حکومتی مراعات اور کفایت شعاری مہم

حکومتی مراعات اورکفایت شعاری مہم

مالی سال کاآغاز جولائی میں ہوتاہے اورجون پر ختم ہوتاہے۔ ہر حکومت جون میں نئے مالی سال کابجٹ پیش کرتی ہے۔موجودہ حکومت کفایت شعاری مہم چلارہی ہے ،اس لیے ایک نظرسابقہ حکومت کے بجٹ پراس امید سے ڈالتے ہیں کہ موجودہ حکومت اپنے بجٹ میں صدر،وزیراعظم ،وزرا،ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات کم کرے گی جب کہ مہنگائی کی چکی میں پسے عوام کو ریلیف دے گی ۔

جاری مالی سال کے لیے عمران خان حکومت میں منظور کردہ بجٹ کے مطابق صدر مملکت کی تنخواہ 8 لاکھ ۔96ہزار،583 روپے جب کہ وزیراعظم کی ماہانہ تنخواہ 2 لاکھ،3 ہزار،416روپے کی گئی تھی۔ وزیراعظم آفس اخراجات کیلئے 46 کروڑ اور صدرمملکت آفس ملازمین کی تنخواہوں کیلئے ساڑھے40 کروڑ رکھے گئے تھے۔ قومی اسمبلی کیلئے5 ارب 58 کروڑ اور سینیٹ کیلئے3 ارب74 کروڑ کا بجٹ مختص کیا گیا ۔ وفاقی وزرا اور وزرائے مملکت کے لیے 21 کروڑ 80 لاکھ روپے، وزیراعظم کی مشیروں کیلئے 3 کروڑ اور معاون خصوصی کیلئے 2 کروڑ90 لاکھ رکھے گئے تھے ۔ اسی طرح اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات کیلئے 2 ارب2 کروڑ64 لاکھ کا بجٹ مختص کیا تھا۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق وفاقی بجٹ میں ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس کیلئے مختص بجٹ کی تفصیلات کے تحت بجٹ میں وزیراعظم ہاوَس کے لیے40 کروڑ 10لاکھ روپے رکھے گئے تھے ۔ وزیراعظم آفس کے لیے 52 کروڑ روپے اور وزیر اعظم ہاوَس کے باغیچے کے لیے 2 کروڑ61 لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے ۔ ایوان صدر آفس کے لیے40 کروڑ50 لاکھ روپے اور ایوان صدرہاؤس کے لیے60 کروڑ15 لاکھ روپے رکھنے کی تجویز دی گئی تھی۔اسی طرح اپوزیشن لیڈر کے دفتر کے لیے2 کروڑ71 لاکھ روپے کا بجٹ رکھنے کی تجویز ہے۔قبل ازیں معلومات تک رسائی قانون کے تحت قومی اسمبلی کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ ستمبر 2020میں ہررکن اسمبلی کو 188 ہزار روپے ہررکن کو تنخواہ اورمراعات میں اداکیے گئے جب کہ پارلیمانی کمیٹیوں کے سربراہان کو 213 ہزار روپے تنخواہ اورمراعات کے مدد میں ملے۔ قومی اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق ایون میں 36کمیٹیاں ہیں۔ان کے علاوہ سب کمیٹیوں کی تعداد معلوم نہیں۔ تاہم اگر36 کمیٹیوں ہی کے سربراہاں کی ماہانہ تنخواہوں اور مراعات کو ضرب کرکے دیکھا جائے تو یہ بھی 76 لاکھ،68 ہزار ہوجاتے ہیں۔ جب کہ ارکان کی تعداد 342ہے۔ ان کی تنخواہوں کو بھی حساب کتاب کرکے دیکھ لیں تو ایک ماہ کی تنخواہیں 7 کروڑ،28 لاکھ،46 ہزار روپے بنتے ہیں جب کہ فراہم کردہ معلومات کے مطابق اسمبلی کی صرف ستمبر2020 کاخرچ 11 کروڑ،14 لاکھ،54 ہزاررہا جب کہ مالی سال 2020-2021میں ستمبر2020تک ترقیاتی اخراجات 33 کروڑ،37 لاکھ،65ہزار،237روپے رہے۔ سینیٹر کی صرف تنخواہ ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ ہے ،جب کہ لاکھوں روپے دیگرمراعات کے مد میں بھی وصول کرتے ہیں۔ تاہم آزاد ذرائع کے مطابق ایک رکن اسمبلی 3کروڑ،32 لاکھ روپے میں عوام کو پڑرہا ہے جب ارکان صوبائی اسمبلی الگ ہیں۔سینیٹرز بھی سو سے زائد ہیں۔

دوسری جانب شہباز حکومت کے ذرائع کا کہناہےکہ وفاقی کابینہ کے اراکین کے پیٹرول کوٹے پر 40 فیصد کٹوتی کی تجویز ہے جب کہ تمام وزارتوں کے سرکاری افسران کے پیٹرول کوٹے پر بھی کٹ لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق کابینہ ارکان اور سرکاری افسران کے بجلی، گیس اور ٹیلی فون بل پر بھی کٹوتی کی تجویز ہے، تمام وزارتوں میں تزئین و آرائش پر بھی پابندی کی تجویز دی گئی ہے۔ذرائع کا بتانا ہےکہ تمام وزارتوں میں افسران کے لیے نئی گاڑیاں لینے پر بھی پابندی کی تجویز ہے۔ پنجاب میں تمام وزراء کے سرکاری پٹرول پر پابندی لگا دی ہے، کوئی بھی وزیر سرکاری پٹرول نہیں لے گا۔

لیکن حکومت کے انا قداما ت سے معیشت کو کوئی خاص فائدہ نہیں ملے گا۔ہاں تھوڑی بہت واہ ۔ واہ ہوجائے گی ۔ ملک شدید مالی بحران میں مبتلا ہیں۔ صدرمملکت، وزیراعظم،وزرا،ارکان پارلیمنٹ غریب لوگ نہیں ہیں،یہ اپنی جیب سے گزارہ کرسکتے ہیں۔انھیں فوری طور پر تنخواہوں کے علاوہ تمام خفیہ اور ظاہری مراعات سے دست بردار ہونا چاہئے۔پیٹرول کو عالمی مارکیٹ سے خریدا جاتاہے۔اس لیے مہنگا ہے تاہم دیگر اشیا میں کون اور کس کی ایما پر ہوش ربا اضافہ کررہاہے۔ عوام کو فوری ریلیف چاہئے۔ ورنہ حالات انقلاب فرانس سے قبل کامنظر پیش کررہے ہیں اور پھر گلی چوراہوں پر بھوکے اورمجبور لوگ سراپا احتجاج ہوں گے ۔پھر کوئی صدر، کوئی وزیراعظم،کوئی چیئرمین سینیٹ ،کوئی ڈپٹی چیئرمین، کوئی رکن پارلیمنٹ نہیں رہے گا۔عوامی عدالت ہوگی ،ہجوم جج ہوگا۔ حکمران اورسیاست دان ملزموں کے کٹہرے میں ہوں گے ۔انقلاب ِ فرانس بھی اسی طرح آیا تھا۔


 

ABDULLAH MISHWANI
About the Author: ABDULLAH MISHWANI Read More Articles by ABDULLAH MISHWANI: 6 Articles with 4768 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.