غالبا 28اپریل 2013کی بات ہے جب آئی این پی کے مرکزی دفتر
سپر مارکیٹ میں آگ لگی اور دفتر راکھ کا ڈھیر بن گیا میں اس وقت اس نیوز
ایجنسی کا لاہور میں بیوروچیف تھا اگلے ہی دن میں بھی لاہور سے دوستوں کی
خیر یت دریافت کرنے اسلام آباد پہنچ گیا رات ہوئی تو میرے این این آئی کے
پرانے ساتھی میاں زاہد غنی ساتھ ہی چھوٹے سے پارک میں ایک چادر بچھائے زمین
پر لیٹا ہوا تھا میاں زاہد غنی وہ عظیم صحافی تھا جس نے امریکہ اور پاکستان
میں برس ہا برس صحافتی خدمات سرانجام دیں اورمیں انہیں جب فٹ پاتھ پر اور
پارک میں نیچے لیٹے ہوئے دیکھتا تو دل دکھتا میاں زاہد غنی وہ بہادر اور
جرات والا صحافی تھا جس نے ایکسیڈنٹ کے بعد بیوی کی ٹانگیں ضائع ہونے کے
بعد امریکہ لے جاکر علاج کروایا اور بچوں کی طرح اسکی خدمت کی جبکہ اپنے
بچوں کو پھولوں کی طرح پروان چڑھایا اور اسی بیوی نے ایک سابق پاکستانی
خاتون سفیر کے ساتھ تعلقات کے الزام میں اپنے خاوند کواسکے مکان سے بے دخل
کیا بلکہ امریکہ سے بھی نکلوا دیا پاکستان آکر سگی بہن نے گھر داخل نہیں
ہونے دیا 64 سالہ سینئر صحافی میاں زاہد غنی 1956 کو فیصل آباد میں میاں
عبدالغنی کے ہاں پیدا ہوئے ان کے والد 1980 کی دہائی میں فیصل آباد چیمبر
آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر بھی رہے وہ پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے
ان کی ایک بہن انگلینڈ جبکہ باقی پاکستان میں مقیم ہیں میاں زاہد عنی تعلیم
کے لیے 1971 تا 1973 پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی ادارے لارنس کالج گھوڑا گلی
میں زیرِ تعلیم رہے. 1994 میں وہ اپنی بیوی کے علاج کے سلسلہ میں امریکہ
منتقل ہوئے جہاں وہ 2012ء تک مقیم رہے بعدازاں پاکستان منتقل ہوگئے میاں
زاہد عنی کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے دو بیٹے نیو جرسی، امریکہ جبکہ ایک
بیٹا اور ایک بیٹی کینڈین شہری ہیں جنہوں نے پاکستان میں کینسر کے مریض
اپنے والد میاں زاہد غنی کی مالی مدد کرنے کی بجائے ٹیلی فون پر بات کرنا
بھی گوارا نہیں کیامیاں زاہد غنی تقریباً 19 سال تک امریکہ میں مقیم رہے 24
دسمبر 2011 کو پھیپھڑوں کے کینسر کی تشخیص ہوئی کینسر کو ہٹانے کیلیے سرجری
ہوئی اور 1.6 سینٹی میٹر کا ٹیومر ہٹا دیا گیا 21 اگست کو رابرٹ ووڈ جانسن
یونیورسٹی ہسپتال نیو برنسوک سے کینسر کی سرجری سے کینسر کے تین ٹیومر
سامنے آئے جن کا سائز دو 5mm اور ایک 3mm تھا۔ میاں زاہدغنی کا امریکہ میں
علاج،ادویات ،ہسپتال میں داخلہ اور سرجن کی آپریٹنگ فیس مفت تھی لیکن یہاں
پاکستان میں وہ دوائیوں اور علاج کے اخراجات ادا نہ کرسکنے کے باعث کنٹراسٹ
ٹیسٹ کے ساتھ انکے سینے کا سی ٹی اسکین 7 ماہ کی تاخیر کا شکار ہوا میاں
زاہد غنی جنوری 1994 سے ستمبر 2012 تک امریکہ میں رہے ایک پیشہ ور، تجربہ
کار اور معروف صحافی ہونے کے ناطے امریکہ میں بیورو چیف شمالی امریکہ کے
