گھر والے روز خرچہ مانگتے ہیں بارہ دن سے کام نہیں ملا، مہنگائی کے عالم میں مزدور کیسے صبح سے شام کرتے ہیں کچھ تلخ حقائق

image
 
فٹ پاتھ کے کنارے بیٹھے مزدوری کی تلاش میں مزدور صبح ہوتے ہی فٹ پاتھ پر بیٹھ جاتے ہیں جن کو گزرتے ہوئے اکثر ہم نے دیکھا ہوگا- مگر ان کی زندگی کے دکھوں کا ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کہ ہر روز کنواں کھود کر اس میں سے پانی پیتے ہیں۔ ان کی گزر بسر کا انحصار صرف اس بات پر ہوتا ہے کہ ان کو روزانہ مزدوری ملے مگر حالیہ حالات کے سبب شدید ترین مہنگائی کے سبب جب لوگوں کے گھروں میں کھانے کو نہیں ہے تو ایسے حالات میں کوئی کس طرح تعمیراتی کام کرے گا-
 
مزدوری نہ ملنے کی صورت میں حالات
فٹ پاتھ پر بیٹھے ایک مزدور کا یہ کہنا تھا کہ اس کو دس بارہ دن سے کسی بھی قسم کا کام نہیں ملا ہے اس کے گھر والے اس سے پیسوں کا تقاضا کرتے ہیں مگر کام نہ ملنے کے سبب وہ ان کے تقاضے پورے کرنے سے قاصر ہیں-
 
یہ وہ لوگ ہیں جن کے گھر کا چولہا ہر روز جلانے کے لیے روزانہ کام ملنا ضروری ہوتا ہے اور کام نہ ملنے کی صورت میں گھر میں فاقوں کی نوبت آجاتی ہے- ایسے لوگوں کو کوئی ادھار بھی یہ سوچ کر نہیں دیتا ہے کہ اگر ان کو ادھار دے دیا تو یہ لوگ لوٹائيں گے کیسے؟
 
آٹھ سو روپے دیہاڑی مگر آئل 610 روپے لیٹر
اپنے حالات بیان کرتے ہوئے ایک اور مزدور کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی ایک دن کی دیہاڑی صرف 800 روپے ہوتی ہے جب کہ آج کل کے دور میں پکانے کا آئل 610 روپے لیٹر دستیاب ہے- اس صورتحال میں اس مزدور کا یہی کہنا تھا کہ ہم لوگ اب چنے پھانکنے پر مجبور ہوگئے ہیں-
 
image
 
خودکشی کے علاوہ اب کوئی چارہ نہیں بچا
اس حقیقت سے تو سب ہی واقف ہیں کہ خودکشی حرام ہے مگر بعض اوقات مجبوری انسان کو یہ کڑوا گھونٹ بھرنے پر بھی مجبور کر دیتی ہے- ایسی ہی صورتحال کا سامنا اس وقت مزدور بھی کر رہے ہیں-
 
ایک مزدور سے جب اس کی گزر بسر کے حوالے سے پوچھا گیا تو اس کا جواب یہی تھا کہ گھر والے پیسے نہ دینے پر روز ذلیل کرتے ہیں اور روزگار کے کچھ امکانات نظر نہیں آرہے- یہاں تک کہ اب وہ خود کو خودکشی کرنے پر مجبور سمجھ رہا ہے-
 
عوام پریشان مگر حکمران بے فکر
مہنگائی کے اس طوفان کا مقابلہ کرنے والی غریب عوام کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے مسائل اور حالات کا اندازہ حکمران طبقے کے وہ افراد کبھی بھی نہیں کر سکتے ہیں جو گرمی سردی کے موسم کو بھی اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں- ان کو اس بات کی کیا فرق پڑ سکتا ہے کہ عام کھانے پینے کی اشیا کتنی مہنگی ہو گئی ہیں جن کے گھر سامان منگوانے کے لیے بھی نوکر ہوں-
 
ریاست ہوگی ماں کے جیسی
ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ریاست ہوگی ماں کے جیسی، ریاست یا جکومت یہ کیسے برداشت کر رہی ہے کہ اس کے بچے کام نہ ملنےکے سبب فٹ پاتھ پر بیٹھ کر ایڑیاں رگڑ رہے ہیں- مگر ان کی پیاس بجھانے والا کوئی چشمہ نہیں پھوٹ رہا ہے-
 
image
 
ریاست یہ کیسے برداشت کر رہی ہے کہ وہ تو آرام سے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر فری پٹرول کا استعمال کرتے ہوئے بڑی بڑی گاڑیوں میں سفر کر رہے ہیں جب کہ ان کے بچے ایک وقت کے کھانے کے لیے پریشان ہیں-
 
ریاست یہ کیسے برداشت کر رہی ہے کہ وہ تو آرام سے اعلیٰ برانڈ کے کپڑے پہن کر مہنگی گھڑياں پہن کر وقت گزار رہے ہیں جب کہ ان کے بچے یا عوام بھوک کے سبب خودکشی پر مجبور ہے-
 
قیامت کے دن ان تمام مزدور طبقے کے افراد کا ہاتھ ان حکمرانوں کے گریبان پر ہو گا کاش کہ کسی کے دل تک ان کی فریاد پہنچ جائے-
YOU MAY ALSO LIKE: