#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالحُجرات ، اٰیت 11 تا 12
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰایھا
الذین اٰمنوا
لایسخر قوم من
قوم عسٰی ان یکون
خیر منہم و لا نساء من
نساء عسٰی ان یکون خیر
منھن و لا تلمزوا انفسکم و لا
تنابزوا بالالقاب بئس اسم الفسوق
بعد الایمان و من لم یتب فاولٰئک ھم
الظٰلمون 11 یٰایھا الذین اٰمنوا اجتنبوا کثیرا
من الظن ان بعض الظن اثم و لا تجسسوا و لا
یغتب بعضکم بعضا ایحب احدکم ان یاکل لحما
اخیه میتا فکرھتموه و اتقوا اللہ ان اللہ تواب رحیم 12
اے اَمنِ عالَم کے خواہش مند لوگو ! اَمنِ عالَم کے بناؤ اور بگاڑ کا پہلا
ذریعہ انسانی زبان کا مناسب یا غیر مناسب استعمال ہے اِس لیۓ کسی قوم کے
مردانِ کار کسی قوم کے مردانِ کار کو خود سے کم تر جان کر اُن کے ساتھ
الفاظ کا مسخرہ پن نہ کیا کریں اور کسی قوم کی عورتیں بھی کسی قوم کی
عورتوں کو خود سے کم تر جان کر اُن کے ساتھ یہ مسخرہ پن نہ کیا کریں کیونکہ
کوئی قوم یہ نہیں جانتی کہ اُس کی زیرِ تمسخر قوم شاید پہلے ہی اُس سے بہتر
ہو یا آئندہ اُس سے بہتر ہو جاۓ ، اسی طرح ایک فرد دُوسرے فرد کو اور ایک
قوم دُوسری قوم کو بھی بُرے بُرے نام نہ دیا کرے اور نہ ہی اُن بُرے بُرے
ناموں سے اُس کو پکارا کرے کہ جو بُرے نام اُس کو نا پسند ہوں ، اسی طرح
کوئی قوم اَمن کے دین میں آنے والے پُر اَمن لوگوں کو اَمن کے دین میں آنے
بعد اُن کے سابقہ اعمال و افعال کے طعنے بھی نہ دیا کرے کیونکہ جو لوگ حق
کی طرف آنے والوں کو اپنی بد زبانی سے باطل کی طرف واپس دھکیلتے ہیں وہ اُس
قوم کے بدترین ظالم لوگ ہوتے ہیں ، اسی طرح ہر انسان کو یہ حُکم بھی دیا
گیا ہے کہ وہ بد زبانی کی طرح بد گمانی سے بھی اجتناب کرے کیونکہ انسانی بد
زبانی کی طرح انسانی بد گمانی بھی دُور رَس مَنفی نتائج کی حامل ہوتی ہے
اور اسی طرح انسان کو یہ حُکم بھی دیا گیا ہے کہ وہ ایک دُوسرے کی جاسوسی
کرنے سے بھی احتراز کرے ، اگر وہ کسی دُوسرے فرد یا کسی دُوسری قوم کے بارے
میں اُس کی عدم موجودگی میں کوئی بات کرے تو اِس طرح کرے کہ اگر وہی بات
اُس کی موجودگی میں کی جاۓ تو اُس کی دل شکنی نہ ہو ، آخر تُم میں سے کون
سا انسان ایسا ہے جو اپنے مرے بھائی کا گوشت اِس طرح نوچ نوچ کر کھاۓ کہ
اگر وہ مرا ہوا بھائی اُس کو محسوس کر سکے تو ایک سخت اذیت میں مُبتلا ہو
جاۓ لہٰذا جن امور سے اللہ نے منع کردیا ہے تُم اُن امور کے بارے میں ہمیشہ
ہی اللہ کی سزا سے ڈرتے رہا کرو !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
ہر چند کہ زَن زَر زَمین کے تین ضرب المثل فتنے زمان و مکان کے وہ تین بڑے
فتنے ہیں جن فتنوں نے اہلِ زمین و اہلِ زمانہ کو اتنے بڑے بڑے نقصان
پُہنچاۓ کہ یہ تینوں فتنے اہلِ زمین و اہلِ زمانہ کے ذہن میں نقش ہو چکے
ہیں لیکن زبان کا فتنہ جو جہان کے ہر فتنے سے بڑا فتنہ ہے اِس فتنے کو
انسان نے کُچھ زیادہ یاد نہیں رکھا حالانکہ زبان کا یہ فتنہ زمان و مکان کا
وہ بڑا فتنہ ہے جس فتنے کے بارے میں قُرآن کے پہلے مُخاطب عرب کہتے تھے کہ
{ الانسان تحت لسانهٖ } یعنی انسان جب تک اپنی زبان کے نیچے دَبکا رہتا ہے
تب تک وہ زمان و مکان کے ہر فتنے سے محفوظ رہتا ہے لیکن جیسے وہ اپنی زبان
کے خول سے باہر آتا ہے اُس کی ہر اَچھائی اور بُرائی بھی اُس کے ساتھ ہی
اُس خول سے باہر آجاتی ہے اور جیسے ہی اُس کی یہ اَچھائی اور بُرائی اُس کی
زبان کے خول سے باہر آتی ہے زمان و مکان کے سارے آلام و حوادث اُس کی جان
پر یلغار کر دیتے ہیں ، نزولِ قُرآن کے زمانے میں عرب کی جس زیرِ تربیت قوم
نے آنے والے زمانے میں عرب کے دینی و سیاسی نظام کو چلانا تھا وہ قوم علمی
طور پر زبان کے اِس فتنے کو جاننے کے با وجُود بھی ابتدا میں عملی طور پر
زبان کے اِس فتنے سے محفوظ نہیں تھی اِس لیۓ قُرآن نے اِس سُورت کی اِن دو
اٰیات میں اُس قوم کو جو علمی و عملی ہدایات دی ہیں اُن ہدایات کا فکری
دائرہ بے حد وسیع ہے اور اُس بے حد وسیع دائرے میں آنے والے جُملہ مسائل و
معاملات پر ایک طویل علمی گفت گو کی ضرورت ہے جو اِن اٰیات کے اِس حاضر
بیانیۓ میں ممکن نہیں ہے تاہم اگر اشارات و اختصارات کی صورت میں بات کرنے
کی کوشش کی جاۓ تو پہلی اٰیت میں قُرآن نے جن تین قومی و بین الاقوامی
مسائل و معاملات پر جو تین ہدایات دی ہیں اُن میں قُرآن نے اپنی اُس پہلی
مُخاطب اور محافظ قوم کو پہلی ہدایت یہ دی ہے کہ انسان کی مناسب زبان ہمیشہ
ہی مناسب نتائج کی اور انسان کی غیر مناسب زبان ہمیشہ ہی غیر مناسب نتائج
کی حامل ہوتی ہے اِس لیۓ جب بھی ایک قوم دُوسری قوم کے ساتھ قومی یا بین
الاقوامی سطح کی کوئی بات چیت کرے تو اُس کی وہ بات چیت اپنی زبان و بیان
کے حوالے سے طعن و تعریض اور عامیانہ مسخرے پن سے ایک بلند اور سنجیدہ تر
بات ہونی چاہیۓ کیونکہ ایک قومی سفارت کار کا اندازِ بیان ایسا شائستہ اور
مہذب ہونا چاہیۓ جو دو متصادم قوموں کو صُلح و خیر کے اُس مقام تک لے آۓ جس
کا حُکم اِس سے پہلے حُکم میں دیا جا چکا ہے اور ایک قومی سفارت کا اندازِ
بیان ایسا غیر شائستہ و غیر مہذب ہر گز نہیں ہونا چاہیۓ کہ جو دو غیر
متصادم قوموں کو سرد جنگ کے اُس مقام تک لے جاۓ جس مقام کی اِس سے پہلے بھی
نشان دہی کی جا چکی ہے لہٰذا مہذب زبان و بیان کا قومی سطح پر بھی ایک
