پاکستان کو ایک ایسا ملک بنانا ہو گا جس میں اختلاف رائے
کو دشمنی نہ سمجھا جائے، تنقید کو حوصلے سے برداشت کیا جائے، جس میں قومی
خدمت ہی سیاست کا اصل معیار ہو، درس گاہوں کے دروازے کھل جائیں، نفرت گاہوں
کے در بند ہو جائیں، جہاں عورتوں کے حقوق مقدم اور اقلیتوں کے حقوق محفوظ
ہوں، جہاں مزدور اور کسان خوشحال ہو، جس میں مہنگائی، بیروزگاری کا خاتمہ،
رِزق کی فراوانی اور آسانی ہو، جس کا عدل باعث فخر ہو، جہاں ظلم نہ ہو
جہاں جنسی استحصال نہ ہو،جہاں مخبتوں کے پھول کھیلیں۔
اسلام آباد مارچ کا مقصد تو فیصلہ کن نتائج حاصل کرنا تھا۔اگر پورا ملک جام
ہو جاتا‘بد امنی اپنی انتہائوں پر رقص کرتی ‘ ٹرانسپورٹ رک جاتی‘ سڑک بند
ہو جاتیں‘شہری زندگی مفلوج ہو کر ساکت ہو جاتی‘بازار سنسان ہو جاتے‘کوچہ و
بازار بے رونق ہو جاتے‘عدالتیں اور سرکاری دفاتر بند ہو جاتے‘عوام الناس‘
عام شہری سڑکوں پر آکر مارچ میں شامل ہوجاتے‘ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں ملا
ہے،جو بھی ہوا جیسے بھی ہوا یہ خوش ائین ہے کہ ملکی سالمیت کے لئے کوئی نا
خوشگوار ماحول پیدا نہیں کیا گیا۔پاکستان میں بہت سے ایسے طبقات ہیں،جن کو
امورِمملکت میں کوئی دلچسپی نہیں،اگرچہ عمران خان کے جلسے کی
رونقیں،ترانے،نعرے دلوں کو سکون دیا،لیکن ایسے سڑکوں پہ احتجاج،ہنگامے بپا
کرنا صیح نہیں۔رہنماؤں کو ایسے سیاسی اقدامات کی ضرورت ہے،جس سے ملکی ساکھ
خراب نہ ہو۔چہرے کوئی ہوں اس ملک کے ایوانوں میں اس سے فرق نہیں پڑنا فرق
پڑتا ہے تو صرف اس چیز سے کے ملک کے سیاسی استحکام کو کوئی نقصان نہ
پہنچے۔پاکستان قوم کا اصل مسئلہ معاشی حالات کی بہتری کا ہے۔۔ لوگوں کیلئے
سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی سے نجات حاصل کرنا ہوگا۔جس کے لئے سیاست کے معیار
کو مدِنظر رکھ کے ہی کوئی اقدامات کرنے ہوں گے وہ اقدامات جو صرف ہمارے ملک
کے مفاد میں ہوں تب ہی ہم ایک زندہ قوم کہلا سکتے ہیں۔اور ایک روشن اور نیا
پاکستان بن سکتے ہیں۔
سمجھ جاؤ میرے لوگو کہ وقت ہاتھ میں ہے
جو نہ سمجھے تو ہاتھ ملتے رہ جاؤ گے
|