#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالحُجرات ، اٰیت 9 تا 10
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و ان
طائفتان من
المؤمنین اقتتلوا
فاصلحوا بینہما فان
بغت احدٰہما علی الاخرٰی
فقاتلو التی تبغی حتٰی تفیء
الٰی امر اللہ فان فاءت فاصلحوا
بینہما بالعدل و اقسطوا ان اللہ یحب
المقسطین 9 انما المؤمنون اخوة فاصلحوا
بین اخویکم و اتقوا اللہ لعلکم ترحمون 10
اور اگر تُمہاری دو پُر اَمن جماعتیں طاقت آزمائی کے لیۓ ماضی میں آمنے
سامنے آچکی ہوں اور فی الحال بھی ایک دُوسرے کے آمنے سامنے طاقت آزمائی کے
لیۓ کھڑی ہوں تو تُم دونوں جماعتوں کو عملی جنگ سے بچانے کے لیۓ میدانِ عمل
میں آجاؤ اور تُمہاری اِس عملی کوشش کے بعد اُن طاقت آزما جماعتوں میں سے
جو جماعت اَمن کے قیام کے خلاف اقدام کرے تو تُم قیامِ اَمن کے لیۓ اِس
پُراَمن جماعت کے ساتھ مل کر اُس بَد اَمن جماعت کے خلاف اُس وقت تک عدل و
انصاف کے ساتھ قیامِ اَمن کے لیۓ کھڑے رہو جس وقت تک کہ وہ بَد اَمن جماعت
قیامِ اَمن کے اِس حُکمِ اَلٰہی کو تسلیم نہ کر لے جو اِس وحی میں بیان ہوا
ہے اور اگر وہ جماعت اِس حُکمِ اِلٰہی کو تسلیم کر لے تو پھر تُم دونوں
جماعتوں کے درمیان ایک پائدار محبت و دوستی کی سبیل پیدا کرو کیونکہ اللہ
تو انسان کی اُس محبت سے محبت کرتا ہے جو محبت انسان کو ایک دُوسرے کا جان
خواہ بنانے کے بجاۓ ایک دُوسرے کا جان پناہ بناتی ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس اٰیت کے مقصدی مفہوم کو سمجھنے کے لیۓ سب سے پہلے اِس اَمر کا سمجھنا
لازم ہے کہ فعل قتل کے مِنجُملہ مصدری معنوں میں مقصدی معنٰی وہ جنگ آزمائی
ہوتا ہے جس کا ہر طاقت ور جان دار ہر کم زور جان دار کے مقابلے میں ہر وقت
مظاہرہ کرتا ہے اور ایک کم زور جان دار بھی تنگ آکر کسی وقت اُس طاقت ور
جان دار کے مقابلے میں کھڑا ہونے پر مجبور ہو جاتا ہے ، چانچہ جب اہلِ عرب
کسی جان دار اونٹنی کو کسی کم زور جان دار کو کُچلنے کے لۓ آتا ہوا دیکھتے
ہیں تو کہتے ہیں { ناقة ذات قتال } اور اِس سے اُن کا مطلب اِس اَمر کا
اظہار ہوتا ہے کہ ایک جان دار اونٹنی کسی کم زور جان دار کو کُچلنے کے لیۓ
میدان نکل آئی ہے تاہم یہ عمل کسی جان دار کا کسی جان دار کے مقابلے میں
آنے کا وہ ابتدائی عمل ہوتا ہے جب وہ جنگ آزما جان دار عملی جنگ سے پہلے
صرف اپنی جان اور صرف اپنے جسم کے ذریعے ایک دُوسرے کو ڈرانے دھمکانے کے
لیۓ ایک دُوسرے کے سامنے آتے ہیں ، جان دار کے جان دار کو ڈرانے دھمکانے کا
یہ وہی عمل ہے انسان جس کو اصطلاحا سرد جنگ کہتے ہیں ، اٰیتِ بالا میں سرد
جنگ کے اِس مفہوم کو ظاہر کرنے کے لیۓ جو الفاظ لاۓ گۓ ہیں اُن الفاظ میں
پہلا لفظ حرفِ شرط { اِن } ہے جو کلامِ عرب میں کسی یقینی اَمر کے یقینی
استعمال کے لیۓ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف امکانی عمل کے ایک امکانی
استعمال کے لیۓ ہی استعمال ہوتا ہے ، اٰیتِ بالا میں لایا گیا دُوسرا لفظ {
طائفتان } ہے جو اِس سرد جنگ میں شامل ہونے والی اُن دو جنگ آزما جماعتوں
کے لیۓ لایا گیا ہے جن کے غیر متوقع طور پر کسی سرد جنگ میں شامل ہونے کا
امکان پیدا ہو چکا ہوتا ہے ، اٰیتِ بالا میں لایا گیا تیسرا لفظ { المؤمنین
} ہے جو اُس مومن کی جمع ہے جس جمع کے واحد مومن سے وہ فقہی مومن مُراد
نہیں ہوتا جو سُورَہِ مُحمد کی اٰیت 19 کے تیسرے مُرکب { لا الٰه الا اللہ
} اور سُورَةُالفتح کی اٰیت 29 کے دُوسرے مُرکب { محمد رسول اللہ } کے دو
لفظی مُرکبات کی ایک لفظی ادائگی سے مومن قرار پاتا ہے بلکہ اِس مومن انسان
سے ہر وہ مومن انسان مُراد ہے جو انسان ہر انسان کو اپنی طرف سے اَمن دینے
کا اور ہر انسان سے اپنے لیۓ اَمن لینے کا خواہش مند ہوتا ہے اور اِس مقصد
کے لیۓ خواہش مند ہوتا ہے تاکہ اُس کی یہ دُنیا ہر انسان کے لیۓ محبت و
اَمن کا گہوارہ بن جاۓ ، اٰیتِ بالا میں لایا گیا چوتھا لفظ اَمر حاضر جمع
کا وہ صیغہ { اصلحوا } ہے جس کا معنٰی وہ اَمنِ عالَم ہے جو ہر اَمن چاہنے
والے انسان کی قلبی و رُوحانی چاہت ہے اِس لیۓ اہلِ اَمن کو اِس یہ حُکم
دیا گیا ہے کہ دُنیا میں جب کبھی اور جہاں کہیں پر بھی دو انسانی جماعتوں
کے درمیان سرد جنگ کی ایسی خطرناک صورتِ حال رُونما ہو جاۓ تو تُم اُن دو
بَد اَمن جماعتوں کے درمیان اَمن کی ایک تیسری نمائندہ جماعت بن کر سامنے
آؤ اور اُن دونوں جماعتوں کو ڈراوے دکھاوے کی اِس جنگ سے اُس عملی جنگ کی
طرف نہ جانے دو جو بالآخر انسان کی اجتماعی تباہی پر مُنتج ہوتی ہے اور تُم
نے ڈرانے دھمکانے کی اُس جنگ سے اُن دونوں جماعتوں کو جس طرح اَمن کی طرف
واپس لانا ہے اُس کی واحد صورت یہ ہے کہ تُم ہمیشہ ہی اَمرِ حق پر قائم رہو
اور ہمیشہ ہی اَمرِ حق کا ساتھ دیتے رہو ، اٰیاتِ بالا میں ماضی کے صیغے {
اقتتلوا } کے ساتھ اِس جنگ کے ذکر کے بعد اَمر کے صیغے { اصلحوا } کا جو
قرینہ وارد ہوا ہے وہ اِس اَمر کا قرینہ ہے کہ اِس اٰیت میں اُس مُمکنہ سرد
جنگ کا ذکر ہوا ہے جو سرد انسان کے ماضی سے چلتی ہوئی انسان کے حال میں
پُہنچ کر انسان کے ماضی کی طرح انسان کے حال میں بھی جاری رہتی ہے اور جس
سے انسان و انسانیت کو پہلے بھی بہت نقصان پُہنچ چکا ہوتا ہے اور آئندہ بھی
بہت نقصان پُہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے اِس لیۓ اہلِ ایمان پر لازم کیا گیا
ہے کہ وہ اِس جنگ میں قیامِ اَمن کے لیۓ اپنا وہ مُثبت کردار کریں جس مُثبت
کردار کا اللہ نے اُن کو حکم دیا ہے ، اِس لیۓ یہ بات پُورے یقین کے ساتھ
کہی جا سکتی ہے کہ جن لوگوں نے اللہ تعالٰی کی اِس عالمی کتاب کے اِس عالمی
حُکم کو اپنے اپنے قومی اور اپنے اپنے علاقائی تنانظر میں دیکھتے ہوۓ اِس
کے وسیع الجہات حُکم کو کسی قوم اور وقت کے ساتھ مُختص کر کے محدُود کیا ہے
انہوں نے سخت خطا کی ہے اور جن لوگوں نے اِس اٰیت کی آڑ لے کر جنگ جمل و
جنگ صفین کے پہلے جو افسانے وضع کیۓ ہیں اور پھر اُن افسانوں کو اِس اٰیت
کی تفسیر میں شامل کیا ہے اُن لوگوں نے اُس پہلی خطا سے بھی ایک بڑی خطا کی
ہے کیونکہ اللہ تعالٰی کا یہ ایک حُکمِ عام ہے اور ہر زمین و ہر زمانے کے
لیۓ عام ہے اِس لیۓ اللہ تعالٰی کے اِس حُکمِ عام کو کسی خاص زمانے کی خاص
زمین اور کسی خاص زمین کی خاص قوم کے ساتھ خاص کرنا وہ خاص قسم کی جہالت ہے
جس خاص جہالت کی تاریخِ جہالت میں بھی کم کم ہی کوئی مثال ملتی ہے !!
|