تحریر:محمداحمد ترازی
" />

نعت " آیات ِ نعت" اور عزیز الدین خاکی

نعت " آیات ِ نعت" اور عزیز الدین خاکی
تحریر:محمداحمد ترازی
نعت " آیات ِ نعت" اور عزیز الدین خاکی
تحریر:محمداحمد ترازی
ذاتِ رسالت مآب ﷺ سے محبت و اظہار عقیدت کے اظہار کاادب میں ایک ذریعہ نعت گوئی بھی ہے۔باالفاظ دیگرنبی کریم ﷺکی ذات و صفات کے منظوم اظہار کا نام نعت ہے۔بادی النظر میں یہ بہت آسان ہے لیکن حقیقتاً بہت مشکل اور نازک ہے۔ سہل اِس اعتبار سے کہ سرکار دوعالمﷺ سے خلوص و محبت کے نتیجے میں وقوع پزیز ہونے والے جذبات و احساسات کو شاعر کسی بھی صنف ِشاعری میں نظم کرسکتا ہے لیکن نازک اور مشکل اِس لحاظ سے ہے کہ شاعر کو تخلیقی عمل کی تکمیل تک بہت محتاط رہنا پڑتا ہے کیوں کہ خالق کائنات کی حمد و ثناء ہو یا مدحت رسول ﷺ،دونوں ہی اصناف سخن مسلمانوں کے نزدیک عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔
نعت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی وصف و خوبی اور تعریف و توصیف کے ہیں۔ لیکن عُرفِ عام میں نعت، رسول اللہﷺ کی ثناءوستایش اور تعریف و توصیف بیان کرنے والی منظومات کو کہا جاتا ہے۔ یوں تو نعت کا لفظ مستقل ایک موضوع یا مضمون کا احاطہ کرتا ہے اور جب یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو وہ تمام خزائن اور ذخائر مراد ہوتے ہیں جو حضور رحمتِ عالم ﷺکے فضائل و مناقب، شمائل و خصائل، اخلاق و کردار، تعریف و توصیف اور مدح و ثنا پر مشتمل ہوتے ہیں۔ چاہے وہ نظمی ہوں یا نثری۔البتہ بعض شارحینِ حدیث نے اپنی تحریروں میں نعت کو مطلق وصف کی عمومیت سے نکال کر اِسے آپ ﷺ کی تعریف و توصیف سے وابستہ کیا ہے اور اِسے ایک خاص مفہوم کا حامل ٹھہرایا ہے۔نعت کے لئے کوئی مخصوص ہیئت مقرر نہیں ہے۔یہ کسی بھی صنف سخن کی ہیئت میں لکھی جا سکتی ہے۔یہ صنف سخن قصیدہ اور مثنوی بھی اورغزل،قطعہ،رباعی یا کوئی اور صنف سخن بھی ہوسکتی ہے۔
جس طرح دیگر اصنافِ سخن میں قصیدہ، مثنوی، رباعی، غزل وغیرہ کا اپنا ایک منفرد اور جداگانہ مقام ہے۔ اُسی طرح نعت بھی اپنے اصول و ضوابط کے اعتبار سے ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔نعت نگار کو اپنا شہبازِ فکر بڑے ہی ہوش و خرد کے ساتھ اس پُر خطر وادی میں پرواز کرنا پڑتا ہے۔ اگر اُس سے اِس راہ میں ذرہ بھر بھی لغزش اور کوتاہی ہو جائے تو ایمان و اسلام اور دین و مذہب دونوں خطرے میں پڑ جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ نعت کے میدان میں آہستگی کے ساتھ نہایت سنبھل کر حزم و احتیاط کے دامن کو تھامے ہوئے قدم رکھنا ضروری ہے۔ اکثر نعت گو شعراء نے اِس پُر خطر وادی میں بڑے ہوش و حواس کے ساتھ قدم رکھا ہے۔ جن نعت گو شعرا نے اِس پُرخار وادی کے خطرات اور فنِ نعت کی اہمیت و عظمت، اُس کے مقام و مرتبہ اور تقدس کو محسوس کیا ہے اُن کے جذبات و احساسات کو مولانا احمد رضا بریلوی کےدرج خیالات کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے:
"حقیقتاً نعت شریف لکھنا نہایت مشکل ہے، جس کو لوگ آسان سمجھتے ہیں اِس میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے اگر بڑھتا ہے تو الوہیت میں پہونچ جاتا ہے اور کمی کرتا ہے تو تنقیص ہوتی ہے البتہ حمد آسان ہے کہ اِس میں راستہ صاف ہے جتنا چاہے بڑھ سکتا ہے، غرض ایک جانب اصلا حد نہیں اور نعت شریف میں دونوں جانب سخت پابندی ہے۔ "(مصطفیٰ رضا نوری بریلوی، علامہ:الملفوظ، مطبوعہ کانپور، ص144/145)
مذکورہ بالا فکر انگیز، پاکیزہ خیالات سے یہ اَمر واضح ہو جا تا ہے کہ ایسی ارفع و اعلیٰ ذات کو جب شاعر اپنی شاعری کا موضوع بناتا ہے تو اسے کن سنگلاخ وادیوں سے گذرنا پڑے گا اور کس قدر قیود و آداب اُس کے عنان گیر رہیں گے، لہٰذا نعت گوئی ہماری شاعری میں سب سے زیادہ اہم اور دشوار گزار وہ موضوع ہے جو اِس خیال کو استحکام بخشتا ہے کہ جن حضرات کوسرورِ کائناتﷺسے دلی تعلق اور روحانی رابطہ ہو گا یقیناً وہی اِس پُر خار وادی میں قدم رکھ سکتے ہیں۔اِس لیے نعت گو شاعر پر اوزان و بحور ہی کی پابندیاں عائد نہیں ہوتی ہیں بل کہ اسلام اور شریعت کاپاس و لحاظ بھی لازمی ہے۔
نعت گوئی کا آغاز سب سے پہلے عربی زبان میں ہوا ۔پھرعربی سے فارسی ،اُردواور دیگر دوسری زبانوں میں منتقل ہوا۔اُردو شاعری کے تقریباً تمام ادوار میں شعرا ء نے نعت کو موضوع فکر بنایا۔جس کی وجہ سے دیگر زبانوں کی طرح اُردو شاعری کو بھی نعت گوئی میں ممتاز مقام حاصل ہے اور بہت سے شعراء نے اِس صنف میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی۔حضرت امیر خسرو،حضرت خواجہ بندہ نواز گیسودراز، قلی قطب شاہ،ولی دکنی،سراج اورنگ آبادی امیر مینائی اور محسن کاکوروی،ظفر علی خان،محمد علی جوہر،حفیظ جالندھری سے لے کر علامہ اقبال تک نے نعت نگاری میں نئے نئے مضامین کا اضافہ کیا۔اُس دور کےنعت گو شعراء میں یوں تو بہت سے نام ملتے ہیں لیکن شاہ نیاز بریلوی اوربیدم شاہ وارثی وغیرہ قابل ذکر ہیں مگر مولانا احمد رضا خان بریلوی بالخصوص اِس لیے قابل ذکر ہیں کہ آپ حضور اکرم ﷺ کی ذات و صفات اور حیات و سیرت کو کیفیت عشق سے ملا کرنعت کو ایک نیا اور جداگانہ رنگ عطا کرتے ہیں۔اِس کے علاوہ اُس دورمیں امجد حیدرآبادی،اکبر وارثی میرٹھی، سہیل اقبال، حفیظ جالندھری،بہزاد لکھنوی،احمد سہارنپوری اور ماہر القادری کے نام بھی نمایاں اور ممتاز ہیں۔
وقت کے ساتھ نعت گوئی کا منظر نامہ روز بروز وسیع ہوتا گیا اورجدید نعت قومی اور ملی تشخص کو اپنے احاطے میں لینے لگی۔ جدید نعت کا منظرنامہ فکر اور اظہار کی ندرت لیے ہوئے ہے۔ہر شعبۂ زندگی کے جملہ تقاضوں کے جمالیاتی اظہار نے بھی نعت کے موضوعات کو وسیع کیا ۔آج نئی لفظیات ، استعارات ، علامات ، تشبیہات اور تراکیب کی مدد سے شعرا ءاپنی تخلیقی فکر اور وارفتگی کا بھر پور اظہار کر رہے ہیں اور عقیدت و محبت کے نئے ذائقوں سے سرشار ہو رہے ہیں۔
گویاحضور اکرم ﷺ کی ذات و صفات کا احاطہ کرنے کے لئے ہر عہد کے شعراء نے اپنی ذہنی اور قلبی صلاحیتوں سے کام لیا اور اپنے عہد کے لحاظ سے اُس میں معنویت اور جدت پیدا کی۔جدید نعتیہ شاعری اِس حقیقت کی غماز ہے کہ سرکار دوعالمﷺ کی شان میں نعت کہتے ہوئے ایسا طرزِ اظہار اختیار کریں جو ہم عصر طرز احساس کی نمائندگی کرتا ہوا اور اُس میں جذبے اور فکر کی تازگی بھی بدرجہ اتم موجود ہو۔آج کی نعتیہ شاعری میں حالی اوراقبال کی لے بھی شامل ہے اور محسن کاکوروی اورمولانا احمد رضا خان بریلوی کی عشقیہ سرشاری بھی۔پھرجدید نعت میں موضوع و ہیئت کا تنوع بھی قابل ذکر ہے۔
اِن نعت گو شعراء کی ایک طویل فہرست میں ابوالا امتیاز ع س مسلم، احمد ندیم قاسمی ،ہلال جعفری، ابو الخیر کشفی، قمر رعینی،آفتاب کریمی ، محمد فیروز شاہ ، طاہر سلطانی ،اقبال نجمی ، مہر وجدانی، ریاض حسین زیدی ،رفیع الدین ذکی قریشی ،عزیز احسن ،حکیم سرو سہارنپوری،وقار صدیقی اجمیری،علیم ناصری، گوہر ملیسانی، خالد شفیق، قیصر نجفی ،خالد علیم ،عرش ہاشمی ،شیخ صدیق ظفر،آصف بشیر چشتی،شہزاد مجددی،قمر یزدانی،انور مسعود،توصیف تبسم،رشید امین،حافظ نو ر احمد قادری،طاہر صدیقی،سبطین شاہ جہانی،قمر وارثی ،علی احمد قمر،نسرین گل اوربالخصوص عزیزالدین خاکی سمیت متعدد شعراء نے نعت کے فروغ اور ترویج کے لیے مثالی کام کیا ہے۔اِن شعراءکا جدید تر لب ولہجے ، تخلیقیت و شعریت ،عقیدت و محبت اور عشقِ رسول ﷺ سے لبریز کلام اِس بات کا ثبوت ہے کہ جدید نعت عصری تقاضوں پر پورا اتر رہی ہے اور تعمیر وترقی کی نئی منزلیں بھی سر کر رہی ہے۔
عزیز الدین خاکی ہمارے عہد کے وہ نعت گو شاعر ہیں جن کی نعتیہ شاعری عقیدت و محبت اور عشق رسول ﷺ کی جھوم جھوم کرچوکھٹ چوم رہی ہے۔اُن کی نعتوں کی زبان نہایت سادہ،بیان دلکش اور محبت رسول ﷺ کے جذبے سے سرشار ہے۔اُنہوں نے اپنی نعتوں میں شمائل رسول ﷺ اور اُسوہ رسول ﷺ کے ساتھ مدینے کے دلکش مناظر کا اظہار بڑے خلوص سے کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُن کی نعتیں تاثیر سے لبریز اور دل و روح کی بالیدگی کا سبب ہیں۔
20 فروری 1966ء میں پکا قلعہ حیدر آباد سندھ میں پیدا ہونے والے عزیز الدین خاکی نے اپنی تعلیم وتربیت کراچی میں مکمل کی اور1980ء میں نعت خوانی سے آغازکیا۔ابتداء میں نعت خوانی کے ساتھ مضمون نگاری بھی کی جو اخبارات و رسائل کی زینت بنی۔کچھ نعتیہ انتخاب کے مجموعے "انوارِ مدینہ"،"نور الہدیٰ"، "مناقب ِ اولیاء"بھی شائع ہوئے۔چار نعتیہ آڈیو کیسٹس اور ایک نعتیہ ڈی وی ڈی وڈیو بنام "سرکار اپنا روضہ انور دکھائیے" مقبول عام ہوئی۔آپ نے 1986ء میں نعتیہ شاعری کا آغاز کیا اور معروف نعت گو شاعر محمد یامین وارثی سے ابتدائی اصلاح لی۔بعد ازاں حضرت بابا سیّد رفیق عزیزی یوسفی تاجی کے سامنے زانوئے ادب طے کیا۔
اب تک آپ کے چھ نعتیہ مجموعہ "ذکرِ خیرالورا"،"ذکرِ صلی علیٰ"،"نعمات ِ طیبات"،"بیّنات"، "آئینہ صلّ علیٰ" اور"آیاتِ نعت"اور ایک حمدیہ مجموعہ "الحمدللہ " بھی شائع ہوچکے ہیں۔اِس کے علاوہ آپ کی اپنی نعتوں کا انتخاب"فخرِ کون ومکاں"1999ء،خلفائے راشدین وصحابہ کرام،اہل بیت و اولیاء ومشائخ کے مناقب پر مشتمل "بستانِ مناقب"1999ء،یارسول اللہ ﷺ کی ردیف میں کہی گئی نعتوں کا انتخاب"حبیبی یارسول اللہ"1999ء میں سامنے آچکےہیں۔جبکہ ڈاکٹر شہزاد احمد کی مرتب کردہ"کلیات عزیز خاکی"2014ء میں کلیات اقبال اور کلیات غالب کے انداز میں چھوٹے سائز میں زیور طباعت سے آراستہ ہوچکی ہے۔عزیز الدین خاکی کے فکروفن اور نعتیہ شاعری کے حوالے سے "مقیاسِ خاکی"1996ء میں اورخان اختر ندیم کی "اعتراف" بھی سامنے آچکی ہیں۔عزیز الدین خاکی کو پاکستان کے مختلف اداروں اور انجمنوں کی جانب سے پچاس سے زائد اعزازات وانعامات سے بھی نوازا گیا ہے۔جبکہ آپ کی قائم کردہ "دنیائے نعت " لائبریری شعبہ نعت کے فروغ اور احیاء کے لیے ایک قابل تقلید کارنامہ ہے۔
"آیاتِ نعت"عزیز الدین خاکی کا چھٹا نعتیہ مجموعہ کلام ہے جو حال ہی میں شائع ہوا اور ہمارے پیش نظر ہے۔تنظیم استحکام نعت(ٹرسٹ) پاکستان ، کورنگی کے زیر اہتمام جلوہ افروز ہونے والے اِس نعتیہ مجموعہ میں ایک حمد،نوے نعتیں اور ایک تضمین برسلام اعلیٰ حضرت شامل ہیں۔جبکہ ڈاکٹر ریاض مجید کی" عزیز الدین خاکی نعت خوانی کے تناظر میں نعت نگاری کی عمدہ مثال"اور ڈاکٹر شہزاد احمد کی"عزیز الدین خاکی کی حمدیہ و نعتیہ خدمات"کے عنوانات سے گراں قدر علمی تحاریر بھی "آیات نعت "کی زینت ہیں۔
"آیات نعت "کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عزیز الدین خاکی کےیہاں حضور اکرم ﷺ کی تعظیم وتکریم اور آپ ﷺ کی ذات ِمبارکہ سے عشق ومحبت کی شمع درخشاں اور تاباں ہے۔اُن کے یہاں حضورﷺ سے والہانہ اظہار کے ساتھ اِس اظہار میں وجدانی کیفیت کی سرشاری بھی نظر آتی ہے۔"آیات نعت" کے نعتیہ مجموعہ میں جابجا ایسے اشعار بھی ملتے ہیں جو رسالت پراُن کے غیر متزلزل ایمان ویقین اور کوچہ رسول ﷺ سے والہانہ مودّت و ارادت اور آپ ﷺ کی عقیدت کی بیّن دلیل ہیں۔جیسے ؎
دست بستہ چشم نم سے حاضری دے آئے ہیں
اِس طرح ہم نے کیا آقا کے گھر کا احترام
اُن کے کوچے کا ادب ہے لازمی کرتے رہو
گبندومینار کا اور بام و در کا احترام
اُنہوں نے اپنی نعتوں میں مکمل احتیاط سے کام لیا ہے اور مبالغے و غلو سے دامن بچایا ہےاور اپنے اظہار میں عبد اور معبود کے فرق کو مدنظر رکھتے ہوئے نہایت سلیقے سے نعتیہ اشعار کہتے ہیں۔اُن کی نعتیہ شاعری میں عقیدت آفریں جذبات کی فراوانی اور خیالات کی روانی کے ساتھ ساتھ مضامین کا تنوع بھی پایا جاتا ہے جو بلاشبہ اُن کی نعت گوئی کی قدرت پر دلالت کرتا ہے۔جس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں ؎
حق تعالیٰ ہی نے بخشا نعت کہنے کا شعور
ورنہ میری کیا حقیقت اور میرا کیا شعور
لاکھ الفاظِ چنیدہ سے کہی نعت نبی
پھر بھی خاکی اِس چمن میں خاک ہی ٹھہرا شعور
"آیات نعت" کے چند مزید نعتیہ اشعار بھی ملاحظہ فرمائیے ۔
سب جہاں کی رونقیں مدھم ہیں جس کے سامنے
آپ کے دربار کی وہ زیب وزینت ہے کہ بس
رحمۃ للعالمیں ہیں کہ آپ سا کوئی نہیں
آپ کی ہم عاصیوں پر ایسی رحمت ہے کہ بس
---
اُن کی خوشبو جابجا ہے،کیا زمیں کیا آسماں
مدحت خیرالورا ہے،کیا زمیں کیا آسماں
ہرزمانہ ہے اُنہی کا ،ہے اُنہی کی ہر صدی
اُن کا سکّہ چل رہا ہے،کیا زمیں کیا آسماں
---
عزیز الدین خاکی ایک ایسے نعت گو شاعر ہیں جو حضور اکرم ﷺ کا سراپا ہی بیان نہیں کرتے بلکہ وہ اِس بات کا بھی برملا اظہار کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کی سیرت کی تعلیم ہمارا اوّلین فریضہ اور ہماری نجات کا ذریعہ ہے ۔وہ اِس بات کو بیان کرنے کے لیے مختلف پیرائے اختیار کرتے ہیں۔جیسے ؎
جنہیں غلامی خیرالبشر ﷺمیسر ہے
اُنہیں کبھی نہیں رہتا ہے خسروی کا جنوں
ہمیشہ پیش نظر اُسوہ حضورﷺ رہے
میں دل میں رکھتا ہوں ایسی ہی زندگی کا جنوں
---
مرے حضور کے صدقے کلام پاک میں بھی
خدا نے بھیجی ہے آیت درود پاک پڑھو
یہی ہے نسخہ کامل نبی کی قربت کا
اسی سے ہوگی زیارت درود پاک پڑھو
درحقیقت عزیز الدین خاکی اُن خوش نصیب لوگوں میں شامل ہیں جنہیں بیک وقت نعت خواں اور نعت گو ہونے کا شرف حاصل ہے۔آج دنیائے نعت میں وہ انہی دونوں حوالوں سے پہچانے جاتے ہیں۔جذبہ فروغ نعت سے سرشار عزیز الدین خاکی نے نعتیہ ادب میں قابل ذکر خدمات انجام دی ہیں۔ڈاکٹر سیّد رفیع الدین اشفاق(ناگپور،بھارت) اُن کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:"جب صاحبِ ایمان حُب رسول ﷺ سے سرشار ہوکر اپنے جذبات کا اظہار صوتی انداز میں کرتا ہے تو ہم اِسے نعت خوانی کہتے ہیں اور جب یہی اظہار حرف و نقوش کے ذریعے قرطاس پر ہوتا ہے تو ہم اِسے نعت گوئی کہتے ہیں حالانکہ اصل میں دونوں ایک ہی ہے۔اِس لحاظ سے خاکی کو اللہ تعالیٰ نے دونوں فضلتوں سے نوازا ہے۔جہاں اُن کے اشعار دلوں کو حُب رسول ﷺ کے جذبے سے سرشار کردیتے ہیں وہیں اُن کے مجموعوں کی طباعت کی زیب وزینت اِن مجموعوں کے ظاہری حسن کو جاذب نظر بنادیتی ہے۔پاکستان میں نعت کے تعلق سے اِس نوع کے کارناموں کو دیکھ کر ہمارا یقین پختہ ہوتا جاتا ہے کہ نعت کا مستقبل درخشاں ہے۔"
ڈاکٹر ریاض مجید لکھتے ہیں کہ:"نعت کے حالیہ منظر نامے میں خاکی صاحب ہمارے نعت خوانوں سے بہت مختلف ہیں۔۔۔مختلف اِس لیے کہ نعت نگاری کی منزل اُن کے پیش نظر ہے ،اُنہوں نے یہ سارے مرحلے درجہ بہ درجہ نہیں ،بہ یک قدم طے کیے ہوئے ہیں۔اُن کے کئی نعتیہ مجموعے اُن کی نعت گوئی کو وہ مبارک تسلسل عطا کرتے ہیں جو ہمارے کئی نعت خوانوں کو حاصل نہیں۔۔۔اِس اعتبار سے خاکی صاحب منفرد ہیں کہ اُنہوں نے نعت کے فکروفن پر اب تک جو محنت کی ہے وہ فنّی طور اُنہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔۔۔اُن کی نعت معاصر نعت خوانوں میں اسی سبب نمایاں ہے کہ اُنہوں نے نہ صرف نعت خوانی کے ساتھ نعت نگاری کے تقاضوں کا ادب و احترام ملحوظ رکھا بلکہ اپنی ہر تازہ کتاب ِ نعت میں زیادہ فنّی مہارت کا ثبوت دیا۔"
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے عہد میں نعت میں خیال و فکر کی عزیز الدین خاکی کی طرح کئی نئی شمعیں روشن ہوئی ہیں۔ خاکی سمیت دیگر نعت گو شعراء کے متواتر شائع ہونے والے نعتیہ مجموعے اِس بات کے گواہ ہیں کہ جدید روایات کے یہ سفیر موضوعات،الفاظ،تراکیب اور تشبیہات کا نیا نظام قائم کرکے نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔اوردور حاضر میں بھی اکیسویں صدی کے تناظر میں اُردو نعت گوئی بدلتے ہوئے فکری رجحانات اور میلانات کی بھر پور عکاسی کر رہی ہے۔اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے عہد کی نعت نگاری جدید عصری حسیت کی آئینہ دار ہے۔نعت گوئی کا یہ ذوق نئی نسل کے شعرا ءمیں بھی پروان چڑھ رہا ہے اور وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ نعت گوئی کا مستقبل روشن اور تابناک ہے۔


M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 358005 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More