اَحزابِ عرب و اَعرابِ اور اَصحابِ عرب !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالفتح ، اٰیت 10 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ان
الذین
یبایعونک
انما یبایعون
اللہ ید اللہ فوق
ایدیھم فمن نکث
فانما ینکث علٰی نفسهٖ
ومن او فٰی بما عٰھد علیه
اللہ فسوف یؤتیه اجرا عظیما 10
اے ہمارے رسُول ! زمان و مکان کی ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ہے کہ جو لوگ نظامِ حق کے قیام کے لیۓ آپ کے ساتھ آپ کا ساتھ دینے کا قولی و عملی معاہدہ کریں گے تو وہ در حقیقت اللہ کے ساتھ اللہ کے نظامِ حق کا ساتھ دینے کا معاہدہ کریں گے کیونکہ اُن کی عملی طاقت اللہ کی عملی طاقت کے تابع ہے اِس لیۓ جو لوگ آپ کے ساتھ کیا گیا یہ قولی معاہدہ توڑیں گے تو وہ اپنی عملی جد و جُہد کو ضائع کر دیں گے لیکن جو لوگ اپنے قول کے مطابق اِس معاہدے کی پاسداری کریں تو وہ جلد ہی اللہ سے اپنے اِس عمل کا نتیجہِ عمل بھی حاصل کر لیں گے !
مطالبِ اٰیت و مقاصدِ اٰیت !
اٰیتِ بالا کی تفیم کے لیۓ اٰیتِ بالا میں آنے والا پہلا لفظ بَیعت بر وزنِ ہَیت ہے جس سے مُراد انسانی بصارت کے دائرے میں مُتشکل ہونے والی وہ ظاہری شکل ہے جس شکل کو انسان اپنی ظاہری بصارت سے اپنی ظاہری بصارت میں دیکھتا ہے اور ہَیت بر وزنِ بیعت سے مُراد انسانی بصیرت کے دائرے میں آنے والے باطنی احساس کی وہ باطنی شکل ہے جس باطنی شکل کو انسان اپنی باطنی بصیرت سے اپنی باطنی بصیرت میں محسوس کرتا ہے ، لفظِ بیعت کا معروف مصدری مادہ { بَیع } ہے جس سے مُراد انسان کے ساتھ انسانی لین دین کا وہ قولی و عملی معاہدہ ہوتا ہے جو پہلے اَفرادِ معاہدہ کے درمیان لین دین کی ایک قولی شکل میں قرار پاتا ہے اور بعد میں وہ قولی معاہدہ اُن افرادِ معاہدہ کے لین دین کی ایک عملی صورت اختیار کر لیتا ہے ، قُرآنِ کریم کی اٰیتِ بالا میں انسان کے جس قولی و عملی معاہدے کا ذکر ہواہے وہ انسان کا انسان کے ساتھ فتحِ مکہ سے پہلے فتحِ مکہ کے لیۓ کیا گیا وہ حربی معاہدہ ہے جو اللہ کے رسُول نے اہلِ ایمان کے ساتھ کیا تھا اور اہلِ ایمان نے اللہ کے رسُول کے ساتھ کیا تھا ، اِس حربی معاہدے کی بصیرت میں آنے والی شکل اِس سُورت کی اٰیت 10 میں بیان ہوئی ہے اور اِس معاہدے کی بصارت میں آنے والی شکل اِس سُورت کی اٰیت 19 میں بیان ہونی ہے ، اِس معاہدے میں مکے کی آزادی کی عملی جد و جُہد میں اہلِ ایمان نے اپنے رسُول کے ساتھ اپنی شرکت کا جو قول و قرار کیا تھا اُس قول و قرار کی تکمیل کی صورت میں اللہ تعالٰی نے اُن کو کامیابی عطا فرمانے کا وعدہ کیا تھا ، اٰیتِ بالا میں جس بیعت کا ذکر ہوا ہے عہدِ نبوی میں اُس بیعت کی پہلی صورت قُرآن کے اَحکامِ نازلہ پر عمل کرنے اور عمل کرانے کی وہ صورت تھی جو وصالِ نبوی کے بعد قُرآن کی طرف مُنتقل ہو چکی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وصالِ نبوی کے بعد انسان کا علمی و عملی رہنما صرف اور صرف قُرآن ہے اور اِس علمی و عملی قُرآن کی موجُودگی میں کسی انسان کا کسی انسان کی شخصی بیعت کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے ، عہدِ نبوی میں دُوسری بیعت دین اور ریاستِ دین کے دفاع کی وہ بیعت تھی جو وصالِ نبوی کے بعد اُس قُرآنی ادارے کی طرف مُنقل ہو چکی ہے جو قُرآنی ادارہ قُرآن کی مُجوّزہ مجلسِ شُورٰی کی مشاورت سے حالات کے مطابق اپنی قوم اور اَفرادِ قوم سے اِس بیعت کا اہتمام کر سکتا ہے اِس لیۓ قُرآن کے اِس قُرآنی دین میں بیعت کے اِس عمل کے لیۓ بھی کسی شخص کی شخصی بیعت کا کوئی جواز نہیں ہے ، اٰیتِ بالا میں دُوسرا وضاحت طلب لفظ اسمِ واحد { ید } ہے جس کا لُغوی معنٰی ہاتھ ہے لیکن ہاتھ سے مُراد ہاتھ کی وہ بصری ساخت نہیں ہے جو انسان کو نظر آتی ہے بلکہ ہاتھ سے مُراد ہاتھ کی وہ باطنی قُوت ہے جو ابتداۓ آفرینش سے لے کر آج تک انسان کی جسمانی قُوت کا مظہر رہی ہے اور جب اِس اِسمِ واحد { ید } کی نسبت اللہ تعالٰی کی طرف ہوتی ہے تو اِس سے بھی اللہ تعالٰی کا کوئی ہاتھ مُراد نہیں ہوتا کیونکہ اُس کی ذات جسم و اعضاۓ جسم کی اِن تمثیلات سے بھی بلند و بالا ذات ہے کُجا یہ کہ اُس کا کوئی ایسا حقیقی ہاتھ ہو جس کا ذکر کیا جا سکے اِس لیۓ اللہ تعالٰی کے ہاتھ سے کوئی وہ بصری ہاتھ مُراد نہیں ہے جس کی ایک بصری ساخت ہوتی ہے بلکہ اللہ کے ہاتھ سے مُراد اللہ کی وہ قُوت و قُدرت ہے جس قُوت و قُدرت نے اِس عالَم کو سنبھال رکھا ہے اور انسام کی ہر بشری و بصری قُوت و قُدرت بھی اُسی کی لازوال قُدرت و قُوت کے تابع ہے اور اللہ کی یہ قُوت و قُدرت کبھی انسان کے بے پناہ حربی وسائل کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے اور کبھی انسان کی معمولی سی عملی جد و جُہد سے بھی ظاہر ہو جاتی ہے لیکن میدانِ عمل میں دونوں کا اجتماع ہی کامرانی کی نوید ہوتا ہے ، سُورَةُالفتح کے نفسِ موضوع کے اعتبار سے اِس سُورت کی یہ اٰیت اُس ابتدائی زمانے کا اَحوال ہے جس ابتدائی زمانے میں فتحِ مکہ کا خیال ایک ایسا خواب تھا جس خواب کو ایک خُوب صورت تعیر دینے کے لیۓ اللہ کے نبی نے اپنے اَصحاب کے سامنے اپنا یہ خیال پیش کیا تھا اور اُنہوں نے اِس کا خیال کا جو انتہائی مُثبت جواب دیا تھا اُس جواب کو اللہ نے پسند کیا تھا اور اُن زور دار الفاظ میں اُن کے لیۓ اپنی اُس حمایت کا اظہار کیا تھا جس حمایت کا اِس اٰیت کے ایک ایک لفظ سے اظہار ہو رہا ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 471708 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More