فضائل حج

 دین اسلام میں فرض عبادات میں ''حج'' کو ممتاز حثیت حاصل ہے۔ یہ صاحب استطاعت پر فرض ہے، یعنی ہر وہ مسلمان جو فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے سفری اخراجات برداشت کرسکتا ہو اور اپنے اہل و عیال کے لئے اتنا سامان چھوڑ سکتا ہوکہ اسکی غیر موجودگی میں اہل و عیال اپنا قیام و طعام وغیرہ کا بخوبی بندوبست کرسکیں۔ حج کے فضائل میں قرآن مجید کی بہت سی آیات اور احادیث موجود ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ کریم کا ارشاد پاک ہے ''لوگوں میں حج (کے فرض ہونے) کا اعلان کرو (اس اعلان سے) لوگ تمہارے پاس (یعنی تمہاری اس عمارت کے پاس حج کے لئے) چلے آئیں گے پیدل چل کر بھی اور ایسی اونٹنیوں پر (سوار ہوکر) بھی جو دور دراز راستوں سے چل کر آئی ہوں اور (سفر کی وجہ سے) دُبلی ہوگئی ہوں۔ تاکہ یہ آنے والے اپنے منافع حاصل کریں (سورۃ الحج)۔ ایک حدیث کے مطابق، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت اللہ یعنی خابہ کعبہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو بارگاہ خداوندی میں عرض کیا کہ تعمیر سے فراغت ہوچکی ہے اس پر اللہ جل شانہ کی طرف سے حکم ہوا کہ لوگوں میں حج کا اعلان کرو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا کہ یااللہ میری آواز کس طرح پہنچے گی، اللہ پاک نے فرمایا کہ آواز کا پہنچانا ہمارے ذمہ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اعلان فرمایا جس کو آسمان و زمین کے درمیان ہر چیز نے سنا۔ دوسری حدیث مبارکہ کے مطابق جس شخص نے بھی خواہ وہ پیدا ہوچکا تھا یا ابھی تک عالم ارواح میں تھا اس وقت لبیک کہا وہ حج ضرور کرتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جس نے ایک مرتبہ لبیک کہا ہو ایک حج کرتا ہے جس نے اس وقت دو مرتبہ لبیک کہا وہ دو حج کرتا ہے اور اسی طرح جس نے اس سے زیادہ جتنی مرتبہ لبیک کہا اتنے ہی حج اسکو نصیب ہوتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص اللہ کے لئے حج کرے اس طرح کہ اس حج میں نہ رفث ہو (یعنی فحش بات) اور نہ فسق ہو (یعنی حکم عدولی) وہ حج سے ایسا واپس ہوتا ہے جیسا اس دن تھا جس دن ماں کے پیٹ سے نکلا تھا۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالی عرفہ کے دن سے زائد بندوں کو جہنم سے نجات دیتے ہوں۔ یعنی جتنی کثیر مقدار کو عرفہ کے دن خلاصی ہوتی ہے اتنی کثیر تعداد کسی اور دن کی نہیں ہوتی۔ حق تعالی شانہ (دنیا کے) قریب ہوتے ہیں پھر فخر کے طور پر فرماتے ہیں یہ بندے کیا چاہتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ حق تعالی شانہ فرماتے ہیں یہ میرے بندے بکھرے ہوئے بالوں والے میرے پاس آئے ہیں میری رحمت کے امیدوار ہیں (اسکے بعد بندوں سے خطاب فرماتے ہیں) اگر تمہارے گناہ ریت کے ذروں کے برابر ہوں اور آسمان کی بارش کے قطروں کے برابر ہوں اور تمام دنیا کے درختوں کے برابر ہوں تب بھی بخش دیئے جاؤ، بخشے بخشائے اپنے گھر چلے جاؤ۔ ایک اور حدیث کے مطابق کہ جس شخص نے ایک حج کیا اس نے اپنا فریضہ ادا کیا اور جس شخص نے دوسرا حج کیا اس نے اللہ کر قرض دیا اور جو تین حج کرتا ہے تو اللہ جل شانہ اسکی کھال کو اسکے بال کو آگ پر حرام کردیتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ غزوہ بدر کا دن تو مستشنی ہے اسکو چھوڑ کر کوئی دن عرفہ کے دن کے علاوہ ایسا نہیں جس میں شیطان بہت ذلیل ہورہا ہو، بہت راندہ پھر رہا ہو بہت حقیر ہورہا ہو بہت زیادہ غصہ میں بھر رہا ہو اور یہ سب کچھ اس وجہ سے کہ عرفہ کے دن میں اللہ کی رحمتوں کا کثرت سے نازل ہونا، بندوں کے بڑے بڑے گناہوں کا معاف ہونا دیکھتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ حاجی کی سفارش چار سو گھرانوں میں مقبول ہوتی ہے یا یہ فرمایا کہ اسکے گھرانے میں سے چار سو آدمیوں کے بارے میں قبول ہوتی ہے (راوی کو شک ہوگیا کہ کیا الفاظ فرمائے تھے) اور یہ بھی فرمایا کہ حاجی اپنے گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے جیسا کہ پیدائش کے دن تھا۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب کسی حاجی سے ملاقات ہوتو اسکو سلام کرو، اس سے مصافحہ کرو اور اس سے پہلے کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہو اپنے لئے دعائے مغفرت کی اس سے درخواست کرو کہ وہ اپنے گناہوں سے پاک صاف ہوکر آیا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ حج میں خرچ کرنا جہاد میں خرچ کرنے کی طرح سے ایک روپیہ کے بدلہ سات سو (روپیہ) ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص حج کے لئے جائے اور راستہ میں انتقال کرجائے اسکے لئے قیامت تک حج کا ثواب لکھا جائے گا۔ اور اسی طرح جو شخص عمرہ کے لئے جائے اور راستہ میں انتقال کرجائے اسکو قیامت تک عمرہ کا ثواب ملتا رہے گا اور جو شخص جہاد کے لئے نکلے اور راستہ میں انتقال کرجائے اسکے لئے قیامت تک مجاہد کا ثواب لکھا جائے گا۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس شخص کے پاس اتنا خرچ ہو اور سواری کا انتظام ہو کہ بیت اللہ شریف جاسکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں اس بات میں کہ وہ یہودی ہوکرمرجائے یا نصرانی ہوکر۔ اسکے بعد نبی کریم ﷺ نے اپنے اس ارشاد کی تائید میں یہ آیت پڑھی جسکا ترجمہ یہ ہے کہ ''اور اللہ جل شانہ کے (خوش کرنے کے) واسطے لوگوں کے ذمہ اس مکان (یعنی بیت اللہ) کا حج (فرض) ہے اس شخص کے ذمہ ہے جو وہاں جانے کی سبیل رکھتا ہو اور جو منکر ہو تو (اللہ جل شانہ کا کیا نقصان ہے) اللہ تعالی تمام جہان سے غنی ہے (انکو کیا پرواہ)۔ اللہ کریم مجھ سمیت تمام امت رسول کو حج بیت اللہ کی سعادت نصیب فرمائے اور نبی کریم ﷺ کے روضہ پر جاکر درود و سلام کے نذرانے پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

 

Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 181 Articles with 115007 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.