سائیکل کی فیشن سے بھرپور واپسی

آج کل پاکستان سمیت دنیا بھر میں پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث لوگوں کو سائیکل کی یاد شدت سے ستا رہی ہے۔ایک زمانہ تھا کہ پاکستان میں لوگ بہت شوق سے سائیکل پر دفاتر اور بازاروں کا رخ کیا کرتے تھے مگر پھر آہستہ آہستہ وسائل بڑھنے کے ساتھ سائیکل کی جگہ موٹر سائیکل نے لے لی ، موٹرسائیکل کے ساتھ اب گاڑی بھی نقل و حمل کا ایک عام ذریعہ بن چکی ہے اور سائیکل سواری کا رجحان کم ہوتے ہوئے انتہائی محدود ہو چکا ہے۔سائیکل سواری کا ایک فائدہ اگر پیسوں کی بچت تھا تو دوسرا فائدہ بہتر صحت بھی تھا ، مگر آسائش کی خواہش نے سائیکل کے استعمال میں خاطر خواہ کمی لائی ہے۔

دوسری جانب چین میں سائیکل سواری نےجدید رجحانات اپنائے ہیں اور آج بھی چینی لوگوں کا سائیکل کے ساتھ ایک نہ ٹوٹنے والا رشتہ قائم ہے۔ 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں، سائیکل چینی لوگوں کے لیے آمد و رفت کا سب سے بنیادی ذریعہ تھی اور چین کو "سائیکلز کی سلطنت" کہا جاتا تھا۔ 1990 کی دہائی سے رواں صدی کے اوائل تک، ہزاروں گھرانوں میں ذاتی گاڑیاں داخل ہونے لگیں، اور سائیکلز آہستہ آہستہ شہر کی سڑکوں سے کم ہوتی چلی گئیں۔لیکن اچھی بات یہ ہے کہ گزشتہ دس سالوں کے دوران لوگوں میں ، ماحولیاتی تحفظ اور صحت کے بارے میں بڑھتی ہوئی بیداری کے ساتھ ساتھ "سائیکل" واپس سڑکوں پر آ چکی ہے ، تاہم، اب اس کا رنگ روپ تبدیل ہوا ہے اور یہ رنگ برنگی شیئرڈ سائیکلز اور ہر طرح کی روڈ بائکس اور ماؤنٹین بائیکس وغیرہ میں تبدیل ہو چکی ہیں۔

اس وقت چین میں صورتحال یہ ہے کہ سائیکل چلانا ایک نیا فیشن بنتا جا رہا ہے، لوگوں کی اکثریت اسے تفریحی سرگرمی اور کھیل کے طور پر لے رہی ہے۔ شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے کووڈ۔19 کے انسدادی اقدامات کی وجہ سے سائیکل کو اپنے مختصر فاصلے کے سفر کے لیے ایک اہم نقل و حمل کے آلے کے طور پر دیکھا ہے۔ اس دوران، سائیکلوں کی آن لائن اور آف لائن فروخت دونوں میں اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر،معروف ترین ای کامرس پلیٹ فارم تاؤ باؤ پرسائیکل کی فروخت نے "ڈبل ڈیجٹ" میں اضافہ دیکھا ہے۔ادارے کے مطابق نہ صرف بچوں کی سائیکلوں، روڈ سائیکلوں اور فولڈنگ سائیکلوں کی فروخت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے بلکہ سائیکل چلانے کے لیے مخصوص لباس کی فروخت بھی نمایاں طور پر بڑھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ زیادہ لوگ سائیکل چلانا پسند کرنے لگے ہیں۔

یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ سائیکل کے خریداروں میں زیادہ تعداد 30 سے 49 سال کی عمر کے افراد پر مشتمل ہے اور بیجنگ اور چھنگ دو جیسے بڑے شہروں میں سائیکل فروخت کرنے والے اسٹورز کو بڑھتی ہوئی طلب کے باعث سائیکل کی قلت کا سامنا بھی ہے ، تاہم یہ قلت عارضی ہے کیونکہ چین دنیا میں سائیکل تیار کرنے اور صارفین کے اعتبار سے دنیا کے سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔اعداد و شمار کے مطابق 2021 کے پہلے آٹھ مہینوں میں چین کی سائیکل کی پیداوار 34.12 ملین یونٹس سے تجاوز کر گئی تھی، جس میں سالانہ 9.7 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ اسی عرصے کے دوران، چینی سائیکل ساز اداروں کی کل آمدنی تقریباً 145.16 بلین یوآن تک پہنچ گئی، جو کہ سال بہ سال 30.6 فیصد زیادہ ہے جبکہ مجموعی طور پر مشترکہ منافع میں 46.4 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔

چینی شہریوں سے بات کریں تو اُن کے نزدیک سائیکل کے کئی فوائد ہیں۔ اول تو ، سائیکل سفر کا ایک اچھا، سستا اور پر ہجوم ٹریفک میں تیز ذریعہ ہے۔ دوسرا ،سائیکل اُن کی صحت کے لیے بھی مفید ہے کیونکہ سائیکل چلانا ایک بہترین ورزش ہے ۔ تیسرا پہلو بہت دلچسپ ہے کہ ہر وقت موبائل فون کی سکرین دیکھنے سے بہتر ہے کہ کچھ لمحات کے لیے سائیکل چلائی جائے اور فون کو چند گھڑی کے لیے خود سے دور کر دیا جائے۔یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران چینی شہروں میں خصوصی بائیک لین کی تعمیر اور ٹریفک کے سست نظام نے سڑکوں پر سائیکلوں کی فیشن سے بھرپور واپسی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں سائیکلنگ چین میں ایک نیا ابھرتا ہوا فیشن ہو گا جس سے نہ صرف ٹرانسپورٹ کے سبز اور کم کاربن طریقے کو مزید فروغ ملے گا بلکہ سست ٹریفک کے نظام میں بھی بہتری آئے گی۔پاکستان میں بھی ٹریفک نظام میں معمولی سی بہتری اور شہریوں کی حوصلہ افزائی سے سائیکل چلانا طرز زندگی کا ایک نیا رجحان بن سکتا ہے اور سماجی ترقی کی بہتر نمائندگی کر سکتا ہے۔


 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1396 Articles with 683706 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More