مَکے کی عملی فتح سے پہلے مکے کی عقلی فتح !!

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالفتح ، اٰیت 18 تا 23 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
لقد
رضی اللہ
عن المؤمنین
اذ یبایعونک تحت
الشجرة فعلم ما فی
قلوبھم فازل اللہ سکینة
علیھم و اثابہم فتحا قریبا 18
و مغانم کثیرة یاخذونھا و کان اللہ
عزیزا حکیما 19 و عد کم اللہ مغانم کثیرة
تاخذونھا فعجل لکم ھٰذهٖ و کف ایدی الناس عنکم
ولتکون اٰیة للمؤمنین و یھدیکم صراطا مستقیما 20 و
اخرٰی لم تقدروا علیھا قد احاط اللہ بھا و کان اللہ علٰی کل
شئی قدیرا 21 ولو قاتلکم الذین کفروا لولوا الادبار ثم لا یجدون
ولیا و لا نصیرا 22 سنة اللہ التی قد خلت من قبل و لن تجد لسنة اللہ
تبدیلا 23
اے ہمارے رسُول ! اللہ نے آپ کے اَصحاب و اَحباب کے حالِ دل کی جو تحقیق کی ہے اُس تحقیق نے اِس اَمر کی تصدیق کردی ہے کہ اُس کے جن ایمان دار بندوں نے ایک روشن کاہکشاں کی روشنی میں فتح یا شہادت پانے کا آپ کے ساتھ جو وعدہ کیا ہے اُس وعدے سے اُن سب کا وہ صدقِ دل سامنے آگیا ہے جس سے خوش ہو کر اللہ نے اُن کے دل میں وہ تسکین پیدا کردی ہے جس تسکین نے عملی جنگ سے پہلے ہی اُن کو عقلی جنگ جیتنے کی وہ عظیم الشان خوشخبری دے دی ہے جو دشمن کی چھوڑی ہوئی پہلی متاعِ غنیمت ہے جو اُن کے ہاتھ لگی ہے اور وہ تاریخی اثاثے الگ ہیں جو عملی فتح کے بعد اُن کے قبضے میں آنے والے ہیں اور ہمارے اُس وعدے کی تَکمیل کی نشانی یہ ہے کہ جب تک وہ تاریخی اثاثے تُمہاری دسترس میں نہیں آئیں گے تب تک ہم دشمن کو تُمہارے خلاف دست درازی سے روک کر رکھیں گے اور اگر وہ تُمہارے خلاف اَقدامِ جنگ کریں گے تو ہم اُن کو بھاگنے پر مجبور کردیں گے کیونکہ حق کی فتح و باطل کی فتح و شکست کا یہی خُدائی طریقہ ہے جس طریقے میں آپ کو کبھی بھی کوئی تبدیلی ہوتی نظر نہیں آۓ گی !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
عملی جنگ ایک ایسی عقلی حکمتِ عملی ہوتی ہے جو عقلی بیداری سے ترتیب دی جاۓ تو ایک قابلِ فخر فتح پر مُنتج ہوتی ہے اور عقلی نا ہمواری سے مُرتب کی جاۓ تو ایک ناقابلِ فراموش شکست پر پُہنچ کر ختم ہوتی ہے ، اِس سورت کی اِن اٰیات میں انسانی تاریخ کی ایسی ہی ایک حربی حکمتِ عملی کا ذکر کیا گیا ہے جو شہرِ مکہ کو اپنے قبضے میں لانے کے لیۓ سیدنا محمد علیہ السلام نے ترتیب دی تھی اور اُس حکمتِ عملی کے تحت آپ نے مکے سے بارہ میل باہر حدیبیہ کے مقام پر اپنے 1400 اَصحاب کے ساتھ پُہنچ کر اہلِ مکہ کو فوری جنگ یا فوری مذاکرات کے لیۓ وہاں پُہنچنے کے لیۓ مجبور کر دیا تھا اور شہر مکہ کو اپنے قبضے میں رکھنے کے لیۓ اہلِ مکہ نے جو حکمتِ عملی مُرتب کی تھی اُس حکمتِ عملی کے مطابق ایک طرف تو اُنہوں نے آپ کی پیش قدمی کو روکنے کے لیۓ خالد بن ولید کی سرکردگی میں 200 افراد کا ایک لشکر روانہ کردیا تھا اور دُوسری طرف سُہیل بن عمرو کی قیادت میں ایک وفد بھی روانہ کردیا تھا تاکہ اہلِ مکہ کو ایک سال پہلے مدینے کے باہر لڑی جانے والی جنگِ احزاب میں ملنے والی شکست کے بعد ایک سال بعد ہی اَب مکے کے باہر برپا ہونے والی دُوسری مُتوقع جنگ کی دُوسری مُتوقع شکست سے بچایاجاسکے ، اہلِ تاریخ کے بیان کیۓ گۓ مقامِ حدیبیہ پر اہلِ تاریخ کے بیان کے مطابق اہلِ مکہ کا مذاکراتی وفد دس سالہ جنگ بندی کے لیۓ جو دس نکاتی لائحہِ عمل لے کر وہاں آیا تھا اور جس دس نکاتی تحریری معاہدے پر اُس وفد نے سیدنا محمد علیہ السلام کے دستخط حاصل کیۓ تھے اُس دس نکاتی معاہدے کا پانچواں نکتہ یہ تھا کہ اِس دس سالہ معاہدے کی رُو سے اگر اِس دس سالہ مُدت کے درمیان کوئی شخص مکے سے بھاگ کر مدینے جاۓ گا تو محمد علیہ السلام اُس شخص کو مکے واپس بہیجنے کے پابند ہوں گے لیکن اگر اِس دس سالہ مُدت کے دوران مدینے سے کوئی شخص مدینے سے بھاگ کر مکے آۓ گا تو اہل مکہ اُس کو مکے سے مدینے واپس بہیجنے کے پابند نہیں ہوں گے ، یہ تھی ریاستِ مدینہ اور شہرِ مکہ کی اپنی اپنی وہ سیاسی حکمتِ عملی جس نے اہلِ مکہ کو دس سال تک موت کی نیند سُلا دیا تھا اور اہلِ مدینہ کو دس برس کے شب و روز کی حرکت و عمل کے لیۓ پُوری طرح جگا دیا تھا جس کے نیجے میں اہلِ ایمان کو عملی فتح ملنے سے پہلے ملنے والی یہی وہ عقلی فتح تھی جو 10 مارچ 627 ء کو شروع ہونے والی جنگِ احزاب اور 13 مارچ 628 ء کے معاہدہِ حدیبیہ کے کُچھ ہی عرصے بعد 8 جنوری 630 ء کو فتحِ مکہ کی صورت میں حاصل ہوئی تھی اور یہی وہ فتحِ عظیم تھی جس فتحِ عظیم کے لیۓ محمد علیہ السلام نے وہ دیر پا حکمتِ عملی ترتیب دی تھی جو اہلِ ایمان کی ایک دائمی کامرانی پر مُنتج ہوئی تھی ، اٰیاتِ بالا میں اہلِ ایمان کی جس بیعت کا ذکر ہوا ہے وہ وہی بیعت ہے جس کا اِس سے قبل اِس سُورت کی اٰیت 10 میں ایک نفسِ واقعہ کے طور پر ذکر ہوا ہے اور اُس کے بعد اِن اٰیات میں ایک وقتِ واقعہ کے طور پر ذکر ہوا ہے اور اِن اٰیات میں بیان کیۓ گۓ اِس واقعت میں جس شجرہ کا ذکر ہوا ہے اُس شجرہ سے بھی حدیبیہ کا وہ زمینی درخت مُراد نہیں ہے جس زمینی درخت کے پھل سے انسان اپنی بُھوک مٹاتے ہیں اور جس درخت کے ساۓ میں تھکے ہارے اور دُھوپ کے مارے ہوۓ انسان کُچھ دیر کے لئے سَستانے کے لیۓ بیٹھ جاتے ہیں اور حدیبیہ کے مقام پر اتنے بڑے کسی درخت کی کوئی تاریخی شہادت بھی موجُود نہیں ہے کہ جس کے ساۓ میں 1400انسان بیٹھ سکتے ہوں اور قُرآنِ کریم میں اِس شجر کے اِس ذکرِ خاص کی کوئی وجہِ خاص بھی نہیں ہے سواۓ اِس ایک عقلی وجہ کے کہ شجر کا ایک قُرآنی مفہوم کہکشاں بھی ہوتا ہے جو زمین سے آسمان کی طرف دیکھنے والے انسان کو ایک شاخ دَر شاخ گھنے درخت کی طرح آسمان میں پھیلی ہوئی نظر آتی ہے اور قُرآن نے اس شجر نما کاہکشاں کا سُورَہِ رحمٰن کی اٰیت 6 میں جُھکے ہوۓ نجوم کے ساتھ جو ذکر کیا ہے ، بہر حال اِس اٰیت میں اِس شجر کے اِس ذکر کی یہ حکمت تو انسان کے لیۓ قابلِ فہم ہے کہ اِس میں اللہ تعالٰی کا یہ فرمانِ حکمت موجُود ہے کہ اَصحابِ محمد جس طرح دن کے پُورے اُجالے میں محمد علیہ السلام کے پاس پاس رہتے تھے اسی طرح وہ شب کے ادھُورے اُجالے میں بھی محمد علیہ السلام کے آس پاس ہی رہتے تھے اور اُن کی موجُود گی میں دن کے کسی اُجلے لَمحے یا شب کے کسی تاریک لحظے میں محمد علیہ السلام کی ذاتِ گرامی کو دشمن کے کسی حملے کا کوئی خطرہ نہیں تھا بخلاف اِس کے جنگ کے اُس جنگی ماحول میں ایک درخت کی موجُودگی کا ذکر کسی افادیت کی حامل نہیں تھا اور جنگ کا ماحول گزرنے کے بعد بھی اِس کی کوئی اہمیت نہیں ہو سکتی تھی سواۓ اِس کے آثار پرست انسانوں کے لیۓ حجر پرستی کے اُس دور میں شجر پرستی کی بھی ایک ایسی روایت قائم ہو جاتی ہے جس کی روک تھام کے لیۓ قُرآن نازل ہوا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا میں ہم نے لفظِ شجرة سے زمینی شجر کے بجاۓ آسمان کا وہ تاروں بھرا کاہکشانی شجر مُراد لیا ہے جس کا سُورَہِ رحمٰن کی اٰیت 6 میں ذکر ہوا ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558648 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More