زندگی کی تلخ حقیقتیں

 کہنے والے کہتے ہیں تو ٹھیک ہی تو کہتے ہوں گے کہ پاکستان میں جمہوریت کرپشن کی علامت بن چکی ہے بڑے بڑے رہنماؤں نے سیاست کو صرف اپنی ترقی کیلئے مخصوص کررکھاہے یہی لوگ جرائم پیشہ افرادکی سرپرستی کررہے ہیں کراچی ، بلوچستان اور دیگر شہروں میں امن و امان کا مسئلہ بھی اسی لئے الجھاہوا ہے کہ مجرم ذہنیت لوگوں نے سیاست اور جمہوریت کو یرغمال بنارکھا ہے جس کی وجہ سے حالات مزید خراب ہوتے جارہے ہیں یہ عناصر اتنے طاقتور ہیں کہ ان کی مرضی کے بغیر پولیس اور دیگر قانون نافذکرنے والے ادارے ان کے علاقوں میں قدم بھی نہیں رکھ سکتے اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں ہر قسم کی کرپشن کو حرام قرار دیا گیاہے اس کیلئے حرام اور حلال کا ایک وسیع تصور ا س کے مفہوم ومعانی کااحاطہ کرتاہے یہ الگ بات کہ اب پاکستانی معاشرے میں حرام اور حلال کی تمیز ختم ہوگئی ہے یہی مسائل کی اصل جڑ ہے دولت کی ہوس ، ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ، معاشرہ میں جھوٹی شان و شوکت اورراتوں رات امیربننے کی خواہش نے اکثریت کو بے چینی میں مبتلا کرکے رکھ دیاہے۔ پاکستان کے کرپٹ افراد بہت طاقتورہیں اس میں حکمران، بیوروکریسی، سیاستدان،فیوڈل لارڈ،سرمایہ دار اور بڑی بڑی شخصیات شامل ہیں انہوں نے باقاعدہ مافیا کی شکل اختیارکرلی ہے لیکن نظریات کیلئے قربانیاں دینے والے دنیامیں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں، نبی ٔ اکرم ﷺ،حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔ سقرا ط ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام،امام حسینؓ،امام ابو حنیفہؒ ،سرمدؒجیسی شخصیات کانام اور مقام آج بھی دنیا میں سر بلندہے جبکہ ان کے دشمن تاریخ کی بھول بھلیوں میں گم ہوگئے اور آج ان کا کوئی نام لیوا بھی نہیں ہے۔موافق حالات، طاقت کا بے رحم استعمال اورریاستی جبر بھی ان کے ارادے متزلزل نہیں کرسکتا اور مشکلات بھی راستہ نہیں روک سکتیں ۔ غور سے دیکھا جائے تو دنیا میں صرف دو ہی طبقے ہیں ایک بااختیار ۔ دوسرا بے اختیار اور بے اختیار لوگوں کو اپنی دنیا آپ پیدا کرنا پڑتی ہے یہ اسے انسانیت کی معراج کہاجا سکتا ہے یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کو اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والے نئی منزلیں تلاش کرتے ہیں اور دنیا ان کی تقلیدکرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ شاید اسی لئے اقبال ؒ نے کہا تھا
میخانہ ٔ یورپ کے دستور نرالے ہیں
دیتے ہیں سرور اول لاتے ہیں شراب آخر

بالکل اسی طرح پاکستان ایک ایسا ملک بن گیا ہے جس میں تعلیمیافتہ نوجوانوں کو جاب کیلئے مقابلے کا امتحان پاس کرنا پڑتاہے لیکن ہمارے سیاستدان اورحکمران کسی قابلیت کے بغیر بار بار اسمبلیوں میں آتے ہیں اور قابل ترین لوگوں پرحکومت کرتے ہیں اس سے زیادہ اور کیا ستم ظریفی ہوگی کہ نااہل لوگ قابل لوگوں پر حکومت کریں۔ویسے اگردیکھاجائے تو دنیا میں بہت سے کام بڑی بڑی حکومتیں نہیں کر پاتیں لیکن سماجی شخصیات ناممکن کو ممکن بنا سکتی ہیں بس تھوڑی سی توجہ، کوشش اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے ملک سے غربت اور بیروزگاری ختم کرنے کے لئے ایسے ہی انقلابی اقدامات کی اشد ضرورت ہے صرف آغاز میں ہی مشکلات ہوتی ہیں پھر دئیے سے دیا جلتا جاتاہے ہم دل کی آنکھوں سے دیکھیں تو بیسیوں ایسے افرادنظر آئیں گے جو تھوڑی سی توجہ سے معاشرے میں با عزت مقام پا سکتے ہیں آئیے!آج صدق ِ دل سے ایک نئے مشن کا آغاز کریں ہر سال ایک فردکو روزگار اور ایک غریب طالبعلم کی فیس کااہتمام کرنے کا عزم کریں۔ یہ قوم کے درخشاں اور روشن مستقبل کی علامت ثابت ہوگا ۔۔پھر دیکھئے غربت کیسے ختم ہوتی ہے اور جہالت کے اندھیرے کب اور کہاں غائب ہو جائیں گے۔ اس نیکی کے طفیل ہو سکتاہے یہی عمل آپ کے لئے نجات کا سبب بن جائے۔ ہمیشہ بلندوبانگ دعوے تو ہر حکمران کرتاہے اگرحکمران واقعی ملک وقوم کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں اگر وہ’’ دجلہ کے کنارے کتا بھی بھوکا مر جائے تو قیامت کے روز خدا کے حضور عمر جوابدہ ہوگا‘‘کو اپنی حکومت کا ماٹو قراردیکراس کی روشنی میں حکمت ِ عملی تیار کریں تو اس سے بہتوں کا بھلاہوگا حکومت کے پاس درجنوں خفیہ ایجنسیاں ہیں کسی ایک ایجنسی کو پاکستان کی ہر فیملی بارے حقیقی سروے تیار کرنے کی ہدایت جاری کی جائے جو یونین کونسل سطح پر ان کے وسائل ،ضروریات اور دیگر امورکی مکمل چھان بین کرے جوکسی کاروبار،روزگار یا کسی ملازمت کے اہل ہوں ان کو بلا امتیازکسی رشوت یا سفارش اورگارنٹی کے بغیر وسائل مہیا کئے جائیں اس سے نہ صرف معاشرہ میں مثبت تبدیلی آئے گی بلکہ روزگارکے مواقع بھی بڑھیں گے ۔ کیونکہ اکثر غریبوں کو قرضے لینے کیلئے کوئی گارنٹر ہی میسر نہیں آتا جس کی وجہ سے وہ کسی بھی حکومتی سکیم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے عام آدمی کی حالت ِ زار بہتر بنانے کیلئے یہ پروگرام مرحلہ وار بھی شروع کیا جا سکتاہے جن شہروں میں غربت کی شرح زیادہ ہے وہاں ترجیحی بنیادوں پر ایسی سکیمیں جاری کی جا سکتی ہیں سب سے اہم بات یہ ہوگی کہ صرف حقدار وں کو ان کا حق ملے گا یہ بات بھی ریکارڈپرہے کہ غریبوں کو ملنے والے قرضوں کی واپسی کی شرح قریباً90% تک ہے جبکہ موٹی رقموں کے بڑے بڑے قرضے یا تو معاف کروا لئے جاتے ہیں یا بیشتر کمپنیاں دیوالیہ ہو جاتی ہیں عام آدمی کو خود روزگار کے قرضے دینے سے حکومت کے وسائل جو اکثر ضائع ہو جاتے ہیں مفید ہاتھوں میں جانے سے ملک میں حقیقتاً انقلاب بپا ہو سکتاہے اس سوال کا جواب یقیناکسی کے پاس نہیں ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود اکثر دالوں اورسبزیوں کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتیں عوام کے ہوش اڑاکررکھ دیتی ہیں ہرسال ماہ ِصیام میں تو گویا قیمتوں کو پر لگ جاتے ہیں اور سفیدپوش لوگوں کو مہنگائی کے مارے کوئی ڈھنگ کی چیز سحری اور افطاری میں میسر نہیں آتی عام آدمی تواب بھی غریب ہے اور وہی مسائل،وہی محرومیاں ان کا مقدر ٹھہریں کوئی بھی حکومت آجائے زرداری، نوازشریف یا عمران خان حکمران ہو یاکوئی اور ،جمہوریت ہو یا ڈکٹیٹرشپ ۔ عوام کی طرز ِ زندگی پرکوئی فرق نہیں پڑتا ان کی حالت اور حالات تبدیل نہیں ہوتے بحران در بحران عوام کو ہلا کررکھ دیتے ہیں ان بحرانوں کی آڑ میں ناجائز منافع خوروں کا اربوں روپے کما لینا معمول کی بات ہے ،کبھی لوڈشیڈنگ،اووربگنگ اوربجلی،سوئی گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ عوام پر بجلی بن کر گرتا ہے اورکبھی اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں خواب میں آکر ڈراتی رہتی ہیں ۔۔کبھی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے واقعات خوف وہراس کا باعث بنتے ہیں شہریوں کی اکثریت زندگی کی بنیادی سہولتوں سے یکسرمحروم ہے۔ابلتے گٹر،ٹوٹی سڑکیں اور مسائل در مسائل نے جینا عذاب بنا دیا،آلودہ پانی کے استعمال سے بیماریوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا،دہشت گردی،بیروزگاری اورمہنگائی سے لوگ عاجز آگئے خلوص ِ نیت شرط ہے یقین جانئے حکومت محض تھوڑی سی توجہ دے تو عوام کیلئے بہت کچھ کر سکتی ہے تھوڑی سی توجہ۔ذرا سی محنت سے عوام کو ان کے گمشدہ حقوق دئیے جا سکتے ہیں حکمران عوام کی امیدوں پر پورے نہ اتریں تو یقینا وہ حکومت مخالف لیڈروں کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں عوام نے میاں نواز شریف سے بہت پیار کیا تھا تیسری مرتبہ انہیں وزیرِاعظم بنایا تھا یہ کوگی معمولی بات نہیں جب کرپشن کی طلسم ِ ہوشربا منظر ِ عام پر آئی تو عوام میں زبردست اضطراب تھا میاں نوازشریف عوام کو سچ سچ بتانے کی بجائے یہی کہتے پھرتے رہے کہ مجھے کیوں نکالا؟ آصف زرداری نے بھی عوام کو سچ نہیں بتایا ان کے اکلوتے صاحبزادے کرپشن کا دفاع کرتے پھرتے ہیں یہی حال میاں شہبازشریف اور ان کے ہونہار بیٹوں کا ہے ایک مفرور دوسرا اس روز وزیر ِ اعلیٰ بن گیا جس روز اس پر نیب عدالت نے فرد ِ جرم عائد کرنا تھی مزے کی بات ہے ان کے بہنوئی بھی مفرور ہیں کوئی بھی عوام کو سچ بتانے کو تیارنہیں اقتدار میں ہونے کے باوجود نیب عدالتوں میں اکثر کرپشن، منی لانڈرنگ، بے نامی اکاؤنٹس میں پیشیاں ہوتی ہیں ۔ ایک اور سابقہ وزیرِ اعظم عمران خان بھی عوام سے وعدہ کیا تھا میں ہمیشہ سچ بولوں گا لیکن انہوں نے درجنوں بار یو ٹرن لے لیا اب ان کی اس اداپر بھی سو سو تاولیں پیش کی جارہی ہیں ۔عوام کے حقوق کی باتیں تو بہت ہوتی ہیں سیاستدان تو اکثر عوام کو آئین ،قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے خواب دکھاتے رہتے ہیں کوئی نیا پاکستان بنانے کا دعوےٰ کی کررہاہے کوئی انقلاب کی باتیں پاکستان میں تو ہمیشہ عوام کااستحصال کیا جاتا رہاہے حالانکہ سیاستدان ہی عوام کو نئے خوابوں سے روشناس کرواکر انہیں نئے خواب دکھاتے رہتے ہیں اور عوام اپنی آنکھوں میں یہ خواب سجاکر روشن مستقبل اور ترقی و خوشحالی کی دعائیں کرتے رہتے ہیں خدا کرے یہ جاگتی آنکھوں کے سپنے پورے ہو جائیں ان خوابوں کو بھی تعبیر ملے جو بے رنگ زندگی گذاررہے ہیں۔ خوفناک بات یہ ہے کہ عوام کو مہنگائی،بدامنی اور لوڈشیڈنگ کی دلدل سے نکالنے کیلئے حکمرانو ں نے بھی کچھ نہیں کیا، جاگتی آنکھیں آج ایک اور خواب دیکھ رہی ہیں یہ خواب ہے پاک چائنہ اقتصادی راہداری منصوبے کا شنیدہے کہ اس کی تکمیل سے پاکستان میں نئے انقلابی دورکا آغازہوگا جس سے ملک بھر میں ترقی و خوشحالی کی لہر دوڑ جائے گی سناہے یہ منصوبہ پاکستان کی ترقی میں ریڈھ کی ہڈی کی مانندہے اس عظیم قومی منصوبہ کو متنارعہ بنانے کی سارش کرنے والے ملک وقوم کے دشمن ہیں حالانکہ پاک چائنہ اقتصادی راہداری کا فائدہ تمام صوبوں کوہوگاپاکستان کی سیاسی قیادت کا ا س منصوبہ پر اتفاق قومی امنگوں کا مظہرہے حکومت نے چھوٹے صوبوں کے تحفظات جس اندازسے دور کرانے کی یقین دہانی کروائی ہے وہ خوش آئندہے۔منصوبے میں مغربی روٹ کو ترجیح دی جائے گی جس سے ظاہر ہوتاہے کہ موجودہ حکومت تمام صوبوں کو یکساں حقوق د ینے کے لئے پرعزم ہے کونا وائرس نے ملکی معیشت کا دھڑن تختہ کرکے رکھ دیاہے کرونا ہے کیا؟ اس بارے روز نئی نئی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں لیکن سچ کیاہے عام آدمی نہیں جانتا حالات مشکل سے مشکل تر ہوتے جارہے ہیں اس کے باوجود دعاہے کہ خداکر ے ہماری جاگتی آنکھوں کے خوابوں کو روشن مستقبل کی تعبیرملے۔
 

Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 462 Articles with 337411 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.