”سُپر پاور“ اور آٹے دال کا بھاؤ

پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ہر معاملے میں بھارت کی طرف دیکھنے کے عادی رہے ہیں۔ قانون پسندی کی مثال دینا ہو تو بھارت، ”ثقافتی ہم آہنگی“ کی مثال دینا ہو تو بھارت۔ میڈیا کے ذریعے جو یلغار اہل ہند نے ہم پر کر رکھی ہے اُس کے زیر اثر بہت سے لوگ اب زندگی کے ہر معاملے کو بھارتی عینک کی مدد سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ ایسے میں چمکتے بھارت سے اگر کوئی ”حوصلہ افزا“ خبر آئے تو خوشی کیوں نہ ہو؟

گزشتہ دنوں ہماری عزیزہ فیروزہ آپا احمد آباد سے آئیں تو ہم بھی ملنے گئے۔ جب اُن سے پوچھا کہ شہر گھوم پھر کر دیکھ لیا تو اُنہوں نے حالات کے ذمہ دار عناصر کو ”خراج عقیدت“ پیش کرنا شروع کردیا۔ کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے اُس پر وہ خاصی دل برداشتہ تھیں۔ باتوں سے یکسر تاسّف جھلک رہا تھا۔ اُن کے دُکھی دِل کی باتیں سُن کر ہمارے پاس سَر جھکا دینے کے سوا چارہ نہ تھا۔ اب بھلا مہمان سے کیا بحث کی جاتی؟ کراچی کے حالات کا رونا روتے روتے جب وہ سانس لینے کے لیے رکیں تو ہم نے ہمت سے کام لیتے ہوئے اُن سے بھارت کا احوال پوچھ لیا۔ اُنہوں نے حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے دیس اور شہر کے قصیدے پڑھنا شروع کیا۔ کراچی کے حالات کی روشنی میں بھارت کا احوال سُن کر ہم شرمندہ ہوتے گئے۔ (یہ بھی بڑی بات ہے، ورنہ آج کل شرمندہ کون ہوتا ہے!) پھر ہم نے ایک ایسی بات پوچھی جس سے فیروزہ آپا کو بھی آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوگیا۔ جی ہاں۔ آپ کا اندازہ درست ہے، ہم نے اُن سے آٹے دال کا بھاؤ پوچھ لیا! یہ گویا دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھنا تھا۔

بھارت سے جو بھی آتا ہے یا جو بھی ہوکر آتا ہے وہ وہاں دودھ اور شہد کی ندیاں بہنے کی بات کرتا ہے۔ گڈ گورننس کی مثال بھی دھڑلّے سے دی جاتی ہے۔ بھارتی ٹی وی چینلز ایک ایسی دنیا دِکھا رہے ہیں جس میں ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہیں۔ مگر جب فرسٹ ہینڈ انفارمیشن ملتی ہے تو جنت کا منظر پیش کرنے والا معاشرہ سیکنڈ ہینڈ دکھائی دینے لگتا ہے! بھارتی ٹی وی چینلز اپنے معاشرے کو خاصی چمک دمک کے ساتھ پیش کرتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ اِس روشنی کے لیے تیل کی طرح جلنے والی جنتا کا کیا حال ہے!
جو تار سے نکلی ہے وہ دُھن سب نے سُنی ہے
جو ساز پہ گزری ہے وہ کس دِل کو پتا ہے!

فیروزہ آپا نے بتایا کہ مہنگائی تو بھارت میں بھی اچھی خاصی ہے۔ دودھ، گوشت، گھی، تیل، چاول، آٹا، سبزی، پھل.... کچھ بھی سَستا نہیں۔ جب اِن اشیاءکی قیمتوں کا موازنہ پاکستان میں اِنہی اشیاءکی قیمتوں سے کیا تو اندازہ ہوا کہ پاکستان کم و بیش 10 تا 20 فیصد سستا ہے!

