دعا زہرہ کا والدین سے ملنے سے انکار، پانچ ایسے سوالات جنہوں نے سب کو پریشان کر ڈالا

image
 
دعا زہرا کے گھر سے غائب ہونے کی خبر جب سوشل میڈيا اور میڈیا کے ذریعے سب تک پہنچی تو لوگوں کا ردعمل جدا جدا تھا- کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ کم عمر 14 سالہ بچی کو کسی نے اغوا کر لیا ہے اور ہر ایک اس کی بخیریت عزت کے ساتھ واپسی کے لیے دعا گو ہو گیا تھا جب کہ ایک حلقہ ایسا بھی تھا جس کا یہ ماننا تھا کہ کچھ ہی دنوں میں یہ خبر آجائے گی کہ یہ لڑکی اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ گئی ہے اور اس نے اس کے ساتھ نکاح کر لیا ہے-
 
پھر جب دعا کے نکاح کی خبریں سامنے آئيں تو ان لوگوں نے دوسروں سے کہنا شروع کر دیا کہ دیکھا میں نے ٹھیک کہا تھا آج کل کا زمانہ بہت خراب ہے- انٹرنیٹ اور موبائل نے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی بگاڑ دیا ہے مگر اس سب کے باوجود دعا کے والد ہٹ کے پکے وہ اسی بات پر قائم رہے کہ میری بیٹی ایسا نہیں کر سکتی۔ اب یہ والد کی خوش گمانی کہہ لیں یا اپنی بیٹی پر حد سے زيادہ اعتماد کہ وہ ثبوت کے ساتھ اس بات پر جمے رہے کہ ان کی بیٹی صرف چودہ سال کی ہے اور قانون کے مطابق شادی کا فیصلہ نہیں کر سکتی ہے-
 
وہ کسی کے زیر اثر ہے اس کو یا تو بلیک میل کیا جا رہا ہے یا پھر اس کو تشدد کا نشانہ بنا کر زبردستی اس سے یہ بیان لیا گیا ہے- اس وجہ سے ان کو اس سے ملنے کا موقع دیا جائے تاکہ حقیقت کھل کر سامنے آسکے اور اس کے لیے وہ عدالت سے ڈگری بھی لے کر آگئے- یہاں تک کہ عدالت کے حکم پر چشتیاں سے سندھ پولیس اور پنجاب پولیس کی مشترکہ کاروائی کے نتیجے میں دعا زہرا اور اس کے شوہر ظہیر کو گرفتار کر کے سندھ کی عدالت میں پیش کر دیا گیا-
 
عدالت کے سامنے دعا زہرا کی پیشی اور رد عمل
عدالت میں کل جب دعا زہرا کو پیش کیا گیا تو اس سے ملنے کے لیے وہاں پر اس کے ماں باپ دونوں موجود تھے- دعا چہرے کو ڈھانپے وہاں لائی گئی اس کے ساتھ اس کا شوہر ظہیر بھی تھا۔ اشکبار آنکھوں اور جذبات سے بھرپور انداز میں دعا کو دیکھتے ہی اس کی والدہ اس کی جانب بڑھیں تاکہ اپنی بیٹی کو اپنی آغوش میں چھپا سکیں-
 
اس کے ساتھ ان تمام اذيتوں کو بانٹ سکیں جن کا سامنا اس کو گھر سے اور ماں باپ سے دور ہونے کے سبب کرنا پڑا- مگر اس وقت یہ منظر دیکھ کر سب حیران رہ گئے جب دعا نے اپنے والدین سے ملنے سے انکار کر دیا اور عدالت کے سامنے بیان دیا کہ وہ اپنے شوہر ظہیر کے ساتھ بہت خوش ہے اور اس نے اپنی مرضی سے نکاح کیا ہے اور وہ اپنے والدین سے ملنا نہیں چاہتی ہے-
 
image
 
دعا کے والدین سے نہ ملنے اور اس سے اٹھنے والے سوالات
ان تمام حالات کو دیکھنے اور اس سے جڑی خبروں کو فالو کرنے والے افراد کے ذہن میں اس وقت کچھ سوالات گھوم رہے ہیں جن کے جوابات ملنے کی صورت میں دعا کیس کی یہ پیچیدہ گتھی کو سلجھایا جا سکتا ہے-
 
