ہوش ربا مہنگائی اور حکمرانوں کی بے حسی
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
ہوش ربا مہنگائی اور حکمرانوں کی بے حسی ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی تبدیلی سرکار کو بڑی سرکار کی اشرباد سے باہم چھوٹے بڑے سیاست کے چغادریوں نے ایوان اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد اقتدار پر براجمان ہوئے۔ بہ ظاہر مقصد عمرا ن دشمنی، عمران خان کو اقتدار سے الگ کرنا تھا۔ ذمہ داران کا مقصد حکومت کا حصول نہ تھا لیکن اقتدار جھولی میں آن گرے تو کسے برا لگتا ہے۔ یہی ہوا، اقتدار کی بندر بانٹ ایسی ہوئی جیسے لوٹ کا مال ہو، ایرے غیرے، نتھو غیروں کو وزارت، صفارت، مشیر، صفیر،گورنرکی دولت ہاتھ آگئی۔ حکومت کو آنے کے بعد عوام کی فلاح و بہبود کا کوئی منصوبہ تو تھا ہی نہیں، بس مراعات کا حصول، بیرونی دورے، جھنڈے والی گاڑیوں کے مزے کے علاوہ کچھ نہیں۔ دو ماہ ہونے کا آئے، کسی بھی شعبہ میں مثبت پیش رفت دکھائی نہیں دی۔ مہنگائی جس کا رونا صبح و شام تمام جماعتوں کے لیڈر رویا کرتے تھے، ٹی وی اینکر مہنگائی پر بھاشن دیا کرتے تھے آج سب کے سب خاموش ہیں۔ یہ کہتے نہیں تھک رہے کہ آج بھی پیٹرول دنیا کے کئی ممالک سے سستا ہے۔ عمران خان کے دور میں پیٹرول بار بار مہنگا ہوا کرتا، مہنگائی بھی آسمان کو چھو رہی تھی، آج تو ساتویں آسمان پر پہنچ چکی ہے۔ پاکستان میں تبدیلی سرکار کے دو سال مکمل ہونے پر میں اس صورت حال کو اس طرح نظم کیا تھا ؎ ؎ تبدیلی سرکار نے گزارے ہیں دو ہی سال کر کچھ نہ پائے روتے ہی رہے سارا سال احتساب کے نعرے نے پہنچایا اقتدار پر سیاست کی نظر ہوگئے پورے ہی دو سال چینی مہنگی، آٹا مہنگا، بجلی اورپیٹر ول بھی مہنگا مہنگائی آسماں پر، ان کے ہیں دو ہی سال یہ صورت حال عمران خان کے دور کی تھی جو اب بد سے بدتر ہوگئی ہے۔موجودہ حکومت نے دو ہی ماہ میں وہ کچھ کردیا جو سابقہ حکومتوں بشمول ن لیگ کی حکومتیں نے سالوں میں نہیں کیا تھا۔اس وقت پی ڈی ایم کے لیڈران عمران حکومت پر چلا چلا کر مہنگائی کی دوہائی دیا کرتے تھے آج انہیں سانپ سونگھ گیا ہے۔ انہیں آئل مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ نا گزیر نظر آرہا ہے۔ کالم نگار، شاعر ارشد قریشی نے اپنی فیس بک ٹام لائن میں درست لکھا کہ ”مارچ میں مہنگائی، اپریل میں بڑے بڑے جلسے، ریلیاں، تحریک انصاف کی حکومت کی نااہلی کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد کامیاب، نئے وزیر اعظم ک انتخاب سب کچھ بدل گیا۔ مگر عوام کی قسمت نا بدلی، جب سب کچھ وہی رہنا تھا بلکہ اس سے بھی بدتر ہونا تھا تو چہروں کی تبدیلی سے کیا فرق پڑتا ہے“۔اس حوالے سے ارشد قریشی نے ایک شعر ؎ جنہیں چنا تھا کے مسائل کو حل کریں گے مرے وہ لوگ ہی بن گئے ہیں خود مسئلہ میرے لیے مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آچکا ہے، ایک ہفتہ میں دو بار کل 60 روپے فی لیٹر اضافہ، حکومت نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں، وزراء، افسران کا پیٹرول کوٹا کم نے سے کیا عوام کو کیا ریلیف ملے گا، ان کی صحت پر کیا اثر پڑے گا، موجودہ وزیر خزانہ سابقہ حکومت کو کہا کرتے تھے کہ’ن لیگ حکومت کو ایک پیسہ بھی بڑھانے نہیں دی گی‘، اب کیا ہوا، آئی ایم ایف کے سامنے سرنگوں کردیا، عوام کو تڑپتا دیکھ کر آپ کے اندر کا بے حس انسان نہیں جاگ رہا، آج حکومتی اہلکار ایک زبان ہوکر یہ کہہ رہے ہیں کہ کڑوا گھونٹ تو پینا ہی ہوگا، سخت فیصلے کرنا ہی ہوں گے، وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے اقتدار کی حوس میں خود کو تو عوام کی نظروں میں رسوا کیا، نون لیگ کو بھی عوام کی نظروں میں گرا دیا، آج تمام باتوں کا ذمہ دار نون لیگ کو ٹہرایا جارہا ہے، باقی7 جماعتوں کو جو اقتدار میں برابر کی حصہ دار ہیں کوئی کچھ نہیں کہہ رہا، خاموشی کا مطلب، بھگتے ن لیگ، حکومت کی بعض اتحادی جب حکومتی اتحاد میں شامل ہوئے تو ان کہنا تھا کہ عمران خان مہنگائی پر قابو نہیں پارہا اس لیے انہوں نے عمران خان کے اتحادی کی حیثیت سے علیحدگی اختیار کی اور پی ڈی ایم میں شمالیت اختیار کی۔ میاں نواز شریف اس صورت حال پر خاموش ہیں، محسو ہوتا ہے کہ نہ تو حکومت لینے کے حق میں تھے اور نہ ہی عوام پر پیٹرول بم گرانے کے حق میں۔ شہباز شریف صاحب کو ایک صوبے کے انتظامی امور چلانے کا تجربہ بے شک تھا لیکن ایک صوبہ خواہ بڑا ہی کیوں نہ ہو اس میں اور پورے پاکستان کے نظام کو درست سمت چلانے میں بہت فرق ہے۔ نولیگ کے ذمہ داران کو سوچنا ہوگا کہ انہیں ان کے دوستوں نے مل کر سیاست کی دلدل میں تو نہیں پھنسادیا۔ موجودہ مہنگائی پر نون لیگ کے حامی بھی سخت تنقید کر رہے ہیں۔ ملتان کے ایک معروف وکیل، شاعر اور میرے عزیز بھائی سرور صمدانی جو نون لیگ کے حامی اور کھلے عام اس کے حق میں آوازبلند کرتے ہیں موجودہ مہنگائی کی صورت حال پر اپنی فیس بک آئی ڈی پر لکھا ”میاں شہباز شریف صاحب مہنگائی کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔ مجبوری ہے تو اقتدار چھوڑ دیں“۔مہنگائی کی شرح 20.04ہوگئی ہے۔ 28اشیاء کی قیمتون میں اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ مہنگائی تو ابھی شروع ہوئی ہے، وقت کے ساتھ ہر چیز مہنگی ہوگی، بسوں کے کرائیوں میں اضافہ ہوگا، ائر لائن اپنے کرائے پر نظر ثانی کریں گے۔مکانوں کے کرایوں میں اضافہ ہوگا، سبزی، پھلوں میں اضافہ، دودھ اور دھی کی قیمت بڑھے گی، عام کھانے پینے کی اشیا ء مہنگی ہورہی ہیں۔مانا کہ سخت فیصلے کرنا ضروری تھے لیکن اس اضافہ میں وقفہ وقفہ سے اضافہ کیا جاسکتا تھا، کوئی اور حکمت عملی اختیار کی جاسکتی تھی، عوام کو اعتماد میں لیا جاسکتا تھا، اس طرح اضافہ عوام بجلی اور پیٹرول بن گرا دینا بہت ہی تکلیف دہ صورت حال ہے۔وزیر اعظم صاحب نے دل پر پتھر رکھ کر پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا، لیکن اب آنسو ں بہانے سے کیا فائدہ، عوام پر مہنگائی کا بم گراکر مگر مچھ کے آنسوں کا فائدہ؟ تاریخ آپ کے اس اقتدار کو اچھے الفاظ سے یاد نہیں رکھے گی۔ اقتدار کا حصول اور عوام پر ظلم و زیادتی کی تاریخ رقم ہوگی۔ آپ پنجاب کے حوالے سے اچھے منتظم سمجھے جاتے ہیں لیکن پاکستان کے وزیراعظم کے طور پر آپ کو شاید ہی اچھے الفاظ سے یاد رکھا جائے۔ ابھی تو نون لیگ کی حکومت نے عوام کو مہنگائی کے دو ڈوز ہی لگائی ہیں، ابھی تو آئی ایم ایف کا تیسرا اور بوسٹر ڈوز لگنا باقی ہے۔ رہی سہی کثر بجٹ میں پوری کردی جائے گی۔یاد رکھیں ملک کی ترقی، عوام کی فلاح کرنے والوں کو آج بھی تاریخ میں ان کے اچھے کارناموں کے باعث یاد رکھا جاتا ہے۔ عوام پر ظلم و زیادتی کرنے والے تاریخ میں اچھے نام سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے حکومت عوام کو ریلیف دینے کے عملی اقدامات کر سکتی ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ عوام کو ریلیف دیا جائے۔ (3جون2022ء)
|