مناسب اہتمام کیا جاۓ اور بین الاقوامی سطح بھی ایک مناسب التزام کیا جاۓ
تاکہ اُمتِ مُسلمہ کی قومی سطح پر بھی اِس قُرآنی تعلیم و تربیت کا ایک
مناسب اعادہ و تکرار ہوتا رہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی اِس قُرآنی
تعلیم و تربیت کا اِس کے مناسب وقت پر مناسب اظہار ہوتا رہے اور اُمت کو ہر
دو سطح پر اِس تعلیم و تربیت کا وہ فائدہ حاصل ہوتا رہے جو قُرآن کو مطلوب
ہے ، قُرآن نے پہلی اٰیت میں قومی و بین الاقوامی سطح کی جو وسیع البنیاد
اجتماعی تعلیم دی ہے اِس تعلیم میں مرد و زن کا الگ الگ ذکر کیا ہے جس کا
مطلب یہ ہے کہ اُمت کے اِن سیاسی و سفارتی معاملات سے ایک مُسلم مرد کا
جتنا تعلق ہے ایک مُسلم عورت کا بھی اتنا ہی تعلق ہے اور ایک مُسلم مرد
اپنی علمی و عملی اہلیت سے جو قومی و بین الاقوامی ذمہ داریاں اَدا کر سکتا
ہے ایک مُسلم عورت بھی اپنی علمی و عملی اہلیت سے وہی قومی و بین الاقوامی
ذمہ داریاں ادا کر سکتی ہے ، اٰیاتِ بالا کی دُوسری اٰیت میں یہ ہدایت کی
گئی ہے کہ ایک انسان کو اپنی انفرادی حیثیت میں کسی دُوسرے انسان کی ذاتی
زندگی میں دخل دینے اور اُس کی جاسوسی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے لیکن انسان
کے اِس عمل میں اُن اداروں کے افراد شامل نہیں ہیں جو اپنے قومی و دفاعی
معاملات کی حفاظت کے لیۓ یہ اقدامات کرتے ہیں جو بڑی حد تک اُن کی ایک قومی
و دفاعی مجبوری ہوتے ہیں ، اِس دُوسری اٰیت میں دُوسری ہدایت یہ کی گئی ہے
کہ انسان کا انسان کے بارے میں بد گمانی قائم کرنا ایک مَنفی اور خوش گمانی
قائم کرنا ایک مُثبت عمل ہے اِس لیۓ ہر انسان کو ایک مَنفی عمل کے بجاۓ
ہمیشہ ہی ایک مُثبت عمل اختیار کرنا چاہیۓ اور اِس دُوسری اٰیت میں تیسری
اہم بات یہ کہی گئی ہے کہ جن لوگوں کے جن لوگوں کے ساتھ نزاعی معاملات چل
رہے ہوتے ہیں اُن لوگوں کو ایک دُوسرے کی عدم موجودگی میں ایک دُوسرے کے
خلاف بد زبانی کے بجاۓ خوش بیانی راس نہ آۓ تو کم از کم اِن کو ایک دُوسرے
کی انسانی حیثیت کا بہر طور احترام کرنا چاہیۓ کیونکہ انسانی نفسیات اور
محسوسات کے حوالے سے غیبت کرنا اسی طرح کا ایک مکروہ عمل ہے کہ جس طرح ایک
بھائی اپنے مرے ہوۓ بھائی کا گوشت نوچ نوچ کر کھاۓ کہ اُس کا وہ مرا ہوا
بھائی ایک زندہ انسان کی طرح اُس درد کو محسوس بھی کر رہا ہو تاہم یہ ایک
تمثیل ہے جس میں غیبت کرنے والے انسان کو اِس مکروہ عمل کی کراہت کا احساس
دلایا گیا ہے تاکہ وہ غیبت کے اِس عمل سے نفسانی لذت لینے کے بجاۓ ایک
رُوحانی کرب محسوس کر کے اپنی اُس عادتِ بَد سے باز آجاۓ !!
|