1: دعا اپنے والدین سے ملنے سے کیوں خوفزدہ ہے؟
دعا نے اس سے پہلے بھی پنجاب کی عدالت میں بیان دیتے ہوئے یہی بیان دیا تھا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ خوش ہے اور اپنے والدین کے ساتھ نہیں جانا چاہتی ہے اور کل یہی بیان اس نے سندھ کی عدالت میں بھی دیا- مگر سوال یہ ہے کہ بقول دعا کے اگر وہ ظہیر سے نکاح کر چکی ہے تو پھر اس کو والدین سے ملاقات کرنے میں کیسا ڈر ہے؟ کیا اس کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کے والدین سے ملاقات کے نتیجے میں وہ کمزور پڑ جائے گی یا اس کے والدین اس کے اندر کا وہ راز جان جائيں گے جو وہ چھپانا چاہ رہی ہے- یا پھر اس کو کسی نے سختی سے والدین سے ملنے سے منع کیا ہوا ہے اور ان سے ملنے کے نتیجے میں سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی ہے- عدالت کے سامنے والدین سے ملنے سے اس حد تک اجتناب اور دعا کا رویہ اس سارے معاملے کو مزید مشکوک بنا رہا ہے امید ہے کہ حکام اس بات کی طرف بھی توجہ دیں گے-
 
2: دعا کی عمر 14 یا 18؟
دعا کے والد کا باقاعدہ ثبوت جن میں ب فارم ، شناختی کارڈ اور شادی کی تاریخ موجود ہے اس کے مطابق دعا کی عمر اس وقت چودہ سال ہے جب کہ دعا اس حوالے سے بضد ہے کہ اس کی عمر اٹھارہ سال ہے- پاکستانی قوانین کے مطابق 18 سال سے کم عمر بچی کی شادی چائلڈ میرج کے زمرے میں آتی ہے جو کہ ایک جرم ہے اس وجہ سے سب سے پہلے دعا کی شادی کے بارے میں قانونی پوزیشن جاننے کے لیے اس کی عمر کا میڈیکل کے ذریعے تعین ہونا ضروری ہے- مگر پنجاب حکومت نے اب تک اس حوالے سے میڈیکل کروانے کی زحمت نہیں کی مگر کل سندھ حکومت نے میڈيکل کروانے کا حکم جاری کیا ہے جس کی وجہ سے امید پیدا ہو گئی ہے کہ دعا کی عمر کی حقیقت کھل کر سامنے آسکے گی-
 
3: پنجاب اور سندھ کے قانون کے فرق کا فائدہ!!
دعا زہرا کے اس کیس کے بعد بہت سارے پاکستانیوں کو یہ بات پتہ چلی کہ پاکستان کے دو صوبوں میں چائلڈ میرج کے حوالے سے الگ الگ قانون موجود ہیں۔ حکومت سندھ کے مطابق 18 سال سے کم عمر بچوں کا نکاح قانوناً جرم ہے لیکن پنجاب میں اس حوالے سے قانون قدرے مختلف ہے اس وجہ سے جو بھی فرد بالغ ہے نکاح کر سکتا ہے یہ جرم نہیں ہے- سوال یہ ہے کہ جس بات کا پاکستان کی اکثریتی عوام کو نہیں پتہ تھا اس کے بارے میں کم عمر دعا کو کیسے پتہ لگا اور اس نے گھر سے بھاگنے کے بعد پنجاب جا کر کیوں نکاح کیا- یعنی اس کا مطلب ہے کہ اس سارے معاملے کے پیچھے کچھ ایسے لوگ بھی ملوث ہیں جو ان تمام قانونی باریکیوں کو سمجھتے ہیں اور اگر ایسے کچھ افراد موجود ہیں تو ان کو سامنے لانا ضروری ہے-
 
image
 
4: شوہر تو محافظ ہوتے ہیں مگر ظہیر۔۔۔۔۔؟
عام طور پر ان تمام معاملات میں شوہر کو بیوی کا محافظ ہونا چاہیے مگر اس سارے معاملے میں یہ نظر آرہا ہے کہ ہر ہر جگہ دعا ظہیر کے سامنے ڈھال بن کر اس کا نہ صرف دفاع کر رہی ہے بلکہ تمام تر دباؤ وہ خود برداشت کر رہی ہے جب کہ ظہیر اس سارے معاملے میں ایک ڈمی کی طرح کھڑا ہے اس کے منہ سے ایک لفظ تک نہیں نکل رہا ہے- یعنی کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ظہیر ایک شوہر سے زيادہ ایک ڈمی ہے-
 
5: کیا قانون ایک بیان کے سامنے بے بس؟
دعا کے معاملے کے سامنے آنے کے بعد لوگوں میں اس حوالے سے سخت بے چینی پائی جاتی ہے کہ بچی کے صرف ایک بیان کے نتیجے میں قانون بے بس ہو جاتا ہے اور بچی آزاد ہو جاتی ہے-
 
اس حوالے سے جب شریعت میں لڑکی کے نکاح کے لیے ولی کی شرط ضروری ہے تو پھر پاکستان کا قانون شریعت سے کیسے متصادم ہو سکتا ہے؟
YOU MAY ALSO LIKE: