائع ہورہا ہے۔ شخصیات کی زیر نگرانی شائع ہونے والے اردو جرائد زیادہ تر ان شخصیات کے دنیا سے جانے کے بعد اشاعت قائم نہ رکھ سکے، جیسے،ماہ نامہ’افکار‘صہبا لکھنوی اور’نگار پاکستان‘ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے انتقال کے بعد اپنی اشاعت جاری نہ رکھ سکے۔ مختلف ادبی اداروں کے زیر اہتمام شائع ہونے والے جریدوں کی اشاعت جاری رہتی ہے لیکن بعض ادارے جو سرکاری سرپرستی میں قائم ہوتے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ وہ بھی تغیر و تبدیلی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جیسے ماہ نامہ ”کتاب‘ نیشنل بک فاؤنڈیشن جس کے سربراہ معروف شاعر ابن انشاء تھے، کئی سال بعد جریدہ بھی بند ہوگیا اور اس ادارے کو کسی اور ادارے میں ضم کردیا گیا۔ مختلف شخصیات جو ادبی جرائد شائع کرتی ہیں وہ قابل ستائش ہیں، اس لیے کہ ادبی جریدہ شائع کرنا انتہائی مشکل عمل ہوتا ہے۔ ان شخصیات میں سے ایک پروفیسر صفدر علی انشا ؔ بھی ہیں جو مستقل مزاجی۔ دلجمعی سے اردو ادبی جریدہ ”انشا“ شائع کررہے ہیں۔ پیش نظر شمار ہ انتیس سال سے شائع ہورہا ہے۔ اب تک 114شمارے شائع ہوچکے ہیں۔ ادب کی بے لوث خدمت پر مدیر انشاکو مبارک باد، ان کے حوصلے اور ہمت کو سلام۔
پیش نظر شمارے کے اداریہ کا عنوان ہے ’وہ بھی کم بخت۔۔‘ ہے۔ اس کا ابتدائی پیراگراف پاکستان کی رواں سیاسی صورت حال پر دلچسپ تحریر ہے۔ لکھتے ہیں ”تبدیلی کا نعرہ لگانے والے کو خود تبدیلی کا سامنا کرنا پڑا اور یہ اتنا اچانک ہوا کہ اس نے انصاف کے لیے جو در کھٹکٹایا جواب ”نا“ میں آیا یعنی ایک لمبے چوڑے منصوبے کی کھچڑی پک رہی تھی جس میں اندرونی اور بیرونی عناصر اپنا حصہ ڈال چکے تھے صرف تڑکا لگانا تھا جس کے لیے رات بارہ بجے کاوقت طے پایا اور شب خون مارا گیا“۔ اداریہ کا اختتام غالبؔ کے ایک شعر پر ہواہے۔ غالب کا یہ شعر بھی تازہ سیاسی تبدیلی پر پورا اترتا ہے ؎
ہم نے چاہا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد
وہ بھی کم بخت ترا چاہنے والا نکلا
پاکستان میں تبدیلی سرکار کے دو سال مکمل ہونے پر میں نے کچھ اس طرح کہا ؎
تبدیلی سرکار نے گزارے ہیں دو ہی سال
کر کچھ نہ پائے روتے ہی رہے سارا سال
احتساب کے نعرے نے پہنچایا اقتدار پر
سیاست کی نظر ہوگئے پورے ہی دو سال
چینی مہنگی، آٹا مہنگا، بجلی اورپیٹر ول بھی مہنگا
مہنگائی آسماں پر، ان کے ہیں دو ہی سال
مضامین کا شعبہ کافی جان دار ہے پروفیسر محمدصابر کا شان الحق حقی پر مضمون حقی صاحب کی شخصیت اور ادبی خدمات کا احاطہ کرتا ہے، نسیم انجم ادب کا ایک معروف نام، افسانہ نگار، ناول نگار اور کالم نگار، کئی تصانیف کی خالق۔ان کا ترجمہ شدہ ناول ’نرک‘ کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ فرزانہ کوثرنے لیا ہے، پروفیسر نوید سروش کا مضمون ’اہم تخلیقی کاوش اور وثیق الرحمان‘ پرعمدہ کاوش ہے۔ تحقیقی مقالہ پروفیسر محمد ادریس خان لودھی کاہے۔ افسانوں میں عذرا اصغر، پروفیسر عفت گل اعزاز، نگہت یاسمین، پروفیسر جہاں گیر عباسی کے افسا نے شمارہ کا حصہ ہیں۔ نظموں اور غزلوں کے علاوہ بریگیڈیر (ر) بشیر آرائیں کی خود نوشت معلوماتی اور دلچسپ ہے۔ ظہیر خان کا تحریر کردہ انشائیہ ’اکبرؔ دبے نہیں کسی سلطان کی فوج سے‘ طنز و مزاح کے تحت عبد الغفور اسد کا مضمون ”دل کا معاملہ“ بھی مزاح سے خالی نہیں۔ شعری مزاح دلچسپ ہے مہدی عباس چارچوی اور ذوالفقات قائم خانی کا۔ کرنل مسعود عالم کا خاکہ لکھا ہے مرزا عابد عباس نے۔شمارہ کی خاص بات حامد علی سید کا گوشہ ہے۔ حامد علی کئی شعری مجموعوں کے خالق ہیں، گوشہ میں حامد علی سید کا تعارف اور تخلیقات شامل ہیں۔ آخر میں کتب پر تبصرہ اور مدیر کے نام خطوط پر شمارہ کا اختتام ہوتا ہے۔(3جون2022ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1438526 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More