گیان واپی مسجد میں فوارے کی حقیقت اور شیولنگ کا فسانہ

گیان واپی کے نام نہاد شیولنگ میں بڑا انوکھا پن ہے۔ اس کے سبب وہ دوسروں سے مختلف ہے۔ مثلاً وہ فوارہ پتھر کے بجائے سیمنٹ سے بنا ہے ۔1824 میں سیمنٹ کی ایجاد ہوئی مگر اس سے قبل وہ عالم وجود میں آگیا کیونکہ سیمنٹ کی ایجاد تو بعد میں ہوئی لیکن اورنگ زیب عالمگیر کا انتقال1707 میں ہوگیا ۔ اب اس بہتان طرازی کو دیکھیں وہ ایک ایسے مندر کو توڑ کر117 قبل اس دنیا سے رخصت ہوئے جس میں سیمنٹ کا شیولنگ نصب تھا ۔ ایسا چمتکار تاریخ تو دور قصے کہانیوں میں بھی نہیں ہوتا۔ اس شیولنگ کے تعلق سے کچھ لوگ یہ سوال بھی کررہے ہیں کہ جس بادشاہ نے اتنا بڑا مندر توڑ دیا اس نے آخر شیولنگ کو کیوں چھوڑ دیا ؟ کیا انہیں پتہ تھا کہ ان کے انتقال کےتین سو سال بعد ایک ہندو ہردیہ سمراٹ سر زمینِ ہندپر نمودار ہو گا۔ وہ گجرات سے وارانسی جاکر اسے اپنا حلقۂ انتخاب بنائےگا اور اسے اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کرکے الیکشن جیتنے کے لیے شیولنگ کی ضرورت پڑے گی؟ اس مقصد کے لیے انہوں نے اگر ایسا کیا تھا تب تو ان کا تعلق مغلیہ خاندان کے بجائے سنگھ پریوارسے ہونا چا ہیے تھا لیکن ایسا دعویٰ تو اب تک کسی زعفرانی دانشور نے نہیں کیا ہے ؟ ذرائع ابلاغ فی الحال ایسے دلچسپ سوالات سے اٹا پڑا ہے۔

شیولنگ کے طور پر پیش کیے جانے والے فوارے کا سفید رنگ بھی اسے منفرد بنا دیتا ہے ۔ خود مجھے پچھلے دنوں سابق ہندو راشٹر نیپال جانے کا موقع ملا ۔ وہاں کا سب سے بڑا مندر پشو پتی ناتھ ہے۔ یہ شیوکا مندر ہے اس میں دن بھر ’اوم نمو شیوائے‘ کا جاپ ہوتا رہتا ہے۔ اس وسیع و عریض کمپلکس میں سیکڑوں شیولنگ مختلف مقامات پر نصب ہیں لیکن ایک حصہ تو مکمل طور پر اسی کے لیے مختص ہے جس میں بہت سارے شیولنگ ہیں لیکن ان سب کو کالے پتھر سے تراش کر بنایا گیا ہے ۔ ان میں کوئی ایک بھی سفید نہیں ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گیا واپی والا سفید کیوں ہے اور اس کے بیچ میں سوراخ کیوں ہے اس لیے کہ ایسا کوئی شیولنگ بھی مجھے نظر نہیں آیا۔ گیان واپی کے فوارے میں تو سلاخ ڈال کر بھی تصدیق کی گئی لیکن کون جانے اس کی گواہی عدالت میں پیش کی جائے گی یا نہیں؟ کیونکہ عدلیہ کے آنکھوں پر تو پٹی بندھی ہوتی ہے۔ وہ ہاتھوں سے ٹٹول کر وہی دیکھتا ہے جو کچھ اس کے سامنے لا کر پروسا جاتا ہے۔گیان واپی مسجد کے حوض کا استعمال کیا جانے والا حصہ پہلی منزل پر ہے اس طرح اوپر شیولنگ نصب کرنے کی روایت بھی کہیں اور نہیں ملتی اور مسلمانوں کو اپنی وضو گاہ کے اندر شیولنگ کی موجودگی پر اعتراض نہ ہونا اپنے آپ میں ایک حیرت کی بات ہے۔

وارانسی میں کاشی وشوناتھ مندر کے تعمیر نو کا سہرا وزیر اعظم نریندر مودی سے قبل رانی اہلیہ بائی ہولکر کے سر ہے ۔ انہوں نے جس وقت مندر بنوایا گیان واپی مسجد موجود تھی لیکن اس کے اندر موجود نام نہاد شیولنگ کا انہیں نہ پتہ چلا اور نہ خیال آیا ۔ وہ اگر مسجد کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتی تھیں تو شیولنگ کو ہی وہاں سے لے جاکراپنے مندر میں نصب کروا دیتیں ؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایک مہارانی موجودہ جمہوری حکمرانوں سے زیادہ روادار تھیں یا موجودہ رہنماوں کی انتخابی ضرورت نے انہیں اس نفرت انگیزی پر مجبور کردیا ہے؟ حیرت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مودی جی پر وارانسی کے مہنت راجندر تیاگی نے شاندار کاشی وشوناتھ کاریڈور کی تعمیر کی خاطر 287 شیولنگ توڑ نےکا الزام لگا دیا۔ تو کیا اپنے چہیتے لیڈ ر کا آنکھوں کے سامنے ایسا کرکے انہیں توڑ کر کوڑے میں پھینک دینا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن اور نگ زیب پر اس کا الزام لگا دینا درست ہے؟ یہ بھی تعجب کی بات ہے کہ ابھی حال میں کوریڈور پروجکٹ کی تعمیر کے دوران کئی چھوٹے موٹے مندروں کو زمین دوز کیا گیا لیکن گیان واپی مسجد کی جانب نظر اُٹھاکر نہیں دیکھا گیا ۔الٹا اس کاریڈور کی تعمیر کے سبب گیان واپی مسجد کھل کر سامنے آگئی کیونکہ اس کے سامنے کی غیر قانونی تعمیرات کو ہٹا دیا گیا۔ کاریڈور افتتاح کے دوران بھی نمازوں کا سلسلہ جاری و ساری رہا لیکن اب اچانک اس ہنگامہ کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟ ایسے بے شمار سوالات اچانک گردش میں آگئے ہیں ۔

وارانسی کی گیان واپی مسجد کے بجائے امریکہ کے سوامی نارائن مندر تنازع کو دیکھا جائے پتہ چلتا ہے مندروں کی تعمیر کیسے استحصال کیا جاتا ہے۔ یہ اگلے وقتوں کی بات نہیں حالیہ واقع ہے جس کی خبر تممام اخبارات میں چھپ چکی ہےیہ اور بات ہے کہ وزیر اعظم کو اس کا پتہ نہیں چلا اور انہوں نے میں امریکی انتظامیہ نے اس کی شکایت کرنے کی جرأت نہیں کی۔ ٹھیک ایک سال قبل ماہِ مئی میں امریکی ایف بی آئی کے اہلکاروں ، ہوم لینڈ سیکیورٹی اور امیگریشن کے افسران نے نیوجرسی کے نواحی علاقے رابنس ویل میں ہندوؤں کی سوامی نرائن مندر پر تفتیش کیلئے چھاپہ مارا کیونکہ وہاں پر امریکا کے سب سے بڑےزیر تعمیر مندر میں لیبر قوانین کی بے مثال دھجیاں اُڑائی جارہی تھیں ۔ مندر کی تعمیر میں کام کرنے والے مزدوروں نے حلفیہ بیان میں کہا کہ مندر کے حکام نے اُنہیں سبز باغ دکھاکر امریکہ میں لائے۔ 20 ڈالر فی گھنٹے کا وعدہ کرکے ملازمت پر رکھا۔ وقفہ وقفہ پر اُنہیں ڈزنی لینڈ اور دوسرے امیوزمنٹ پارکوں کی تفریح کرانے اور چار سٹار ہوٹل میں ہندوستانی باورچی کے ہاتھوں سے بنا ہوا لذیذ کھانا کھلا نے کی بات کہی لیکن جب وہ نیوجرسی پہنچے تو اس فریب کا پردہ فاش ہوگیا۔

سوامی نارائن مندر کے لیے کام کرنے والوں کی مزدوری 20 ڈالر کے بجائے ایک ڈالر فی گھنٹے کردی گئی اور کھانے کیلئے روزانہ دال اور چاول خود پکا کر کھانے اور فرش پر سونے کے لیے مجبور کیا گیا ۔وقتاً فوقتاً ان پر بھاری جرمانہ عائد کیا گیا اس کے علاوہ تعمیری کام کیلئے احتیاطی آلہ جات کی فراہمی کے لیے رقم بھی تنخواہ میں سے کاٹ دی گئی۔ محنت کشوں کا پیٹ کاٹ کر اس تنظیم نے وزیراعظم نریندر مودی کے انتخابی مہم کیلئے تقریباًتین لاکھ ڈالر بطور عطیہ پیش کردیا ۔ اس عنایت کے جواب میں مذکورہ تنظیم کے مذہبی رہنما پرامکھ سوامی مہاراج کی تعزیتی نشست میں وزیراعظم نریندر مودی نے شرکت کی اور خود کو ان کا بھگت بتایا لیکن یہ دوستی امریکہ کے اندر مندر کے عہدیداروں کے کسی کام نہ آسکی۔ ان کے خلاف نہ صرف سرکاری چھاپہ پڑا بلکہ میڈیا میں اِس خبر کی تشہیر کے بعد ہزاروں کی تعداد میں امریکیوں نے مندر کے حکام کے خلاف اپنے سخت غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ اُنہوں نے یک زبان ہوکر دنیا میں جہاں بھی اِس تنظیم کی جانب سے کوئی تعمیر ہو اس کی تفتیش کا مطالبہ کیا ۔ اس مطالبے کی زد ابوظبی میں بننے والے سوامی نارائن مندر پر بھی پڑتی ہے۔ وزیر اعظم اس پر ٹویٹ کرکے اپنا ووٹ بنک تو بڑھا رہے ہیں لیکن مزدوروں کے استحصال پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ۔

کاشی وشوناتھ مندر ٹرسٹ کے ایک سابق سربراہ (2013 سے 2019)اچاریہ دویدی ہیں ۔ انہوں تاریخی کتابوں کے حوالے سے اس دعویٰ کی تردید کردی جس کے سبب یہ نیا تنازع پیدا کیا گیا ہے۔ فی الحال ہندو فریق یہ دعویٰ کررہا ہے کہ شرنگاری گوری کا مقام گیانواپی مسجد کی باہری دیوار پر ہے۔ نچلی عدالت کی نیت ٹھیک ہوتی تو دیویدی کی بات سنتی اور سروے کا حکم ہی نہیں دیتی ۔ دویدی کے مطابق معروف دانشورکبیر ناتھ سکل نے اپنی کتاب’ وارانسی ویبھو‘ میں صفحہ 221پر لکھا ہے کہ گوری کا مجسمہ مندر کے شمالی حصے میں اناپورنا مندر کے اندر ہے۔ مشہور روحانی پیشوا دھرم سمراٹ کرپاتری کے شاگرد شیوانند سرسوتی نے اپنی کتاب وارانسی گورو میں مذکورہ مجسمہ کا جائے وقوع محلہ بناس پھاٹک کے پلاٹ 3/58 پر مندر سے 100میٹر کی دوری پر بتایا ہے۔ یہ وشو ویدک سناتن سنگھ کے جیتندر سنگھ بیسن کی تردید ہے۔اچاریہ دیودی کوئی معمولی آدمی نہیں ہے کہ جو کسی انتخابی ضرورت سے بنارس میں جاکر بس گیا ہو۔ ان کا خاندان پچھلے 800 وہاں موجود ہے ۔ اچاریہ کے مطابق اس دوران کبھی کسی نے شرنگاری گوری استھل کو اس مقام پر نہیں پایا جس پر اب تنازع کھڑا کیا جارہا ہے؟ ان کے مطابق 2004-2005 کے دوران شیوسینا اور وشوہندو پریشد نے اس مقام پر پوجا پاٹ شروع کیا تھا ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ کون اپنے سیاسی مفاد کے لیے یہ ڈرامہ کررہا ہے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2134 Articles with 1537700 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.