توہین رسالت ؐ پر احتجاج کافی نہیں

 مسیحاانسانیت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم روئے زمین کی تمام ارواح میں سب سے پاکیزہ ومقدس شخصیت کا نام ہے ۔سب سے راست گو ، سب سے پاک باز وپاک طینت ، دوشیزہ سے زیادہ باحیاء ، سب سے کشادہ دست و کشادہ قلب ، نفس ونسب میں سب سے اشرف ، اعلی وبالا،دشمن جان بھی جن کے صدق وامانت کی گواہی دیں،محسن انسانیت ،غلاموں ، بے سہارا وبے آسرا کا ملجا وماوی ، جبر واستبداد ، ظلم وتعدی اور لوٹ کھسوٹ کے سخت خلاف ، رعایا کے حقوق کا ضامن و محافظ ، صبر وضبط ، عفو ودر گزر اور حلم وبردباری کے پیکر مجسم ، جن کی نگہباں ، جبرئیل ہوں جن کے رہبر ورہنما ، اور توفیق الٰہی ہو جن کے شانہ بہ شانہ !اس ذات کے بلندیِ مرتبہ کا کیا ہے کوئی ٹھکانہ ؟اس نبی ؐمختار کی عزت وحرمت اور اس کے لائے ہوئے دین وکتاب کی نصرت و حمایت تاقیامت زندہ و جاوید رکھنے کی ذمہ داری رب کائنات کے ذمے ہے ، بد زبانوں کی بد گوئی اور گستاخوں کی گستاخی سے ناموس رسالت کو کوئی خطرہ ہے نہ اس کی عزت وشان میں سر مو فرق آنا ممکن ہے ، ابو جہل وابولہب ، کعب بن اشرف ،ابو رافع اور اس کے حواری موالی سب اپنے عبرتناک انجام بد کو پہنچے ہیں اور پہنچتے رہیں گے ان شاء اﷲ !ْ۔اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کی شان میں گستاخیاں کرنا ابتداے اسلام سے ہی اسلام دشمن عناصر کا وطیرہ رہا ہے ؛ بلکہ پیش رو انبیاء کے ساتھ بھی یہ جاہلانہ سلوک روا رکھا گیا ۔ دین اسلام کی شبانہ روز کی ترقی دشمنان اسلام کو کبھی ہضم نہ ہوئی ،اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کے خلاف نازیبا الزامات اور اہانت آمیز ریمارکس ازل سے ہی جاری وساری ہے ۔نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو ساحر ومجنون کہنا، تمسخر اڑانا ، توہین شان کرنا اسی قلبی بغض وحسد کا مظہر ہے جو شروع دن سے اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف چلا آرہا ہے ۔
اور (اے نبی ! ) یہ جب آپ کو دیکھتے ہیں تو ایسے تمسخر ہی کرتے ہیں کہ کیا یہ وہی ہے کہ جس کو اﷲ نے رسول بنا کر بھیجا ہے ۔(الفرقان: 41)ان کے منہ سے عداوت ظاہر ہوچکی ہے اور جو کچھ ان کے دلوں میں پوشیدہ ہے وہ تو بہت ہی بڑھ کر ہے ۔آل عمران – 118)بھارت میں رسول ﷺ کی گستاخی کا تسلسل مودی کی سر پرستی میں جاری ہے ۔قبل ازیں سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کو پناہ دیکر مسلم امہ کے جذبات سے کھلواڑ کیا گیا ْ۔کملیش تیواری تو وسیم رضوی تو کبھی نرسنگھا نند جیسے بد ترین قسم کی ذہنیت رکھنے والے کبھی قرآن کی توہین کرتے ہیں تو کبھی رسولؐ کی توہین کرتے ہیں۔ان کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔حال ہی میں بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما نے رسالت مآب ؐکی شان میں جو گستاخی کی ہے اور جس شدید حقارت کے ساتھ ٹیلی ویژن پر اسلام اور پیغمبر اسلام ؐکے خلاف اپنی گہری نفرت کا اظہار کیا ، وہ سنگھ کی تربیت گاہوں میں برسوں سے جاری ہے۔ بی جے پی اگر واقعی تمام مذاہب کا احترام کرتی جیسا کہ اس نے اپنے بدزبان ترجمان کی برطرفی کے موقع پر کہا تھا تو نوپور شرما کو اتنی جرأت ہی نہیں ہوتی کہ وہ ایسی گھناؤنی حرکت کا مرتکب ہوتی۔ فاشزم کی گود میں پل کر پروان چڑھنے والی نوپور شرما کو معلوم تھا کہ اسلام اور مسلمان کے خلاف زہر افشانی ایک ایسا مجرب نسخہ ہے جو مذہبی جنونیت کے نشہ میں سرشار ہندو معاشرہ کو ہمیشہ سرور کی ایک خاص کیفیت میں مبتلا کر دیتا ہے اور اس سے ووٹ کے راستے اقتدار کا راستہ آسان ہو جاتا ہے۔ بس نوپور شرما نے یہ اندازہ نہیں لگایا کہ ہندوستانی مسلمان جب اس کی گستاخی پر آواز احتجاج بلند کریں گے تو اس کی گونج عرب دنیا تک پہنچے گی اور ایسا سفارتی طوفان پیدا ہوجائے گا جس میں خود اس کا عہدہ باقی نہیں رہے گا۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ عرب ممالک نے ہندوستانی سفارت کاروں کو طلب کرکے ان کے سامنے اپنی ناراضگی ظاہر کی ہے۔ قطر پہلا عرب ملک ہے جس نے اس سلسلہ میں اقدام کیا اور اپنی ناراضگی ظاہر کی اور پھر اس کے بعد یکے بعد دیگرے بے شمار عرب اور اسلامی ملکوں سمیت او آئی سی اور جی سی سی نے اپنے احتجاجات درج کرائے اور سخت ردعمل دیا۔ قطر کے اس اقدام کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس دن ہندوستانی سفیر کو قطر کی وزارت خارجہ نے طلب کرکے اپنی شکایت درج کرائی ، اس دن ہندوستان کے نائب صدر وینکیا نائیڈو قطر کے دورہ پر تھے اور اس واقعہ کا اثر یہ ہوا کہ ان کے اعزاز میں جو لنچ کا پروگرام رکھا گیا تھا، اس کو منسوخ کر دیا گیا۔ بلاشبہ اس واقعہ سے بی جے پی کا یہ نفاق بھی دنیا کے سامنے ظاہر ہوگیا کہ وہ دراصل اپنے ملک کے باشندوں کے مذہب و عقیدہ کا لحاظ نہیں کرتی۔ اس کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ یہ پارٹی تمام مذاہب کا یکساں احترام کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج بات اس مرحلہ تک پہنچ گئی ہے کہ مسلم اقلیت کے قتل عام کا اعلان کھلے عام ہوتا ہے لیکن حکومت وقت اس کی ضرورت تک محسوس نہیں کرتی کہ مجرموں کوکٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ اگر اس بار بھی اسلامی ملکوں نے اپنے شدید ردعمل کا اظہار نہ کیا ہوتا اور عالمی سطح پر نریندر مودی کی امیج متاثر نہ ہوتی تو غالب گمان تھا کہ گستاخ رسولؐ نوپور شرما اور جندل کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی جیسا کہ اس بات سے ظاہر ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے مسلسل احتجاج کے باوجود بی جے پی نے تقریباً دس دنوں تک کوئی ایکشن نہیں لیا تھا۔ قطر، کویت، سعودی عرب اور ایران نے ایک ہی دن میں ہندوستانی سفیروں کو طلب کر کے اس بیہودگی پر سخت احتجاج کیا اور ان ملکوں کے بڑے بڑے سپر اسٹوروں سے ہندوستانی اشیا ہٹائی جانے لگیں، یہ مار چونکہ کارپوریٹ کے مفاد پر پڑ رہی تھی، اس لیے مودی حکومت نے بعد از خرابی بسیار اور با دل نخواستہ اپنی خاتون ترجمان کو پارٹی سے معطل کر دیا حالانکہ یہی حرکت اگر کسی مسلم یا دلت نے کی ہوتی تو اس پر سخت ترین دفعات پر مقدمہ درج کر کے گرفتار کر لیا گیا ہوتا اور اس کے گھر پر بلڈوزر چلا دیا گیا ہوتا۔شیو لنگ پر کوئی تبصرہ کر دینے سے دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر رتن لال کو فی الفور گرفتار کر لیا جاتا ہے لیکن اس بدزبان ترجمان کے خلاف متعدد تحریری شکایتوں کے باوجود تا دم تحریر کوئی مقدمہ نہیں درج کیا گیا ۔ بیرون ملک رد عمل کے بعد اسے پارٹی سے معطل کر دینا کوئی سزا تو نہیں ہے۔بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم پر باولا ہو کر بی جے پی کی طلبہ تنظیم کے رہنما ہرشیت سری واستو نے ٹی وی چینل پر زہر اگل رہے ہیں کہ بھارتی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے والے عرب ممالک کے مقامات مقدسہ پر میزائل حملے کر دینے چاہئے کیونکہ یہ بھارتی میزائل اور بم صرف یوم جمہوریہ کی نمائش کے لئے نہیں بنائے۔ یاد رہے اس وقت تقریباً ایک کروڑ بھارتی خلیجی ریاستوں میں روزگار کے لئے مقیم ہیں اور بھارت اپنا 60 فیصد تیل انہی ممالک سے حاصل کرتا ہے اس کے باوجود مودی حکومت نے اْمت مسلمہ سے معافی مانگنے کی بجائے قطر ایئرویز پر پابندی کی مہم چلا دی ہے جوکہ امریکہ اور اسرائیل کی سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں۔ دنیا بھر میں گذشتہ سالوں میں پیش آئے گستاخانہ واقعات پر طائرانہ نظر ڈالیں توپتہ چلتا ہے کہ صہیونیت کے دریدہ دہن عناصر نے اس گھناؤنے عمل کو مستقل مشن بنا رکھا ہے ، اکتوبر 2001 ء کوایک ویب سائٹ پر حضور ؐسے منسوب تصاویر نہایت تمسخر آمیز مضامین کے ساتھ شائع کی گئیں،اور یہ تاثر دیا گیا کہ نعوذ باﷲ آپ ؐدنیا میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے کے لئے آئے تھے ، ستمبر 2005ء میں ایک’’ ڈینش ‘‘اخبار میں اہانتِ رسول ؐ کی گھناؤنی حرکت کامظاہر کیا گیا ، فروری 2006 ء میں مغربی ممالک کے کئی اخبارات نے ایک ساتھ توہین آمیز کارٹونوں کو شائع کیا جس پر سارے عالم میں بھونچال آگیا ۔ اصل میں انبیاء کی شان میں گستاخی اور مذہبی مقدسات کی توہین یہود و ہنودکی سرشت میں شامل ہے، یہی وجہ ہے کہ نہ صرف یورپ بلکہ بھارت میں بھی میں اس قسم کے واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آرہے ہیں۔بھارت میں مسلمانوں کیخلاف گزشتہ آٹھ برس میں عصبیت و منافرت کا جو ماحول آر ایس ایس اور اس کی تمام ذیلی تنظیمیں بشمول بھارتیہ جنتا پارٹی نے تیار کیا ہے، اس کی وجہ سے نہ صرف مسلمانوں کا ایمان و عقیدہ زد پر ہے بلکہ مسلمانوں کا اپنا وجود بھی خطرہ میں ہے۔ مسلمانوں کے خلاف زہرافشانی کی مذموم مہم عروج پر ہے ۔ جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے بعض بیانات نے اس مہم کو جلا بخشی ۔ مثال کے طور پرگجرات فسادات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وہ نہ صرف مسلمانوں کو اشارتاً ’’کتے کا پلّا‘‘ کہہ چکے ہیں بلکہ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف جاری تحریک و احتجاج میں حصہ لینے والے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے اپنے حامیوں کو یہ بھی بتا چکے ہیں کہ کن لوگوں کو کپڑوں سے پہچانا جا سکتا ہے۔ مسلم وجود سے نفرت کا ماحول سنگھ اور بی جے پی نے کس قدر گہرائی اور شدت کے ساتھ قائم کیا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سی اے اے اور این آر سی کے نام پر جب پورے بھارت کے مسلمانوں کو مسلسل خوف کے سایہ میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا جا رہا تھا، اس دوران وزیر داخلہ امت شاہ لگاتار کہتے رہتے تھے کہ تمام بنگلہ دیشیوں کو بنگال کی کھاڑی میں پھینک دیا جائے گا۔ بنگلہ دیشی یا روہنگیا تشخص کا استعمال صرف ایک بہانہ ہوتا ہے، ورنہ نشانہ پر اصلاً ہندوستانی مسلمان ہوتے ہیں۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے جیسے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت سنگھ اور بی جے پی کے رگ و پے میں پوری طرح سرایت کر چکی ہے۔ مودی کے دور اقتدار میں مسلمانوں کے خلاف تشدد اور فسادات کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ 2016سے 2020 کے چار برسوں کے دوران فرقہ وارانہ تشدد کے 3399 واقعات درج ہوئے ۔ 2016ء میں 698مسلم مخالف فسادات ہوئے تھے جو2020میں بڑھ کر723ہوگئے۔آج 2022ء میں صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بھارتیہ جنتاپارٹی سے وابستہ لیڈران سر عام توہین رسالت کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ جو کچھ ہو رہاہے، اسے حکومت کی مکمل تائید حاصل ہے۔ مذہبی آزادی ختم کرناحکومت کے ایجنڈا میں شامل ہے۔۔ اروناچل پردیش، چھتیس گڑھ،گجرات، ہماچل پردیش، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، اوڈیشہ، راجستھان، اتر پردیش اور اتراکھنڈ سمیت ملک کی 28 میں سے 10 ریاستوں میں مذہب کی تبدیلی پر پابندی کے قوانین موجود ہیں اور ان ریاستوں میں مذہب تبدیل کرنا جرم ہے۔ یہ قانون مسلمانوں اور مسیحیوں پر پوری طاقت کے ساتھ نافذ کیاجارہاہے۔ گائے کی حفاظت کے نام پر انسانوں کے قتل و خون کی کھلی آزادی دے دی گئی ہے۔

Naseem Ul Haq Zahidi
About the Author: Naseem Ul Haq Zahidi Read More Articles by Naseem Ul Haq Zahidi: 194 Articles with 162509 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.