طور پر خدمات انجام دیں وہ واحد ایشائی پاکستانی صحافی تھے قیام پاکستان سے
لیکر نیپال، بنگلہ دیش یا سری لنکا کی تشکیل کے بعد سے اقوام متحدہ کے کسی
بھی سیکرٹری جنرل کا ون او ون انٹرویو کیا وہ پہلے جنوبی ایشیائی صحافی ہیں
جنہیں امریکی صدر کے ساتھ سفر کے لیے منتخب کیا گیا ہے جارج بش نے جب جنوری
2006 بھارت اور پاکستان کا دورہ کیا تو وہ جارج بش کی 250رکنی میڈیاٹیم میں
فہرست تھے۔میاں زاہد غنی اسلام آباد میں دوستوں کے تعاون سے اپنی زندگی
سڑکوں ،فٹ پاتھوں اور پارکوں پر بسر کررہے تھے انکے تمام دوستوں نے
جوامریکہ میں میاں صاحب کے مہمان بنتے تھے انہوں نے بھی اس مشکل وقت میں ان
سے منہ موڑ لیامیں جب بھی اسلام آباد جاتا تو انکی حالت دیکھ کر دکھ
ہوتامیں نے انہیں ایک بار پھر صحافتی مصروفیات شروع کرنے کا مشورہ دیا تو
وہ انتہائی دکھی ہوکر بولے کہ کوئی بات ہی نہیں سنتا جس پر میں نے انہیں
نیوز لائن انٹرنیشنل (این ایل آئی) کا ایڈیٹر انچیف بنوا دیا اسکے بعد
انہوں نے اپنا ایکریڈیشن کارڈ بنوایا کافی کوشش،محنت اور وقت ضائع کرنے کے
بعدپی آئی ڈی سے بھی چند ہزارروپے مالی امداد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ان
پیسوں سے انکے کینسر کا علاج تو درکنار ادویات کا خرچہ بھی پورا نہ ہوسکا
کچھ دوستوں نے مدد کی تو پنڈی ریلوے اسٹیشن کے قریب معمولی کرایہ پر ایک
کمرہ لے لیا میں جب بھی پنڈی جاتا تو ہم ساری ساری رات ریلوے اسٹیشن کے
ہوٹلوں پر بیٹھے گپ شپ لگاتے رہتے انہوں کئی بار کراچی میں اپنی جائیداد کا
ذکر بھی کیا تھا جس پر کچھ لوگوں نے قبضہ کررکھا تھا جسکے خلاف انہوں نے
عدالت میں کیس بھی دائر کررکھا تھا میاں صاحب کے قریبی دوست اور آئی این پی
کے فوٹو گرافر غوری نے بتایاکہ میاں صاحب اپنی پراپرٹی کے ایک کیس کی پیروی
کے سلسلے میں فروری 2020کے پہلے ہفتے راولپنڈی سے کراچی کے لیے بذریعہ ٹرین
روانہ ہوئے تھے اور پُراسرار طور پر لاپتہ ہو گئے کراچی میں میاں زاہد غنی
کے کیس کی پیروی کرنے والی خاتون ایڈووکیٹ بسمہ نورین غازی کا کہنا ہے کہ
چودہ فروری کے لگ بھگ میاں زاہد غنی کے کیس کی کراچی کی ایک عدالت میں
تاریخ تھی مگر وہ تاریخ پر حاضر نہیں ہوئے اور نہ ہی تاحال ان سے ان کا
کوئی رابطہ ہوا ہے خاتون ایڈووکیٹ نے کراچی کے متعلقہ پولیس اسٹیشن میں جا
کر میاں زاہد غنی کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرانے کی بھی کوشش کی مگر پولیس
نے اس بنا پر ان کی رپورٹ درج کرنے سے انکار کر دیا کہ آپ ایف آئی آر کی
مدعی نہیں بن سکتیں ان کا کوئی قریبی عزیز آئے اور شکایت کا مدعی بنے دوسرا
یہ واقعہ ان کی حدود اور دائرہ اختیار میں نہیں آتا راولپنڈی میں گمشدگی کی
یہ رپورٹ درج کرائی جائے جبکہ پاکستان بھرکی صحافتی اور انسانی حقوق کی
تنظیمیں سینئر صحافی میاں زاہد غنی کی گمشدگی کا کیس درج کرواکر انہیں
بحفاظت بازیاب کر وانے میں مدد کرے ۔
|