ایک اور فرق فیروزہ آپا نہ بتاسکیں۔ بھارت میں صرف مہنگائی ہی زیادہ نہیں، کمانا بھی پاکستان سے کہیں زیادہ مشکل ہے! 1997 میں جب ہم آخری بار احمد آباد گئے تو ایک عزیز کے گھر پہنچ کر آٹو رکشہ سے اُترے اور پوچھا کہ میٹر کے حساب سے کتنے روپے بنے ہیں۔ رکشہ والے نے بتایا کہ میٹر 12 روپے بتا رہا ہے۔ ہم نے 15 روپے دیئے اور چل دیئے۔ رکشہ والے نے آواز دی۔ ہم واپس گئے تو اُس نے کہا باقی ”رقم“ تو لیتے جائیں! ہم نے کہا تین روپے کون سی بڑی رقم ہے، تم رکھ لو۔ اُس نے جھٹ سے پوچھا کیا آپ پاکستان سے آئے ہیں؟ ہم نے اثبات میں جواب دیا۔ اُس نے بتایا کہ یہاں تو کوئی دس بیس پیسے بھی نہیں چھوڑتا! اور پھر یہ بھی بتایا کہ سواری کو اِنکار کرنے کا اصول رائج نہیں۔ یعنی اگر کوئی رکشہ میں بیٹھ گیا ہے تو پھر وہ جہاں بھی جانا چاہے، لے جانا پڑے گا۔ خواہ واپسی پر رکشہ والے کو دو تین کلومیٹر خالی ہی آنا پڑے! وہاں کے رکشوں میں لگے ہوئے میٹر میں رقم دس دس پیسے کے حساب سے بڑھتی ہے۔ اگر میٹر 9 روپے 80 پیسے بتا رہا ہو تو لوگ 10 کا نوٹ دینے کے بعد 20 پیسے لینے کے لیے بھی رُکتے ہیں! بات اگرچہ اُصولی ہے مگر اعلیٰ ظرفی اور وسیع القلبی بھی تو کوئی چیز ہے!

پورے معاشرے کا مزاج اِسی نوعیت کا ہے۔ اگر کسی کی جیب زیادہ بھری ہوئی نہ ہو اور گھر میں بھی اسباب میسر نہ ہوں تو بُخل نما کفایت شعاری سے جینا قابل فہم ہے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ لوگ غیر معمولی وسائل سے ہمکنار ہونے کے بعد، کروڑوں میں کھیلتے ہوئے بھی ہاتھ کھینچ کر زندگی بسر کرتے ہیں! یہی خصلت جب وسعت اختیار کرتی ہے تو سنگ دِلی اور بے حِسی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی مستحق دِکھائی بھی دے تو دِل کی گِرہ نہیں کھلتی اور کچھ دینے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی!

عشروں سے سُنتے آئے ہیں کہ بھارت میں حکومت امیر ہے اور عوام غریب۔ اور پاکستان میں عوام کو امیر قرار دیا جاتا رہا ہے۔ ہم کیا اور ہماری ”امارت“ کیا! اللہ کا کرم کہیے کہ آج بھی اہل پاکستان اچھی طرح پیٹ بھر لیتے ہیں اور دوسروں کا پیٹ بھرنے کے بارے میں بھی ضرور سوچتے ہیں! ہماری حکومت بھی بہت سی حدوں سے گزر گئی ہے مگر خیر، خطے کی اُبھرتی ہوئی ”سُپر پاور“ کی قیادت کو زیادہ شرم آنی چاہیے کہ صرف آئی ٹی، آؤٹ سورسنگ اور نالج انڈسٹری کے شعبوں میں سالانہ 20 ارب ڈالر سے زائد زر مبادلہ کمانے والے مُلک میں لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء تک سستی نہیں مل پا رہیں۔ ایسی ترقی اور چمک دمک کس کام کی؟ اِس پر بھی اگر ”میرا بھارت مہان“ کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے تو بھارت سرکار کو تھوڑا سا کشٹ اٹھاکر ذرا ”مہانتا“ کی وضاحت بھی کردینا چاہے!

بھارت میں آج بھی بڑے شہروں کے فٹ پاتھ بستیوں کا درجہ رکھتے ہیں اور ان پر لاکھوں گھرانے آباد ہیں۔ ممبئی، کولکتہ، دِلّی، مدراس، حیدر آباد، بنگلور، احمد آباد اور دیگر بڑے شہروں میں فٹ پاتھ پر زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے! پاکستانی بھی افلاس کا مزا چکھ رہے ہیں مگر اِن سے کہیں زیادہ تو بھارت واسیوں کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو رہا ہے! ابھرتی ہوئی ”سپر پاور“ کا شہری ہونے کی کوئی نہ کوئی قیمت تو ادا کرنا ہی پڑے گی! اِنسان اپنے سے زیادہ بُرے حال میں کسی کو دیکھتا ہے تو دِل کو اطمینان سا ہوتا ہے کہ اللہ نے اُس حالت سے تو بچا رکھا ہے! بھارت سے نفسیاتی طور پر مَرعُوب رہنے والوں کو پاکستان اور بھارت کے درمیان صرف جمہوریت، عسکری قوت، گڈ گورننس اور قانون پسندی ہی کا نہیں بلکہ افلاس کی سطح کا بھی موازنہ کرنا چاہیے تاکہ دِل کو سُکون نصیب ہوتا رہے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524553 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More