ناول ’رگِ جاں‘۔۔ گل بانو
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
ناول ’رگِ جاں‘۔۔ گل بانو ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی اصنافِ اردو میں ناول کی صنف قدیم اور مقبول ہے۔ ناول نے قصہ گوئی اور کہانی کاری سے جنم لیا۔ بنیادی طور پر ناول کہانی ہی ہوتا ہے۔ اسے داستان کی جدید قسم بھی کہا گیا ہے۔ناول عام طور پر انسان کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات، حادثات، اچھے برے تجربات، غمی اور خوشی کی باتوں پر مبنی کہانی کو قاری کے لیے دلچسپ، ادبی اور اس کی توجہ کو برقرار رکھنے کے لیے کہانی کا پلاٹ، کردار، جگہ، کرداروں کی زبان سے ادا کیے گئے الفاظ اور جملے ناول کو قاری کے لیے دلچسپ بناتے ہیں۔اردو کے پہلے ناول نگار شمس العلماء مولودی نذیر احمد دہلوی کو تسلیم کیا گیا۔ ان کا ناول ”مراۃ العروس“ 1869ء میں لکھا گیا۔ اس ناول میں دہلی کے مسلمانو گھرانوں کا مفصل حال بیان ہوا ہے۔ ناول کا بنیادی مقصد اصلاح اور کردار نگاری ہے۔ناول صدی سے زیادہ کا سفر طے کرچکا ہے۔ اس طویل دور میں معروف ناول نگار سامنے آئے اور ان کے تخلیق کردہ ناولوں کو ناول سے دلچسپی رکھنے والے قارئین نے پسند بھی کیا۔ وقت اور حالات انسانی زندگی پر اثر انداز ہوئے اور اس کی ترجیحات میں بھی فرق آیا، ان بدلتے حالات اور واقعات کا اثر ناول نگاروں پر بھی ہوا، انہوں نے محسوس کیا کہ اب قاری اختصار کا خواہشمند، وہ ضخیم افسانے اور ناول پڑھنے سے گریزاں ہے، یا اس کے پاس اب اتنا وقت نہیں، ناول میں اس کی دلچسپی کم ہوگئی ہے۔ چنانچہ ناولوں کو ناولچہ اور افسانوں کو افسانچہ، کہانی کو سو لفظوں کی کہانی نے فروغ پایا، اس کے باوجود ناول اور افسانوں کی اہمیت اپنی جگہ قائم رہی۔ افسانے اور ناول لکھے جارہے ہیں، پڑھنے والے پڑھ رہے ہیں۔ ’ناول رگِ جاں‘ عہد رواں کی قلم کار گل بانوکی تخلیق ہے۔ گل بانوافسانہ نگار ہیں، ناول نگار اور فکاہیہ مضامین بھی تحریر کرتی ہیں، یقینا شاعرہ بھی ہوں گے۔ گل بانو سے میرا ادبی تعلق عروس البلاد کراچی ’فیس بک‘ کے احباب خاص طور پر ’اس دشت میں اِک شہر تھا: کراچی کے سنہرے دنوں کی داستان ‘کے مصنف اقبال اے رحمن کی جانب سے منعقد کی گئی ذاہد علی خان صاحب کے دولت کدہ پر منعقدہ ادبی نشست میں ہوا، اس کے بعد شاہ محی الحق فاروقی اکیڈمی میں منعقد ہونے والی ادبی نشست میں ملاقات رہی، اس طرح ادبی تعلق قائم ہوا۔ انہوں نے ازراہ عنایت اپنا ناول کافی عرصہ قبل میرے ایک مہر باں کے توسط سے مجھے بھیجا، شاید وہ میرے کتابوں کے ذخیرہ میں دب گیا، چند روز قبل گل بانو سے شاہ محی الحق فاروقی اکیڈمی میں ایک ادبی تقریب میں ان سے پھر ملاقات ہوئی، ناول کا ذکر آیا، میں نے معزرت کی اتنے دن گزرگئے ناول پر اظہاریہ نہیں لکھ سکا، انہوں نے پھر سے ایک کاپی عنایت فرمائی۔ میں اکثر احباب سے معزرت ہی کیا کرتا ہوں، وقت کم مقابلہ سخت، کئی کتابیں میری منتظر رہتی ہیں کہ میں کتاب تحفہ میں دینے والے مہرباں کا حق اس پر اپنی رائے کا اظہار کر کے ادا کردوں اور کرتا بھی ہوں۔بقول منیر نیازی۔ ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو ہمیشہ دیر کردیتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ ناول رگِ جاں در اصل قیام پاکستان سے قبل اور بعد کے حالات اور واقعات پر مشتمل ناول ہے۔ جس میں اس دور میں ہونے والے واقعات، حادثات کو الگ الگ باب کے تحت قلم بند کیا گیا ہے۔ ناول کا اسلوب سادہ اور عام فہم ہے۔، ہندو اور مسلمانوں کے درمیان تعلق، اخلاص و محبت کی باتوں کو خوبصورت الفاظ میں بیان کیا گیا۔ ناول کا بنیادی کردار ایک مرد ہے جب کہ یہ ناول صنفِ نازک کے ہاتھوں قرطاس پر منتقل ہوا ہے۔ نام ممتاز صدیقی ہے وہ ’ممتے‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ناول میں ممتے کے حالات، واقعات، آپ بیتی اور جگ بیتی کو خوبصورتی سے قلم بند کیا گیا ہے۔ ہندوستان کے معروف شہر دلی (دہلی) کے قرول باغ کی گلی نمبر19سے کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔ بقول سلمان صدیقی ”یہ ایک ایسے شخص کی داستان ِ حیات ہے جس نے تقسیم ہند کے نتیجے میں برپا ہونے والی شورش کو شعور کی آنکھ سے دیکھا، ایک مثالی اور پر سکون سماج کو ٹوٹتے، بکھرتے اور محبت و انسانیت کی ڈور میں بندھے کرداروں کو خاک و خون میں غلطاں ہوتے بھی دیکھا“۔ ناول کل 33ابواب پر مشتمل ہے۔ناول نگار کا اسلوب بیان عام فہم اور سادہ ہے۔ گل بانوں نے فکاہیہ مضامین بھی لکھے۔ اس ناول کی سب سے اہم اور منفرد بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ ایک خاتون نے ایک مرد کی نفسیات، اس کے احساسات و جذبات، سوچنے کے انداز اور مردانہ واردات قلبی کو قرطاس پر خوبصورت انداز سے منتقل کیا ہے۔ مصنفہ نے اپنے پیش لفظ میں بھی تحریر کیا ہے کہ اس ناول کی نوعیت واقعاتی ہے، یہ ایک آپ بیتی ہی نہیں، جگ بیتی بھی ہے جو’قرول باغ‘ دہلی سے شروع ہوئی، پاکستان پہنچ کر کروٹ لی اور امریکہ میں اختتام پزیر ہوئی۔ اولین باب ”قرول باغ“ ہے۔ جس میں ناول کے مرکزی کردار نے قرول باغ میں اپنی رہائش کی تفصیل بیان کیا ہے۔ ممتے کے مطابق ”یہ کل کی سی بات لگی ہے۔ جب ہماری رہائش قرول باغ گلی نمبر 19۔یہ نئی بستی تھی۔ جو نئی دلی کو پرانی دلی سے باہم ملاتی تھی۔ شمارنیو دلی میں ہوتا تھا۔ ہمارے گھر کا محل وقوع ایسا تھا۔ کہ سامنے گُردوارہ سڑک تھی اور تین اطراف سے کارنر تھا جو گلی19 اور 20 کے بیچ میں پڑتا تھا۔ گلی نمبر20سے آنا جانا رہتا تھا“۔ تقسیم ہند کے عنوان سے 1940ء کی تاریخ، دوسری عالمی جنگ، علیحدگی کی تحریک، جلسے جلوس، ہڑتالوں اور ہند مسلم فسادات کا ذکرہے۔ یہ ہندوستان کی مختصر تاریخ ہے۔ ناول کے مرکزی کردار ممتے جس گھر میں رہا کرتے تھے اسے حویلی کہا ہے۔ حویلی اور اپنے والد صاحب جو کہ پروفیسر صاحب کے نام سے جانے جاتے تھے کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک باب میں ممتے نے اپنے جدِ امجد مولانا شفیع محمد کے حوالے سے مختصر حالات لکھے ہیں۔ شنو نام کی ایک لڑکی ممتے کے گھر کے مقابل ایک سکھ خاندان رہائش رکھتا تھا اس خاندانی کی بیٹی شنو جس کا نام شکنتلا تھا رہائش پزیر تھی۔س باب میں شنو اور اس کے خاندان کا ذکر ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور ڈاکٹر ذاکر حسین کا ذکرکیا گیا ہے۔ موہنی‘ کے عنوان سے ایک باب ہے۔ موہنی ممتے کی گلی میں رہتی تھی اس کا تعلق اونچی ذات کے ہندو خاندان سے تھا۔ یہاں موہنی سے کسی ہندو لڑکے عشق کی داستان ہے جو موہنی کے عشق میں دیوانہ ہوگیا تھا۔ سوختہ جاں‘کے عنوان سے بلو، امریتااور رنجیت کے درمیان ہونے والے مکالمے ہیں۔ بعد کا باب ’دلبر‘ میں بھی امریتا اور اس کی ہمجولیوں کے ساتھ خوشگوار لمحات، اسی میں بانسری ساز میتو کا ذکر بھی ہے۔ امریتا بانسری بجانا سیکھنا چاہتی ہے۔ دلبر کی ماں اور باپ کے درمیان بانسری ہی علیحدگی کا سبب بنی۔ جب امریتا بانسری سیکھنے کی بہت ضد کرتی ہے تو دلبر کہتا ہے ”چل تو پہلے میری ماں کا حال سن! میری ماں بہت حسین تھی۔ میرے بابا سے بانسری سیکھنے کی ضد کر کے آخر اس کی شادی ہوگئی‘۔ راجستھا ن میں اس گھر کا ذکر ہے جو مہاراجہ جے پور نے دلبر کے بابا کو تحفے میں دیا تھا۔ ’رگِ جاں‘ ایک باب بھی ہے جس میں آر ایس ایس کی دہشت کاریوں کا ذکر ہے، تقسیم برصغیر کے ابتدائی دنوں کی داستان ہے۔ ایک باب’ہجرت کا دکھ‘ ہے جس میں منقسم ہندوستان میں ہونے والے درد ناک واقعات اور ہجرت کی داستان بیان ہوئی ہے۔ موتی ہاری ہندوستان کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، موتی ہاری کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی گی ہے کہ یہاں موتیے کے باغات تھے۔ اس باب میں پھوپھی صا لحہ، پروفیسر محمد اسماعیل جو وحشی تخلص کیا کرتے تھے کا تذکرہ تفصیل سے ملتا ہے۔ اس کے علاوہ پانیوں کا سفر، پہلی منزل، سوامی نارئن، وادی ئ مالوف، عزم بہزاد جو شاعر تھے ان کا ایک شعر بھی نقل ہوا ہے۔عزم نے یہ شعر فون پر سنانے کی فرمائش کی، مصنف نے لکھا کہ عزم نے فون پر پہلا مصرع سنایا۔۔۔۔ پھر خاموشی چھا گئی۔ دوسرے مصرعے کی مہلت نہ ملی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی، ان کے بیٹے نے بتایا ابا ملک عدم سدھار گئے۔ عزم کا شعر دیکھئے عزم یہ ضبط کے آداب کہاں سے سیکھے تم تو ہر رنگ میں لگتے تھے بکھرنے والے دیگر ابواب میں اک نئے موڑپہ، کسک، خانہ آبادی، متابادل طریقہ علاج (ریکی)، دریچہ دل، دل ہی تو ہے، نہ سنگ وخشت، شوق آوارگی، میری ذات ذرہ بے نشاں، پاکستان کا مطلب کیا، ماہِ منیر، مرحلہ زیست، ایک سہانا خواب، سرد شام، گدازیت کے عنوان سے ابواب میں واقعات کو بیان کیا گیا۔ ناول نگار گل بانوقابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے ماضی کے اہم موضوع کو اپنے ناول کی بنیاد بنایا۔ آخر میں ثاقب لکھنوی کے معروف شعر پر ناول کا اختتام ہوا ہے۔ زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا ہم ہی سوگئے داستاں کہتے کہتے (7جون 2022ء) |