پسوڑی سرحد پار۔۔۔۔۔ کوک اسٹوڈیو کا نفرتوں کی دیوار گرانے میں ایک اہم کردار!

image
 
" آگ لاواں مجبوری نوں۔۔۔۔آن جان دے پسوڑی نوں۔۔۔" گانے نے اسے اپنے سحر میں لپیٹ لیا تھا۔ اس کی شدید خواہش تھی کہ وہ ان سنگرز سے ملے اور ان سے شکایت کرے کہ انھوں نے یہ گانا اتنا چھوٹے دورانیہ کا کیوں بنایا۔۔۔ یہ گانا تو اسکی روح کی غذا بنتا جا رہا ہے ۔ جسے وہ اپنے آفس آتے جاتے ڈرائیونگ کے دوران سننے کی عادی ہو چکی ہے گانا ایک نشہ ہے جو شروع ہوتے ہی آپ کی ساری تھکن کو دور کر دیتا ہے۔ جب شروع میں وہ یہ گانا سنتی تھی تو اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے تھے۔۔۔۔۔ گیتا دہلی کی رہنے والی تھی ۔سیاستدانوں کی مہربانیو ں سے پاکستان کے لئے اس کے دل میں کبھی نرم گوشہ نہیں رہا تھا لیکن جب سے اس نے پاکستانی موسیقی کا پروگرام کوک اسٹوڈیو سننا شروع کیا تھا اس کے جذبات کروٹ بدلنا شروع ہو گئے اب اس کے خیال میں ہم ایک ہی تو ہیں تو یہ دیواریں کیسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
 نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مقبول ہونے والا پروگرام کوک اسٹوڈیو ایک پاکستانی ٹیلی ویژن پروگرام اور بین الاقوامی میوزک فرنچائز ہے جس میں پرانے اور ابھرتے ہوئے فنکاروں کی جانب سے اسٹوڈیو میں ریکارڈ شدہ میوزک پرفارمنس پیش کی جاتی ہے۔ یہ پاکستان میں سب سے طویل عرصے تک چلنے والا سالانہ ٹیلی ویژن میوزک شو ہے، جو 2008 سے ہر سال چل رہا ہے۔ اس کی خاصیت یہ ہے کہ کوک اسٹوڈیو روایتی کلاسیکی، لوک، صوفی، قوالی، غزل اور بھنگڑا موسیقی سے لے کر عصری ہپ ہاپ، راک اور پاپ موسیقی تک متعدد موسیقی کو یکجا کرتا ہے۔ یہ شو مختلف خطوں اور مختلف زبانوں کے فنکاروں کو موسیقی کے لیے مدعو کر کے پاکستان کی کثیر الثقافتی کو فروغ دینے کے لیے مشہور ہے۔
 
 Vital signs بینڈ کے روحیل حیات نے اس حیران کن موسیقی کا سفر شروع کیا، جس میں فیوژن اور انتخابی عمل کا تجربہ کیا۔ اس نے پاکستان کی روایتی جادوئی آوازوں کو الیکٹرانک منظر نامے میں ملانے کے بعد ایک نیا رخ دیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ خیال یہ تھا کہ ہم اپنی روایتی موسیقی کو دنیا کے ساتھ شیئر کریں، لیکن ایک متاثر کن آواز اور انداز کے ساتھ۔۔۔
 
حیات کا کہنا ہے کہ انہیں کافی شکوک و شبہات اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا اور 2008 میں ریلیز ہونے والے پہلے سیزن میں انہیں "ایک تجربہ" کے طور پر صرف تین سے چار گانے کرنے کی اجازت دی گئی ،لیکن وہ گانے سب سے زیادہ مقبول ہوئے۔
 
image
 
ایک دہائی سے زیادہ عرصے بعد، کوک اسٹوڈیو پاکستان اور دنیا بھر کے لاکھوں مداحوں کا مرکز نگاہ بنتا جا رہا ہے۔ ہندوستان اور بنگلہ دیش دونوں کے پاس اب اپنے اپنے ورژن ہیں، لیکن پاکستان کے گانے اپنے منفرد انداز کی وجہ سے سب سے زیادہ مقبول ہو رہے ہیں ۔
 
 اس پروگرام کے پرستار ایک ہندوستانی شائق Saket Rajکا کہنا ہے کہ سرحد کے پار ایک چیز جو ہندوستان پاکستان کو جوڑتی ہے وہ ہے ۔۔۔۔ موسیقی۔ اب تک لاتعداد کمنٹس اس پروگرام اور گانے کی تعریف میں کئے جا چکے ہیں جو پاکستان کے لئے ایک بڑا اعزاز ہے ۔ایک قوم کے طور پر ہمیں امن کے فروغ کے لئے اس طرح کے اقدام کو فروغ دینا چاہئے۔
 
کوک اسٹوڈیو نے پاکستان کی تمام موسیقی - پاپ سے لے کر قوالی تک سب کو ایک پلیٹ فارم پر ڈال دیا ہے اس شو کے چار سیزن تیار کرنے والے پاکستانی پاپ بینڈ سٹرنگس کے مرکزی گلوکار فیصل کپاڈیا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی نئے پروڈیوسر کمان سنبھالتے ہیں تو وہ موسیقی کو اپنا الگ الگ ٹچ دیتے ہیں۔ ہر سیزن میں آپ کو ایک الگ ذائقہ ملتا ہے۔چنانچہ جہاں حیات نے مقامی میوزک کا ویسٹرن میوزک سے امتزاج کیا ، کپاڈیہ نے صوفی بزرگ امیر خسرو کی روایتی شاعری کے ساتھ ساتھ پاپ راک کے ساتھ جو ان کے بینڈ اور کلاسیکی فلمی موسیقی کے انداز تھے، پر بہت زیادہ توجہ دی۔یہی اس پروگرام کی خوبی ہے کہ پروڈیوسر بدلنے کا تجربہ کچھ جیمز بانڈ فلموں کی طرح ہے۔ جس میں اداکار بدلتا ہے، موضوع وہی رہتا ہے لیکن فلم کا انداز بدل جاتا ہے ۔
 
شو میں شرکت کرنے والی پاکستانی گلوکارہ زیب بنگش کا کہنا ہے کہ بھارت میں اس کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہندوستانی ،فیوژن میوزک کے لیے کوئی اجنبی نہیں ہیں۔ آپ [بھارتی میوزک ڈائریکٹر] آر ڈی برمن کے بنائے ہوئے گانوں کو دیکھیں - وہ مسلسل جاز اور افرو بیٹس، کا اپنی روایتی موسیقی سے امتزاج کرتے رہے ۔ کوک اسٹوڈیو نے بھی مقامی، لوکل، موسیقی کی روایات کو اپنایا اور بہت خوبصورت امتزاج کا مظاہرہ کیا ،جیسا کہ پہلے یہاں کبھی نہیں ہوا۔
 
image
 
ہندوستانی فلم انڈسٹری دنیا کی ایک بڑی انڈسٹری ہے جو ہر وقت کچھ نئے کی تلاش میں رہتی ہے ۔ پاکستان کے موسیقار، اداکار گاہے بگاہے بھارت میں اپنے ہنر کے جھنڈے گاڑتے نظر آتے ہیں ۔ یہ سلسلہ پارٹیشن کے بعد سے آج تک جاری ہے ۔ فنکار کی تو کوئی سرحد نہیں ہوتی یہ ایک مثبت سفیر کے طور پر کام کرتے ہیں ۔
 
شو کی کامیابی منفی سیاسی حالات میں بھی میوزیکل ثقافتوں کی پروان چڑھنے کی ایک دلکش مثال ہے۔ پاکستانی موسیقی کی اپنی ایک پہچان ہے جو بھارت کے انداز سے مختلف ہے ۔ دونوں ممالک کے فنکاروں کو ایک دوسرے کے ممالک کے لئے کام کرنا چاہئے تبھی تو ہم کسی نئی جدت سے لطف اندوز ہو سکیں گے ۔ ٹیلنٹ تو کہیں بھی پایا جا سکتا ہے اصل اس ٹیلنٹ کو پھلنے پھولنے دینا چاہئے۔
 
image
 
image
 
image
 
image
YOU MAY ALSO LIKE: