ماضی کا غریب آج کا امیر۔۔۔ پاکستان سے آزادی لینے والا بنگلہ دیش پاکستان کو ہی آج قرضہ دینے کی پوزیشن میں کیسے؟

image
 
پاکستان سے ایک ہزار میل دور اور بھارت کے ساتھ 3 اطراف سے ملا ہوا مشرقی پاکستان سیلاب، بھوک، بدحالی اور قحط کی وجہ سے مشہور رہا، غربت کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کی حالت زار قیام پاکستان کے وقت انتہائی ابتر تھی لیکن آج بنگلہ دیش پاکستان ہی نہیں بلکہ بھارت کو بھی معاشی ترقی میں پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ 50 سال میں انتہائی غربت اور مسائل سے دوچار بنگلہ دیش نے تیزی سے ترقی کی منازل کیسے طے کیں اس سے پہلے ہم آپ کو بنگلہ دیش کا کچھ پس منظر بتاتے ہیں۔
 
بنگلہ دیش میانمار کے ساتھ مختصر سی سرحد کے علاوہ تین اطراف سے بھارت سے ملا ہوا ہے۔14 اگست 1947ء سے لے کر 1971ء تک یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا حصہ رہا ہے۔ اب جنوب میں اس کی سرحدیں خلیج بنگال سے ملتی ہیں۔ پاکستان کے دونوں مشرقی و مغربی حصوں کے درمیان 1600 کلومیٹر یعنی ایک ہزار میل کا فاصلہ حائل تھا۔ مشترکہ مذہب ہونے کے باوجود پاکستان کے دونوں بازوؤں میں نسلی و لسانی خلیج بڑھتی گئی جو بالآخر 1971ء میں ایک خونی جنگ کے بعد شیخ مجیب الرحمٰن کی قیادت میں بنگلہ دیش کے قیام کا سبب بنی۔
 
بنگلہ دیش کی آبادی تقریباً 17 کروڑ کے قریب ہے اور مسلمان اکثریت کے باوجود پاکستان سے الگ کیوں ہوا یہ الگ کہانی ہے لیکن ماضی میں بھوک اور بدحالی کی وجہ سے تمسخر کا نشانہ بننے والا بنگلہ دیش آج خطے میں رول ماڈل کیسے بنتا جارہا ہے یہ سوال اکثر ذہنوں میں کلبلاتا ہے۔
 
 
بنگلا دیش نصف صدی قبل آزاد ہوا ،اس کی تخلیق قحط اور جنگ کے دوران ہوئی۔ اُس وقت یوں لگا کہ بنگلادیش ناکام ہو جائے گا لیکن آج معاشی ماہرین جہاں بنگلہ دیش کی ترقی دیکھ کر حیران ہیں وہ پاکستان کو رواں دہائی میں بنگلہ دیش سے قرض لینے والے ملک کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
 
ماضی میں پاکستان میں جگہ جگہ بنگالی کثرت سے دکھائی دیتے تھے اور بنگلہ دیشی کرنسی ٹکا کو انتہائی حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا لیکن آج وہ ہی ٹکا پاکستانی روپے کے مقابلے میں دگنی قیمت پر پہنچ چکا ہے۔ جہاں پاکستان کے 200 روپے میں بھی ایک ڈالر دستیاب نہیں وہاں بنگلہ دیش کے 95 ٹکا میں ڈالر مل جاتا ہے یعنی اگر دیکھا جائے تو ایک ٹکا پاکستان کے 2 روپے سے بھی زیادہ کا ہے۔
 
رواں سال بنگلہ دیش کی جی ڈی پی کا تخمینہ 400 بلین ڈالر جبکہ اگلے سال 430 بلین ڈالر تک لگایا جارہا ہے اور جہاں عالمی بینک نے بنگلہ دیش کی شرح نمو 6 اعشاریہ 4 سے 6 اعشاریہ 7 فیصد تک بڑھنے کی پیشگوئی کی ہے وہیں پاکستان کی معاشی ترقی کا اندازہ 5 اشاریہ 7 فیصد تک لگایا گیا ہے۔
 
بنگلہ دیش نے بھی سیاسی عدم استحکام اور فوجی بغاوتوں کا دور دیکھا لیکن سیاسی قیادت کے اتفاق سے بھوک اور بدحالی کیلئے یاد کیا جانیوالا بنگلہ دیش ترقی کے لحاظ سے عالمی طاقتوں کیلئے ’’ونڈر فل پزل‘‘ بن چکا ہے۔
 
image
 
400بلین ڈالر سے زائد کی جی ڈی پی پاکستان کی 347 بلین ڈالر کی جی ڈی پی کے مقابلے بنگلہ دیش کو پاکستان سے زیادہ مستحکم ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔50 سال پہلے 1971 میں پاکستان بنگلا دیش سے 70 فیصد امیر تھا لیکن آج بنگلا دیش پاکستان سے 45 فیصد امیر ہے کیونکہ بنگلہ دیش نے درآمد کے بجائے برآمدات کے کلچر کو فروغ دیا اور بنگلہ دیش میں گزشتہ چند سالوں سے برآمدات میں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے، یہاں صنعتیں پھل پھول رہی ہیں اور صرف مقامی ہی نہیں بلکہ پاکستان سے بھی کئی سرمایہ کار بنگلہ دیش منتقل ہوکر وہاں کاروبار کررہے ہیں۔
 
بنگلہ دیش نے روزگار کو ترقی کی سیڑھی بناکر نوجوانوں کو معیشت کا حصہ بنایا اور 1980 تک زراعت پر انحصار کرنیوالا بنگلہ دیش آج صنعتی ترقی کی وجہ سے خطے میں تیزی سے ابھر رہا ہے اور پاکستان 122 ارب بیس کروڑ ڈالر کے قرضوں کے پہاڑ تلے دبتا جارہا ہے۔
 
یہاں سوالیہ ہے کہ بھوک اور بدحالی سے دوچار بنگلہ دیش ترقی کرسکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں۔ پاکستان میں زراعت کا شعبہ تنزلی کا شکار کیوں ہے، زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم اور دیگر خوردنی اشیاء امپورٹ کرنے کی وجہ کیا ہے؟، پاکستان میں صنعتوں کو ترقی کا موقع کیوں نہیں دیا جاتا۔ مشکلات کے باوجود غیر ملکی اشیاء پر انحصار کیوں کیا جاتا ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری اور بدامنی کیوں پاکستان کا مقدر بن چکی ہے۔ ان سوالوں کے جواب تلاش کرکے شائد ہمیں بھی بنگلہ دیش کی ترقی کا راستہ مل سکتا ہے۔
YOU MAY ALSO LIKE: